تحریر: علی عمران شاہین بالآخر افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 2014 میں انخلا کا اپنا وعدہ بڑی حد تک پورا کر دیا ہے۔ 26 اکتوبر کو جہاں امریکی فوج نے بڑے اڈے خالی کئے، اپنے پرچم لپیٹ کر افغان پرچم لہرائے وہیں امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی برطانوی فوج نے افغان صوبہ ہلمند میں واقع سب سے بڑا کیمپ بیسٹئن خالی کیا اور اس کا انتظام مقامی افغان فوج کے حوالے کر دیا۔یہ وہی کیمپ ہے جہاں 14 ستمبر 2014 کو امریکہ کے بقول 19 طالبان جنگجوئوں نے امریکی فوج کی وردیاں پہن کر اور امریکی فوج کا ہی سامان حرب و ضرب استعمال کرتے ہوئے ایک ناقابل یقین حملہ کیا تھا۔
یہ کیمپ دور تک پھیلے صحرا میں واقع ہے جہاں سکیورٹی کا اتنا زبردست نظام قائم تھا کہ چڑیا کا پر مارنا تو دور کی بات چیونٹی بھی حرکت کرے تو چھپ نہیں سکتی تھی۔امریکی فوج نے تسلیم کیا تھا کہ یہاں ہونے والے اس حملے میں ان کے آٹھ جدید ترینMcDonnell Douglas AV-8B Harrier IIsجنگی طیارے تباہ ہو گئے تھے۔اس کے علاوہ ہونے والا املاک کی تباہی اس کے علاوہ تھی۔ساتھ ہی مانا گیا تھا کہ حملے میں امریکی فوج کے دوکمانڈوز کے ساتھ ایک لیفٹیننٹ کرنل کرسٹوفر ریبل بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔جواب میں امریکی اور برطانوی فوج نے ائر فورس سمیت طاقت کا ہر حربہ آزما یا اور پھر کیمپ” محفوظ ”بنایا تھا۔اس حملے کے بعد اس بڑے کیمپ سے بہت سا کام سمیٹ لیا گیا تھا۔افغان حکومت کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت اب یہاں 10ہزرا امریکی فوج مخصوص اڈوں میں رہے گی ۔باالفاظ دیگر امریکی فوج کی یہاں موجودگی محض علامتی یعنی خفت مٹانے والی ہی ہو گی۔
US Army
امریکی و برطانوی فوج کے اس انخلا سے قبل عالمی نشریاتی ادارے اس حوالے سے رپورٹیں نشر کرتے رہے کہ اب اس ملک کا مستقبل کیا ہو گا۔21اکتوبر کو بی بی سی ورلڈ نے اپنی ایک رپورٹ ”طالبان کے لیے کابل واقعی دور؟” کے عنوان نے ایسے تہلکہ خیز انکشافات کئے کہ جنہیں پڑھ کر ہر شخص حیران ہو سکتا ہے کہ ساری دنیا مل کر اور اپنے ہر طرح کے سارے وسائل اور طاقت 13سال تک یہاں جھونک کر بھی وہ ان طالبان اور افغان جنگجوئوں کو شکست نہیں دے سکے کہ جس کے لئے انہوں نے اتنی سرپھٹول کی تھی۔ بتایا گیا کہ بی بی سی کے مشہور پروگرام ‘پینوراما’ کی ایک ٹیم کوطالبان کے ایک ایسے ہی گڑھ تک رسائی حاصل ہوئی جو کابل سے محض ایک گھنٹے کے سفر پر ہے۔جب ہماری گاڑی وادیِ تنگی میں ایک کچی سڑک پر مڑی تو ہم کہنے کو تو کابل سے صرف 60 میل دور تھے لیکن اصل میں ہم ایک ایسے علاقے میں پہنچ چکے تھے جہاں طالبان کا راج ہے۔ تنگی کی وادی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کابل کو جانے والا سب سے بڑا راستہ ہے اور یہی وہ راستہ ہے جہاں سے کابل پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔صوبہ وردک ہی وہ علاقہ ہے جہاں حالیہ برسوں میں نیٹو اور طالبان کے درمیان خونریز ترین جنگیں ہو چکی ہیں۔