گزشتہ دنوں کوپن ہیگن (ڈین مارک )میں منعقد ہونے والی عالمی موسمیاتی کانفرنس آئی پی سی سی نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ مستقبل قریب میں موسمیاتی تبدیلی زمین کے ہر حصے کو متاثر کرے گی، محقیقین نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ انسانی سرگرمیوں کے سبب دنیا کی آب و ہوا ڈرامائی طور پر تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اس رپورٹ سے کانفرنس کے پچانوے فیصد شرکاء متفق تھے کہ انسانی ضروریات کے سبب ہی موسمیاتی تبدیلی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور اگر آنے والے سالوں میں اس پر قابو نہ پایا گیا تو زمین کو شدید نقصان پہنچے گا۔
موسمیاتی تبدیلی کی اس پانچویں میٹنگ جس میںدنیا بھر کے آٹھ سوسے زائد محقیقین، ماہرین، سائنسدانوں اور حکومتی نمائندوں نے شرکت کی اور دستاویز پیش کیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کانفرنس میں کہا ایک سائنس دان نہیں بلکہ ایک عام انسان کی حیثیت سے میں نے دنیا بھر میں دورانِ سفر ماحولیاتی تبدیلی کے نمایاں آثار دیکھے جن میں پگھلتے گلیشرز، سمندری آفات اور گیس کے اِخراج کے علاوہ محقیقین کی تمام رپورٹس پڑھنے کے بعد کہ عالمی آب وہوا میں تبدیلیوں کے منفی اثرات بالخصوص انسانوں پر واضح طور پر اثر انداز ہو رہے ہیں
اس ناگہانی صورت میں ہمارے پاس اب بھی وقت ہے کہ اپنی ضروریات کو محدود کرکے موسمیاتی تبدیلی پر قابو پایا جائے ۔آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی ماحولیاتی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے اگر حکومتوں نے کوئی لائحہ عمل تیار نہ کیا تو ہر طرف تباہی شروع جائے گی،اگر گزشتہ تیس سالوں کا آج سے موازنہ کیا جائے تو موسمیاتی تبدیلی میں نمایاں فرق نظر آئے گا ،ہمیں ڈرامائی طور پر انڈسٹریل و دیگر گیس کے اخراج میں کمی لانی ہو گی اور اس سلسلے میں حکومتیں اپنا کردار ادا کریںجو ان کے فرائض میں شامل ہے، ماحولیاتی تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے اس کو معقول سطح پر لانا ہو گااور آج سے اس کی ابتدا کریں گے تو مستقبل قریب میں آلودگی اور دیگر ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پا سکتے ہیں
رپورٹ میں ستمبر دو ہزار تیرہ میں نیو یارک میں منعقد ہونے والی عالمی موسمیاتی کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کی رفتار سست ہے، محقیقین نے واضح طور پر کہا کہ عالمی سطح پر درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اس پر قابو پانے کیلئے ہم متبادل توانائیوں کو زیرِ استعمال لاکر خاطر خواہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں جن پر لاگت بھی کم آئے گی،ہم جانتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اور درجہ حرارت میں گزشتہ صدی کے وسط سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھااور آج مکمل تحقیق کے بات یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ اگر ٹھوس لائحہ عمل تیار نہ کیا گیا تو زمین کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آئی پی سی سی کے مطابق انیس سو پچاس سے موسمیاتی ماحول جن میں گلیشئرز کا پگھلنا یا سمندری طوفان کے اعداد وشمار کو رجسٹرڈ کرنا شروع کر دیا گیا تھا جس میں سمندری اتار چڑھاؤ اور دیگر آفات پر کنٹرول اور کس حد تک انسانوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے شامل ہیں،ماہرین کا کہنا ہے انیس سو تیراسی سے دو ہزار بارہ تک کے تیس سال گزشتہ چودہ سو سالوں کی نسبت گرم ترین سال تھے ان سالوں میں دیگر انسانی ضروریا ت زندگی کے علاوہ گیس کے اِخراج کی وجوہات سر فہرست ہیں اور گلوبل وارمنگ میں گیس کا اہم کردار ہے جبکہ انیس سو ستر سے گیس کے استعمال میں بدستور اضافہ ہورہا ہے
Glaciers
جس کے سبب انسانوں ،جانوروں اور پھول پودوں پر منفی اثرات ہو رہے ہیں،رپورٹ کے مطابق اس اضافے میں کمی واقع نہ ہوسکی تو اس صدی کے وسط میں شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا،جیسے کہ سیلاب ، طوفان، گلیشئرز کا پگھلنا ، زلزلے ، مختلف تنازعات اور ان واقعات کے سبب انسانوں، جانوروں اور پودوں کی اموات کا خدشہ ہے کیونکہ انسان و حیوان فوری طور پر اپنا مسکن نہیں بنا سکیں گے اور دنیا بھر میں غربت کے علاوہ ہجرت کرنے پر مجبور ہونگے اور ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔رپورٹ کے مطابق آنے والے تیس سالوں میں زمین گرم ہو جائے گی مختلف اقسام کی گیسز کے علاوہ آلودگی جس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج سے کئی خطرات درپیش ہونگے،سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے
موجودہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج تین سو ستر ارب ٹن ہے اور اس میں مزید اضافہ کی صورت میں زمین گرم ہو جائے گی لہذٰا کاربن ڈائی آکسائیڈ میں سالانہ پانچ فیصد کی کمی لازمی ہے،اسی گیس میں اضافے کے سبب گزشتہ سالوں میں جنگلات میں تباہی ہوئی، ماہرین کا کہنا ہے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں چین پہلے نمبر ہے جو ستائیس فیصد حصہ لینے کا ذمہ دار ہے دوسرے نمبر پر امریکا چودہ فیصد ،یورپی یونین نو فیصد اور چوتھے نمبر پر انڈیا چھ فیصد اس گیس کے اخراج کا ذمہ دار ہے،محقیقین نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی لانے میں مثبت کردار ادا کریں تاکہ دنیا کو آلودگی ، دھول ،گیس اور دیگر جان لیوا مصنوعات سے پاک کیا جائے ۔
ایک طرف یہ جنہیں ہم کافر گردانتے ہیں زمین کو انسانی ضروریات کے سبب پیدا ہونے والی آفات سے بچانے کیلئے دن رات اس تگ ودو میں ہیں کہ کسی بھی قیمت پر دنیا زیادہ سے زیادہ دیر تک قائم رہے ،اور دوسری طرف ہم لوگ جنہیں دنیا اور اس میں رونما ہونے والے کسی قسم کے واقعات سے ذرہ برابر دلچسپی نہیں ،بس مال ودولت کی دھن سوار ہو چکی ہے کہ کسی کی جان جائے یا ساری دنیا ہی بھاڑ میں جائے کسی بھی قیمت پر میں مال ودولت حاصل کروں،ہم لوگ بھول جاتے ہیں آج تک کوئی اپنے ساتھ لے کر نہیں گیا تو ہم کیا لے جائیں گے۔ ہم لوگ اپنے گھر کی چار دیواری کو آلودگی سے نہیں بچا سکتے تو ملک کو آلودگی سے کیا بچائیں گے ،دنیا تو ویسے بھی ہمارے کسی کام کی نہیں۔۔