مجھے اپنی کہانی کہنے دے میری مجبوریوں کو دیکھ زرا اچھا ایسا کر دلگیر نہ ہو وہ معاملہ پھر سے کھول زرا وہ کرم تھا جو میرے حالوں پر اس لطف و کرم کو یاد دلا ہم دوہری اذیت میں شامل خود اپنے عکس سے نہ نظر چرا خوابوں سے حقیقت ملتی ہے شفاف آئینے میں دیکھ زرا اب آنکھوں میں چُپ رہتی ہے ان گذری رُتوں کو واپس لا میرے دل کی بنجر دھرتی کو پھولوں سے بھر دے بحرخدا وہ شخص بھی واپس لوٹ گیا جب دستک پہ بھی در نہ کھلا تھی ساری محبت اُس کے لیئے یہ راز کبھی نہ اُ س پہ کھلا
اس بات کو بھی اب رہنے دے مجھے اپنی نظر سے یوں نہ گرا مجھے اپنی حدوں میں رہنے دے میری ذات کو تُو منزل نہ بنا