تحریر : طارق حسین بٹ دنیا میں ہر شہ کو ایک دن انجام پذیر ہو جانا ہوتا ہے۔ ایک شہ سے دوسری شہ کا ظہور نظامِ فطرت کا حصہ ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی چیز کا آغاز تو کیا جائے لیکن اس کا کوئی انجام نہ ہو۔ عمران خان کا دھرنا بھی اس میں استثنائی صورت نہیں رکھتا تھا لہذا اسے بھی ایک دن اختتام پذیر ہونا تھا۔٣ ااگست کو شروع ہونے والے دھرنے کے دوران بہت سے ایسے مقا مات آئے جب لگنے لگا تھا کہ یہ دھرنا اٹھالیا جائیگا ۔ایک وقت تو وہ تھا جب ملک میں سیلاب نے تباہی مچائی ہوئی تھی اور عوام کے جان و مال اور مویشی اس سیلاب کی نذر ہو گئے تھے لیکن عمران خان نے دھرنا اٹھانے سے انکار کر دیاتھا ۔ان پر تنقید بھی ہوئی لیکن انھوں نے اس تنقید کو در خورِ اعتنا نہ سمجھا لہذا دھیرے دھیرے یہ تنقید اپنا اثر کھو بیٹھی۔دوسرا لمحہ اس وقت آیا جب علامہ ڈاکٹر طاہرا لقادری نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تو عمران خان پر ایک دفعہ پھر دبائو بڑھا کہ وہ اپنے دھرنے کو بھی موخر کر دیں لیکن عمران خان اپنے موقف پر ڈٹا رہا اور دھرنے کو موخر کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ دھرنے کو بہر حال ایک دن اپنے انجام سے دوچار ہونا تھالہذا وہ ١٦ دسمبر کو اختتام پذیر ہوا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ دھرنا١٢٦ دن چلا اور اس دھرنے سے عوام نے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔
موجودہ کرپٹ نظام اس بات کا متقاضی تھا کہ اس کے خلاف آواز بلند کی جاتی اور عران خان نے موجودہ بوسیدہ نظام کے خلاف آو از بلند کر کے لوگوں کے احساسات کو زبان عطا کی تھی ۔١٢٦ دنوں تک سخت گرمی، سردی اور موسمی اثرات کے سامنے ڈٹے رہنا کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن موجودہ نظام سے نالاں عوام نے یہ معجزہ بھی کر کے دکھا دیا ار حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔حکومت بظاہر گھٹنے ٹیکنے سے گریزاں نظر آتی رہی لیکن حقیقت یہی تھی کہ وہ گھٹنے ٹیک چکی تھی۔،۔ ١٦ دسمبر پاکستان کی تاریخ میں سیاہ ترین دن کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا کیونکہ اس دن تحریکِ طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)نے پشاور میں ایک سکول پر حملہ کر کے ١٣٦ بچوں کو شہید کر دیاتھا۔یہ سانحہ اتنا دردناک تھا کہ پورا پاکستان اس سے ہل کر رہ گیا۔دھشت گردوں نے اپنے پائوں کے نیچے اجلے پھولوں کو مسلا تو ایسے لگا کہ ہر پاکستانی کا دل دھشت گردوں کے نوکیلے پائوں کے نیچے ہے۔ہر پاکستانی درد سے بلبلا اٹھا اور دھشت گردوں سے نمٹنے کے لئے حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گیا کیونکہ عوام کی ترجیح دھشت گردوں کو عبرتناک سزا دلوانا تھی۔یہی وہ لمحہ تھا جب عمران خان نے اپنے دھرنے کو موخر کرنے کا اعلان کر دیا ۔ کچھ لوگوں کو عمران خان کا یہ اعلان ناگوار بھی گزرا اور انھوں ے اپنے انداز میں اسے نا پسند بھی کیالیکن سچائی یہی تھی کہ عمران خان نے دھرنے کو موخر کرنے کا اعلان کر کے پوری قوم کی ہمدردی سمیٹ لی تھی ۔ وہ لوگ جو عمران خان کے مزاج سے آشنا ہیں انھیں خبر ہو گی کہ عمران خان اپنی بات کا بڑا پکا ہے اور ہمیشہ اپنی بات پر پہرہ دیتا ہے۔
