عظیم قائد کے نام

Quaid e Azam

Quaid e Azam

تحریر: وقار انساء
کل 25 دسمبر تھا آپ کا یوم پیدائش- خوشی کا دن تھ -لیکن خوشی ہر دل سے روٹھ کر چلی گئی چاہنے کے باوجود بھی کوئی پاکستانی خوش نہ ہو سکا- ہر دل میں يہ کسک پھانس بن کر چبھتی رہی کہ وطن ایک بڑے سانحے سے دوچار ہوا- جس نے خوشی کے تصور کو مفقود کر دیا یہ دن افسردگی طاری کر گيا – محسن قائد آپ نے قوم کو غلامی کی زنجیروں سے چھٹکارہ دیا آزاد وطن ديا جہاں ھم فخر سے پاکستانی ہونے کی حیثیت سے اپنی زندگی مذھبی اور معاشرتی طور پر آزادی سے گزارتے ہین! ليکن عظيم قائد ہم اس پيارے وطن کی حفاظت بجا طور پر کرنے سے ھمیشہ قاصر رہے۔

جن مشکلون اور صعوبتوں سے پاکستان کی تخلیق کے مراحل سے آپ اورسب مسلمان گزرے- اب تک لگتا ہے ان پريشانيون نے ھمارا پيچھا نہين چھوڑا – آج ہر پاکستانی ان صعوبتوں سے نبرد آزما ہے- وہی خاک اور خون کی ہولی آج بھی کھیلی جا رہی ہے – يہ وطن عزیز دہشت گردون کے ھاتھون تباہ ہو رہا ہے – کچھ حالات ايسے ہين کہ لوگ بھی ایک دوسرے کی جانين ناحق لے رہے ہين – غربت وافلاس کی چکی مين پستے ہوئے انسان اخلاقی حدودوقیود سے نکل چکے ہيں-ايک دوسرے کے حقوق غصب کرنے کو معمولی بات سمجھتے ہين قتل وغارت گری کا بازار گرم رہتا ہے اس ملک کی باگ ڈور جن کے ھاتھ آئی انہون نے اس کو سنوارا نہين بلکہ بگاڑہ ضرور اس ملک کو اثاثہ اور بچون کو سرمايہ نہين سمجھا
شاعروں نے آپ کے خيالات کی کيا خوب ترجمانی کی۔

ھم لائے ہيں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا ميرے بچو سنبھال کے

عظیم قائد جب صاحب اقتدار صرف حکمرانی کی ہوس رکھيں ملکی معاملات جن مین امن وامان اور عدل وانصاف کے تقاضون کو کماحقہ پورا کرنا فرض اولين ہے ان کو پس پشت ڈال ديا جائے تو ملکی معاملات کيسے درست ہوں گے اے روح قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہين یوم قائد پر يہ ملی نغمہ ھم صرف پڑھتے اور سنتے ہيں حقیقی طور پراس کو سمجھتے نہين۔

Pakistan

Pakistan

آپ کی کوششوں اور تدبر کو ومانہ مانتا ہے اسی لئے شا‏عرون نے لکھا
يوں دی ھميں آزادی کہ دنيا ھوئی حيران اے قائد اعظم تيرا احسان ہے احسان
کاش ھم دل سے يہ کہيں اور اس ملک کی سلامتی کے لئے بہتر حکمت عملی اپنائی جائے جو اس کا سکون تباہ کریں ان کو عبرت ناک سزا دی جائے پشاور آرمی سکول کا سانحہ کبھی بھلائے نہيں بھولتا ارض وطن پر اتنے معصوموں کا بہتا ہوا لہو آپ کی روح بھی تڑپ اٹھی ہوگی آج ان ماؤں کے بچے ان کے بچے ان کی گود سونی کرگئے آج ان گھروں پر سکوت مرگ طاری ہے جہان بچوں کے قہقہے گونجتے تھے آج ان والدين کی چيخيں ہيں آہ وفغاں اور سسکياں ہيں آج ان بچوں کے خالی بستر ماؤں کا کليجہ نوچتے ہوں گے کيسے بھول پائيں گے والدين اپنے جگر کے ٹکڑون کو؟۔

جب دوسرے بچوں کو سکول جاتے ديکھ کر ہر وقت ان کے زخم تازہ ہو جائيں گے کيسے مندمل کر پائے گا وقت ان کو شائد وہ ماں سودائی ہو جائيگی شائد ہوش وحواس کھو دے گی بچون کے بيگ ان کے کپڑے ان کی چيزيں ہر چيز ان کے زخم ہرے کر دے گی – باپ کے وہ سہارے کہاں گئے جن کو کتنی اميديں سے پالا پوسا اور پڑھا لکھا کر بہتر مستقبل دينا چاہا آج ہر ادارہ اور ہر جگہ غير محفوظ ہو گئی برائی تو پھيلتی رہتی ہے جب تک کہ اس کا تدارک نہ کيا جائے اب سیاست دانوں کو وقتی طور پر نہين حقيقی طور پر جاگنا ہو گا خدارا اس ملک کو بچا ليں نسليں تباہ ہو رہی ہيں پيارے قائد ھماری فوج کے نوجوان ملکی سلامتی اور اس کے تحفط کے لئے ملک دشمن عناصر کے خلاف مستعد ہيں اور اس کی ان کو بری بھاری قیمت اپنے بچون کو کھو کر چکانا پڑی ہے۔

Pak Army

Pak Army

آپ کے حاصل کئے ہوئے پیارے وطن میں ظالمون نے مستقبل کے فوجی جوانون کو شہيد کر ديا ايک نسل تباہ کر دی ہر باغبان نے خون جگر ديکراپنے گلشن کو سينچا تھا-اس کو پھلتا پھولتا دیکھنے کے لئے اس کی آبياری کی تھی کيسی آندھی چلی کہ ہوا بھی خون برسانے لگی ہر دل گہری اداسی ميں ہے ہر آنکھ اشکبار ہے اور وطن کا ہر شہری سوگوار ہے اسی لئے کل وہ خوشی کے ترانے نہين گا سکے –آپ کی روح بھی بے چین ہو گی اور ھم سے آپ کو گلہ نہ ہو گا۔

تحریر: وقار انساء