سفرِ حج دہم

Pakistan

Pakistan

تحریر: میر افسر امان

اب ہم پاکستان واپس آنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہمارے سفرِ حج کے٤٠ دن کے ٨ دن تومدینہ منورہ میں زیارت کرنے میں لگے باقی ٣٢ دن مکہ مکرمہ میں گزرے۔ہماری رہائش کے سامنے بیت اللہ جانے کے لیے گاڑیاں ٢٤ گھنٹے موجود ہوتیں ہیں۔ ہر ٢٥ منٹ بعد بیت اللہ جاتیں ہیں۔ بلڈنگ میں ٥٠٠ افراد جو اللہ کے مہمان ہیں موجود ہیں جن میں کچھ نے ٣٢ دن قیام کی ساری نمازیں اللہ کے گھر میں پڑھنے کی کوشش کی۔ کسی نے راتیں بیت اللہ میں گذاریں۔کچھ نے نفلی عمرے کئے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی ہمت اورشوق کے مطابق عبادت کی۔ بیت اللہ میں اوپر جانے کے لیے جگہ جگہ پر برقی سیڑیاں لگی ہوئی ہیں بعض جگہ تو ایک ساتھ پانچ پانچ برقی سیڑیاں چل رہی ہیں اورحاجیوں کو اوپر والی منزلوں پر پہنچا رہی ہیں۔ سعودی حکومت کے بس میں جو کچھ وہ اس نے حاجیوں کی سہولت کے کیا ہے۔

ٹیکسی ڈرائیوروں نے خوب پیسے کمائے۔ایک دن حرم سے عزیزیہ رہائش تک ٢٠ ریال میں ٹیکسی آئی۔دوسرے دفعہ ٧٠ ریال میں، تیسری دفعہ ٦٠ ریال چوتھی دفعہ٢٥٠ ریال میں حرم سے منیٰ تک وصول کئے۔ اسقبالیہ میں ٹی وی ہر وقت اللہ کے گھر کا لائیو پروگرام دکھاتا رہتا ہے۔بیت اللہ کا مطاف کا حصہ جس میں طواف ہو رہا ہے ،مین بلڈنگ کے اندر ایک حصہ جہاں طواف ہو رہا،بلڈنگ کی آخری چھت میں جہاں طواف ہو رہا ہے، مطاف کے اوپر پہلی گو لائی میں جہاں طواف ہو رہا ہے ، مطاف کی دوسری گولائی جس پر بھی طواف ہو رہا ہے یعنی ٥ جگہ طواف ہو رہا ہے۔ صفاو مروہ وغیرہ کو لائیو دکھایا جارہا ہے۔ بیت اللہ کے اندر ہر طرف ٹی وی کیمرے لگے ہیں جو ایک ایک کونے کو عوام کو ٹی وی پر دکھا رہے ہیں۔

تمام دنیا اس روح پرور حج کے اجتماع کو دیکھ رہی ہے کہ کس طرح تمام دنیا کے مسلمان اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لیے ،قریب سے، دور دراز سے، پیدل ،اپنی گاڑیوںسے، بسوں سے ، ریلوے سے، ہوائی جہازوںسے غرض ہر طریقے سے اللہ کے گھر پہنچ رہے ہیں۔ ان کے رنگ مختلف، ان کی زبان مختلف، اس کی تہذیب مختلف،ان کا تمدن مختلف، ان کے چہرے مختلف، ان کا لباس مختلف ہے۔ مگر ان کا دل اور سوچ ایک ہے،اللہ ایک ہے،رسولۖایک ہے، کعبہ ایک ہے،امت ایک ہے، قرآن ایک ہے اس لیے یہ سب ایک ہی تلبیہ پڑتے ” میں حاضر ہوں،یا اللہ میں حاضر ہوں،میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں،میں حاضر ہوں، بے شک تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے ہی لئے ہیں اور اقتدار تیرا ہی ہے تیرے اقتدار میں کوئی شریک نہیں”دیوانہ وار بیت اللہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔صاحبو! دنیا کی کوئی قوم نہ ایسا اجتماع کرتی ہے نہ آیندہ کر سکے گی۔ یہ مسلمانوں کے رب کی طرف سے مسلمانوں کے لیے اعزاز ہے۔

یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔گروپ کے کچھ ساتھیوں نے بتا یا کہ آج وہ امام کعبہ کے با لکل قریب نماز جمعہ پڑھ کر آئے ہیں۔ ایک ساتھی نے امام صاحب سے ہاتھ بھی ملایا۔ امام صاحب نے نماز جمعہ ترکی کے بنائے ہوئے برانڈے میں پڑھائی۔ وہیں پر خطبے کے لئے ممبر بھی بنا ہوا ہے۔ ہر جمعہ کا خطبہ اور نماز وہیں سے پڑھاتے ہیں۔ ہم نے نوٹ کیا کہ ہر نماز کے بعد نمازجنازہ بھی پڑھائی جاتی ہے۔ ہم نے نماز جنازہ کے بعد مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں کئی دفعہ جنا زے اُٹھائے ہوئے لوگ دیکھے ہیں۔ جنازوں کی تعداد ٢ سے ٩ تک دیکھی۔ امام کعبہ نمازیںبیت اللہ کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کرنمازپڑھاتے ہیں۔ساتھیوں نے بتایا شرتے آگے آگے ہوتے ہیں اورلوگوں کو راستہ صاف کرنے کا کہتے جاتے ہیں اس طرح نماز کے بعد بھی شرتے امام صاحب کو واپس بھی لاتے ہیں۔

کئی دفعہ لوگ امام صاحب سے ہاتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں اورکبھی کبھی کچھ لوگ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔خانہ کعبہ کو ہر سال ٢ مرتبہ شعبان اور ذالحجہ کے مہینے میں غسل دیا جاتا ہے اُتارے جانے والے خلاف کعبہ”کسوہ” کو ٹکڑوں کی شکل میں بیرونی ممالک سے آئے ہوئے سربراہان اور دیگر معززین کو بطور تحفہ پیش کیا جاتا ہے١٩٦٢ میں کعبہ غلاف کعبہ کی تیاری کی سعادت پاکستان کے حصے میں آئی تھی غلاف کعبہ مکہ مکرمہ کی دارالکسوة فیکڑی میں تیار کیا گیا ہے

امام کعبہ شیخ عبدالرحٰمان السدیس تبدیلی کعبہ میں شریک ہیں۔ ہمارے گروپ کے لوگوں نے آپس میں ہی فنڈ جمع کر کے ایک اجتماعی کھانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔آج جمعہ کو اسے عملی جامہ پہنایا گیا۔ مکہ میں البیک کے نام سے فاسٹ فوڈ کاایک کامیاب ادارہ ہے۔ اس کے کھانے بہت مشہور ہیں اکا دکا ساتھی اپنی گھر والیوں کے ساتھ جا کرالبیک کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں اور آ کرا س کی تعریفیں کرتے رہے ہیں۔مثلاً البیک پر بہت رش ہے اور میکڈونلڈ اور کے ایف سی خالی نظر آتے ہیں۔ البیک والے پاکستانی ہیں ۔انہوں نے مکہ میںاپنا مرغی خانہ بھی بنایا ہوا۔ بحر حال آج ریچ قسم کا ایک ایک پیکٹ ہر فرد کے لیے لائے ہیں جس میں مرغ کے چار پیس،کٹلس،کیچ اپ،

ریفریشنگ ٹشو، سلاد، ایک عدد بندوغیرہ سے لیس ہے۔گولڈ ڈرنگ بھی لائے ہیں۔ گروپ کے سب مرد ساتھیوں نے ایک ساتھ مل کر کھایا اور اسی طرح خواتین کے گروپ نے بھی مل ایک ساتھ کھایا اور خوب مزا آیا جو پاکستان جا کر بھی یا درہے گا۔ حاجیوں کے لیے مکہ میں ایک مشکل پیش آئی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ افواہ پیل گئی ہے کہ حاجیوں کو ١٠ لیٹر پانی کی اجازت نہیں مل رہی ہے اور جدہ ایئر پورٹ پر ١٠ لیٹرز آب زم زم کے ڈبے سعودی حکومت کے طرف سے نے روک لیے گئے ہیں۔ ہمارے بیٹے نے فوراً ایک حاجی جو اپنے رشتہ دار سے جد ہ ملنے گیا ہوا ہے سے فون پر تصدیق کے لیے کہا۔ اس نے بھی اس افواہ کو کنفرم کیا۔حاجیوں کے مطابق پاسپورٹ پر بھی پرنٹ ہے کہ ہر حاجی ١٠ لیٹر آپ زم زم اپنے ساتھ اپنے اپنے ملک لے جا سکتا ہے۔ ١٠ لیٹر آب زم زم کی بوتلوں کی پیکنگ جو کہ نیشنل واٹر کمپنی کی ہے پر بھی بوتلوں کے ساتھ ہوئی جہاز کا فوٹو بنا ہوا ہے اور ٹک مارک لگی ہوئی ہے جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ١٠ لیٹر آب زم زم لے جانے کی اجازت ہے۔ حاجیوں نے ١٠ لیٹر آب زم زم، ایک آٹومیٹک فیکٹری جو آب زم زم حاجیوں کے لے جانے کے لیے پیک کرتی ہے سے خرید کر اپنے کمروں میں رکھا ہوا ہے۔