اس نے جب دھرنوں کا اعلان کیا تھا تو اکثریت کی رائے تھی کہ یہ دھرنا چند دنوں سے زیادہ نہیں چلے گا لیکن عمران خان نے اس دھرنے کو ١٢٦ دنوں تک قائم رکھ کر سب کو حیران کر دیا تھا۔علامہ ڈاکٹر طاہر لقا دری کے اسلام آباد سے رخصت ہونے کے بعد تو حکومت خوشی سے بغلیں بجا رہی تھی لیکن عمران خان نے نئی حکمتِ عملی سے اسے ایک دفعہ پھر زیرِ پا کر لیا۔کئی شہرو ں میں جلسے اور پھر چند شہروں میں دھرنے اور اان شہروں کو بزور بندکروانے کی حکمتِ عملی کے سامنے حکومت بے بس ہو گئی ۔ اپنی فتح کے نشے میں مخمور ہوتی ہوئی حکومت ایک دفعہ پھر مصائب کا شکار گئی ۔عمران خان کی نئی حکمتِ عملی اسلام آباد میں دھرنے سے زیادہ خطرناک ہو کر ابھری اور حکومت کے لئے امن و امان کو قائم رکھنا مشکل ہو گیاَیہی وہ مقام تھا جہاں عمران خان کی سیاسی قوت مسلمہ ہو گئی اوہ لوگ جھنیں اس کی سیاسی طاقت پر شکوک و شبہات تھے وہ بھی رفع ہو گئے اور انھیں یقین کرنا پڑا کہ پاکستان میں اصل عوامی قوت عمران خان کے پاس ہے۔عمران خان حقیقی اپوزیشن بن کر ابھرے تو عوام نے ان کے ساتھ مکمل تعاون کا ہاتھ بڑھایا جس سے حکومت کے لئے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے اور اس کی سٹی گم ہو گئی ۔،۔
Nawaz Sharif
عمران خان کا دھرنا موخر کرنا ایک ایسا سیاسی وار ہے جس سے میاں نواز شریف کا بچ جانا ممکن نہیں ہے۔ایک طرف عمران خان نے فوج کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا مظاہرہ کیا تو دوسری طرف عوامی جذبات کو اپنی مٹھی میں بند کر لیا ہے ۔دھرنا موخر کرنے سے اس کی سیاسی ساکھ مزید بہتر ہوئی ہے ۔ مطالبات کی منظوری تک ڈٹے رہنے والے عمران خان نے اگر وطن کے نو نہالوں کی شہادت پر دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ قوم کے بیٹوں کے سامنے اس کی انا اور ضد کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اس کی نظر میں وطن کے بیٹوں کا لہو اس کی انا اور مطالبات سے زیادہ اہم ہے اور اس کا عملی ثبوت دھرنے کا موخر کیا جا نا ہے۔عمران خان کا یہ عمل نواز شریف کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہے ۔ حکومت کیلئے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی صورتِ حال ہے۔اگر میاں نواز شریف دھاندلی کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل نہیں دیتے تو عوام لا محالہ یہ سمجھیں گئے کہ مئی ٢٠١٣ کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کروائی گئی تھی اور اگر کمیشن تشکیل دے دیا جاتا ہے تو پھر بھی اس کا نتیجہ یہی نکلنا ہے کہ دھاندلی ہوئی تھی کیونکہ چار حلقوں کو نہ کھو لنا اسی بات کی غمازی کر رہا ہے۔آصف علی زرداری،مولا فضل الرحمان اور دوسرے سیاسی زعما کا یہ کہنا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی اس پہلو سے انتہائی اہم ہے کہ یہ سارے قائدین حکومت کے حمائتی ہیں لہذا ان کی زبان سے دھاندلی کا اقرار حکومت کی پوزیشن کو کمزور کرنے کا اشارہ ہے۔