یہاں ہماری ٹیم کی ملاقات ایک طالبان کمانڈر ملا بدری سے ہوئی۔وہ مجھے ایک پہاڑی کی چوٹی پر لے گئے اور لڑاکا اپاچی ہیلی کاپٹروں کا وہ اڈہ دکھایا جو امریکی تین سال پہلے چھوڑ گئے تھے۔گورنر بدری نے بتایا کہ’ ‘ امریکی جو سازو سامان چھوڑ گئے تھے وہ ہم نے لے لیا۔ حتیٰ کہ وہ خاردار تاریں جو ہمیں یہاں سے ملیں، وہ ہم نے مدرسوں اور مساجد کے حوالے کر دیں۔”پہاڑی کی چوٹی سے ہم وہ مقام بھی دیکھ سکتے تھے جہاں پر امریکیوں پر طالبان نے سب سے بڑا کامیاب حملہ کیا تھا اور ان کا ایک شینوک ہیلی کاپٹر مار گرایا تھا۔ اس حملے میں امریکی بحریہ کے 17 کمانڈوز سمیت 38 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تنگی میں طالبان کے مضبوط کنٹرول کی بڑی مثال وہاں کے سکول ہیں۔ مثلاً یہاں کاایک سکول 1,400 بچوں پر مشتمل ایک بڑا ادارہ تھا، جہاں 50 سے زیادہ اساتذہ تھے۔ سکول میں ریاضی اور سائنس پڑھائی جاتی تھی لیکن طالبان کے زیر اثر اس سکول کے نصاب میں مذہبی تعلیم کو مرکزی مضمون بنا دیا گیا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سکول کا نصاب تو طالبان کے ہاتھ میں ہے لیکن دراصل یہ ایک سرکاری سکول ہے جس کے تمام اخراجات کابل کی حکومت ادا کر رہی ہے۔یہاںقریب ہی ایک بچہ کلاشنکوف سے کھیل رہا تھا۔ جب میں نے گورنر بدری سے پوچھا کہ یہ بچہ اے کے 47 کا کیا کرے گا تو ان کا جواب تھا ”دشمنوں کو مارے گا۔’ ‘بچے کے والد نے بڑے فخریہ انداز میں بتایا کہ اس کا بیٹا’ ‘سچا مجاہد بنے گا۔”گورنر بدری کا شمار ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جو امریکیوں کو انتہائی مطلوب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی انہیں مارنے اور گرفتار کرنے کے لیے کئی کوششیں کر چکے ہیں اور انھیں نشانہ بنانے کے لیے کئی ڈرون حملے بھی ہو چکے ہیں۔ آخری حملے میں وہ محض آدھے میٹر کے فاصلے سے بچے،البتہ اس دھماکے میں انھیں خاصے زخم آئے اور وہ ایک کان سے بہرے ہو گئے۔’میں جب بھی اپنا موبائل آن کرتا ہوں، ڈرون آ جاتا ہے اس لیے میں کوشش کرتا ہوں کہ موبائل فون نہ ہی استعمال کروں۔’
Taliban
میرے رخصت ہونے سے پہلے طالبان نے بڑے فخر کے ساتھ مجھے ایک باغ میں اپنے جنگجوؤں کی ایک پریڈ بھی دکھائی۔ پریڈ کے دوران بھی راکٹ لانچروں اور بندوقوں سے مسلح جنگجوؤں کو ہدایت تھی کہ وہ اپنے چہرے ڈھانپے رکھیں اور ایک دوسرے کے قریب قریب نہ ہوں تا کہ وہ ڈرونز کی نظروں سے دور رہیں۔تنگی وادی میں طالبان کے عسکری رہنما ‘ ‘کمانڈر انتقام’ ‘نے بڑے فخریہ انداز میں مجھے یہ بھی بتایا کہ اپنے اہداف منتخب کرنے کے لیے وہ ‘گوگل ارتھ’ سے بھی مدد لیتے ہیں۔ دھوپ کا چشمہ پہنے اور بہترین انگریزی میں بات کرتے ہوئے کمانڈر انتقام کا کہنا تھا کہ تنگی کی ساری وادی طالبان کے دائرہ اختیار میں ہے اور ان کا اگلا ہدف کابل کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا ہے جہاں آئے روز طالبان اور افغان مجاہدین جب چاہیں ،افغان فوج یا غیر ملکی فوجوں کے نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ کابل دنیا کے ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں دنیا کا سب سے سخت سیکیورٹی کا نظام قائم ہے لیکن یہا ں بھی افغان جنگجوئوں کو روکنا ناممکن ہے۔4اگست کوکابل میں نیویارک کے رہنے والے 55سالہ میجرجنرل ہارولڈ جے گرین کی ہلاکت نے امریکہ اوراس کے اتحادیوں سمیت ساری دنیا کو ویت نام دوبارہ سے یادکرادیاتھا۔اس روز کابل کے تربیتی مرکز میں افغان فوج کے ایک سپاہی نے روس کی بنائی پیکاگن سے اچانک فائر کھول دیا تھا اورجنرل گرین کے ساتھ موجود ایک جرمن بریگیڈئیرجنرل کو بھی شدیدزخمی کر کے 15 افسران کو خون میں نہلادیاتھاجن میں سے اکثرامریکی تھے۔امریکی حکام نے بتایا کہ جس افغان فوجی نے میجر جنرل گرین اوردیگر افسران پرفائرنگ کی تھی’ وہ عرصہ3 سال پہلے افغان فوج میں بھرتی ہواتھا۔وہ پیکاگن لے کر ایک غسل خانے میں چھپاہواتھا۔پھر اس نے اچانک باہر نکل کراعلیٰ ترین افسران کو بھون ڈالا۔اس حوالے سے جوخبرسب سے پہلے سامنے آئی تھی’ اس میں بتایاگیا تھاکہ جنرل گرین کے ساتھ دیگرکئی افسران بھی ہلاک ہوئے ہیں لیکن بعد میں ان کی ہلاکتوں کو”زخمی” سے تبدیل کردیاگیاتھا۔ان افسران کو ہلاک کرنے والایہ فوجی بھی موقع پر جوابی فائرنگ سے جام شہادت نوش کر گیا تھا۔
یہاں امریکہ نے جن ساڑھے 3 لاکھ افغان فوجیوں کو تربیت دے کر ملک کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی تھی ‘ ان میں سے تو ایک بڑی تعداد وہ ہے جس نے میدان میں لڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ بہت سے افغان سپاہی تووقفے وقفے سے ہتھیاروں سمیت اپنے طالب ساتھیوں سے جاملے ہیں۔اب جو افغان فوجی ملک میں امریکی دفاع کے لیے لڑ رہے ہیں ‘ان میں مقابلے کی ہمت نہیں۔اسی لیے تو 10 اگست کوملک کے دو اہم ترین مقامات ہلمند اور کابل میں لڑائی کے دوران مار کھانے والے شکست خوردہ افغان فوج کے کمانڈر اور کٹھ پتلی حکام کو طالبان سے یکطرفہ طور پر مذاکرات کا اعلان کرنا پڑا۔ قارئین کویاد ہوگا کہ افغان طالبان نے ملک بھر میں اتحادی افواج کے خلاف آپریشن خالدبن ولید کے بعد آپریشن خیبرشروع کر رکھا تھا جس کے دوران بڑے پیمانے پر حملے اور ا فغان و اتحادی افواج کا بھاری جانی و مالی نقصان بھی ہوتا رہا۔اسی دوران میں ادھر افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس عرصہ میں عالمی میڈیا کو بتایا تھا کہ انہوں نے کابل کے گردونواح میں بہت سی پوسٹوں اور کیمپوں پرقبضہ مستحکم کر لیا ہے جس کے بعد اب ان کے لیے آگے بڑھنا کوئی مشکل نہیں رہا۔ دنیا کی سپر پاورز کو ہمیشہ سے شکست دینے والی افغان قوم نے اس بار دنیا کے سب سے بڑے اور سب سے طاقتور اتحاد کو جو شکست دی ہے اس کی مثال تاریخ عالم میں کہیں نہیں ملتی جو اسلام اور اسے کے فلسفہ جہاد کے ماننے والوں کے لئے بھی فرحت کا پیغام ہے۔