افواہ یہ ہے کہ صرف ٥ لیٹر آب زم زم کی اجازت ہے۔ کچھ دن پہلے اسی رہائش میں استقبالیہ کی دیوار پر ایک دوسری کمپنی نے اپنا پوسٹر بھی لگایا تھا اس پوسٹرپر ١٠ لیٹر کا فوٹو بنا کراس لگایا گیا تھا یعنی نامنظور اور اس کے سامنے ٥ لیٹر کے فوٹو پرٹک لگا ہوا تھا یعنی منظور۔ یہ دونوں مکہ میں ہی آب زم زم حاجیوں کے لے جانے کے لیے پیک کرتیں ہیں۔اب اللہ ہی جانے کونسی کمپنی صحیح ہے اور کونسی غلط۔ رہائش گاہ کے پاکستان حج مشن کے حملے ان ٥ لیٹر والے پوسٹر کو پھاڑ دیا تھا اور کہا کہ یہ ویسے ہی پروپیگنڈہ ہے۔

Hajj

Hajj

مشورے کے بعد طے ہوا کہ ہمارا گروپ لیڈر پاکستان حج مشن سے ملاقات کر کے اس مسئلے کو حل کروائے۔ ہم نے چار آدمیوں سے کفتگو کی چاروں نے مختلف قسم کی باتیں کیں۔آخر ہم نے ایک حاجی جو ١٠ اکتوبر کی فلائیٹ سے کراچی گیا ہے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ صرف٥ لیٹر آب زم زم کی اجازت ہے جو ٩ ریال کی جدہ ایئر پورٹ سے ملیں گی۔ ١٠ لیٹر آب زم زم جدہ ایئر پورٹ پرروک لیا گیا ہے۔بلڈنگ میں ٥٠٠ حاجیوںکی ١٠ لیٹرز والی آب زم زم کی بولتیں جو انہوں نے ساتھ لے جانے کے لیے تیار کی ہوئی تھیںبے کار گئیں۔ پھر بھی کچھ حاجیوں نے ١٠ لیٹر والی بوتلیں پی آئی اے میں بکنگ کے لیے دے دیں اور کہا کہ قسمت میں ہوئیں تو مل جائیں گی۔

ایسا ہی ہوا کراچی ایئر پورٹ پر کچھ حاجیوں کو ١٠ لیٹر والی بوتلیں مل بھی گئیں جس میں ہم بھی شامل ہیں۔ مکہ میں صحت کے اصولوں پر سختی سے عمل ہوتا ہے حتیٰ کہ ٹیکسی ڈارئیورز حضرات اپنے پاس اسپرے رکھتے ہیں۔ ویسے تو اکثر لوگوں کے گلے خراب ہو گئے ہیں۔ لیکن ہمارے ایک روم میٹ کو کچھ زیادہ ہی کھانسی لگی ہوئی ہے وہ حرم جانے کے لیے ٹیکسی میں سوار ہوا تو کھانسنے لگا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے فوراً اسپرے نکالا اور ٹیکسی میں اسپرے کیا اوران کو ماکس پہنے کے لیے دیا اور کہا اسے پہنا کرو۔ مکہ اور مدینہ میں درجن سے کم سے کم موٹر سائیکل نظر آئے جبکہ پاکستان میں کروڑوں موٹر سائیکل چل رہے ہیں۔٨ ذی الحجہ کو خانہ کعبہ کا خلاف تبدیل کیا گیا حاجی حضرات اس دن منیٰ میں تھے۔ حاجیوں کی انتطار گاہ میںجدہ ایئر پورٹ حج ٹرمینل پر بڑے بڑے پلروں پر بڑی بڑی چھتریاں بنائی گئی ہیں جو منفرد قسم کی ہیں۔

مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ اور جدہ میں کھجور اور ایک ہی قسم کا درخت جو نیم کے درخت سے ملتا جلتا ہے سڑکوں پر موجود ہے ۔یہ درخت کراچی کی سڑکوںمیں بھی بڑی تعداد میں لگایا گیا تھا۔ ١٢ اکتوبر مکہ میں آخری دن ہے۔ ہم تین آدمی جن میں میرا بیٹا اور اس کا ایک دوست شامل ہے بیت اللہ آخری وداع طواف کرنے گئے۔ عصر، مغرب اور عشاء بیت اللہ میں ادا کیں اور طواف مکمل کیا۔حرم کے باہر قیمتی چیزیں رکھنے کے لیے سعودی حکومت نے لاکرز کا انتظام بھی کیا ہوا ہے۔ اگر طواف کے وقت کوئی اس سے فائدہ اُٹھانا چائے تو اُٹھا سکتا ہے۔ دوسری جگہوں کی طرح حرم کے باہر ایک بلڈنگ کے چوتھے فکور پر فوڈ اسٹریٹ ہے آخری دن ہم نے وہاں پر کھانا کھایا۔ حج کے سفر کے دوران سب مسلمانوں میںڈسپلن، صبر،ایثار،تحمل،ایک دوسرے کی مدد اور بردباری کا مشاہدہ ہوا۔اکا دکا شخصی بے صبری کے علاوہ کوئی خاص بات نوٹ نہیں کی۔

اللہ مسلمانوں کو باقی زندگی میں بھی یہ چیزیں نصیب کرے آمین۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ حج نوجوانی میں ہی مناسب رہتا ہے۔ کاش مسلم معاشرے میں یہ روش چل پڑے کہ شادی کے بعد پہلا کام شادی شدہ جوڑا جو کرے وہ صرف اور صرف حج ہی ہو۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ کریکٹر شعیب اختر صاحب نے شادی کے بعد ہنی مون منانے کی بجائے میاں بیوی عمرے پر گئے ہیں جو قبل رشک بات ہے ۔ہم نے جدہ سے پی آئی اے کی کراچی کی فلائیٹ کے ذریعے پاکستان آنا تھا۔ ١٣ اکتوبر کو ہم نے رہائش گاہ چھوڑ دی اور بس پر سوار ہوئے جدہ پہنچے۔ پی آئی اے کی فلائیٹ جدہ سے سارٹھے آٹھ بجے اُڑی اورڈیڑھ بجے کراچی پہنچی۔ اس طرح اللہ کی مدد سے ہمارا سفرِحج مکمل ہوا۔

قارئین! یہ مشاہدات اللہ کے گھر اور نبی محترم صلی اللہ علیہ و سلم کے روضے مبارک کے متعلق ہیں۔ میں ویل چیئر پر تھا اور جتنی میری موومنٹ تھی اتنے ہی جو مشاہدات سفرِ حج میں نے تحریر کیے ہے۔ کچھ خود دیکھے ہیں اور کچھ اپنے گروپ کے ساتھیوں سے معلوم کیے ہیں ۔ کچھ گروپ سے باہر اپنی بلڈنگ کے حاجیوں سے معلوم کر کے تحریر کیے ہیں۔اگر ان مشاہدات میں کچھ غلطی ہے تو وہ میری طرف سے ہے جس کی اللہ سے معافی کی درخواست کرتا ہوں اور جو صحیح ہیں وہ اللہ کی مدد سے ہیں جسے اللہ قبول کرے۔ میں ایک چھوٹا سا کالم نگار ہوں۔میں نے سفرِحج سے فائدہ اُ ٹھاتے ہوئے جو کچھ بھی تحریر کیا ہے اللہ کرے وہ لوگوں کے کام آجائے اور میری مغفرت کا ذریعے بن جائے اور جس جس تک یہ مشاہدات پہنچے اس کو جب کبھی حج کی سعادت نصیب ہو توحج پر جاتے ہوئے ان کے مدد گار ہوں آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)
mirafsaraman@gmail.com