جہاں تک میڈیا کا سوال ہے تو اس میں بھی جیت عمران خان کی ہوئی ہے کیونکہ دھاندلی کا عدالتی کمیشن بنایا جا نا میڈیا کا بھی مطالبہ تھا۔میڈیا شروع دن سے ہی اس بات کی رٹ لگائے ہوا تھا کہ حکومت گرانے کی باتیں کرنا اور وزیرِ اعظم کا استعفے طلب کرنا غیر جمہوری رویے ہیں لہذا عمرا ان خان کو دھاندلی کی تحقیقات اور نئے انتخابی قوانین پر اپنا زورصرف کرنا چائیے اور عمران خان کا دھرنا موخر کرنا میڈیا کی سوچ کا بھی عکاس ہے۔
اس بات سے ہر شخص بخوبی آگاہ ہو چکا ہے کہ عمران خان کیلئے مجمع اکٹھا کرنا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔وہ جب چاہے اور جہاں چاہے مجمع اکٹھا کر سکتا ہے ۔عوام اس کی آواز پر لبیک کہنے کیلئے تیار ہیں کیونکہ وہ دھاندلی ،کرپشن اور نا انصافی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور عمران خان کی آواز ان کے دلی جذبات کی آئینہ دار ہے ۔ اب اگر میاں برادران نے سیاسی گھپلے کی کوشش کی تو عمران خان نئی قوت سے حملہ آور ہو گا اور حکو مت کیلئے اس کے تازہ حملے کو سنبھا لنا ناممکن ہو جائیگا۔قومی یکجہتی کیلئے عمران خان نے دھرنا موخر کر کے جو حمائت سمیٹی ہے وہ اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جائیگی جس سے حکومت کیلئے مزید مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔بہتری اسی میں ہے کہ حکومت عمران خان کے دھرنا موخر کرنے کو مثبت انداز میں لے اور ان اداروں کو مضبوط بنانے کے فیصلے کرے جو ملک میں شفاف،آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کروانے کے ذمہ دار ہیں۔عوامی مطالبے سے بچنا اور اس سے پہلو تہی کرنا اب کسی بھی لحاظ سے ممکن نہیں رہا کیونکہ عوام میں اپنے حقو ق کا شعور اجاگر ہو چکا ہے لہذا اب انھیں دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔ بول بچن کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔جب اپنے حقوق کا شعوربیدار ہوتا ہے تو پھر بیوقوف بنانا بھی ممکن نہیں رہتا کیونکہ عوام کا شعور ایک ایسے عزم میں بدل جا تا ہے جو تبدیلی کو برپا کر کے چھوڑتا ہے۔
لوگ موجودہ نظام اور اس کے تباہ کن اثرات سے بغاوت پر اترے ہوئے ہیں۔وہ اسے ہر حال میں کچرے کے ڈبے میں پھینکنا چاہتے ہیں۔۔انھیں موجودہ نظام پر راضی کرنا اب ممکن نہیں رہا ہے ۔کرپشن،لوٹ کھسوٹ ،نا انصافی اور بد دیانتی ایک ناسور کی شکل میں پاکستان کے استحکام، اس کے اتحاد،اس کی سلامتی اور اس کی ترقی کیلئے ز ہرِ قاتل ہیں ۔عوام کی اکثریت اس نظام سے نالاں ہے اور اسے بدل دینے کے لئے بے تاب ہے لہذا انھیں بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا ۔عمران خان موجودہ نظام کے خلاف سینہ سپر ہے اور جو کوئی بھی موجودہ بوسیدہ نظام کو بچانے کیلئے سامنے آئیگا وقت کا پہیہ اسے کچل کر رکھ دے گالہذا بہتری اسی میں ہے کہ عوامی آواز پر لبیک کہہ کر نظام کو از سرِ نو ترتیب دینے کی جانب پیش قدمی کی جائے کیونکہ اسی میں پاکستان کی بقا کا راز پنہاں ہے ۔،۔،