تحریر : ایم سرور صدیقی مدینہ شریف سے کوسوں دور ایک چرواہا چیختا چلاتا دوڑا چلا آرہا تھا ایک جگہ بیٹھ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا لوگ اکٹھے ہوگئے انہوں نے وجہ دریافت کی اس کی ہچکیاں بند گئیں سب ایک دوسرے کو تکنے لگے۔۔۔لوگوںنے پھر استفسار کیا ۔۔ چرواہے نے روتے روتے بتایا خلیفة المسلمین حضرت عمرِ فاروق کا انتقال ہوگیاہے۔۔۔لوگوںنے حیرت سے پو چھا تم سینکڑوں کوس دور یہ بات تم کیسے کہہ سکتے ہو؟۔۔تمہیں کس نے اس کی خبردی؟۔۔۔ چرواہے نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا آج تلک میری بھیڑ بکریاں جنگل میں بے خوف و خطر پھرا کرتی تھیں کسی درندے نے کبھی آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا تھا لیکن آج پہلی مرتبہ ایک بھیڑیا میری بھیڑکا بچہ اٹھا کرلے گیاہے اس کی اس جرأ ت پر میں نے سمجھ لیا کہ عدل و انصاف کرنے والے خلیفہ اس دنیا میں موجود نہیںرہے۔۔۔چرواہے کی بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی تحقیق پر معلوم ہوا کہ جس وقت بھیڑیا ریوڑ سے بھیڑکا بچہ اٹھا کرلے گیا عین اسی وقت حضرت عمرِ فاروق رحلت فرما گئے تھے ایک بار مدینہ منورہ میںقحط پڑ گیا لوگ بھوک کے ہاتھوں مجبورہوکر فاقے کرنے لگے ایک روزبڑے میدان میں عوام الناس کو بہترین کھانا دینے کااہتمام کیا گیاایک شخص نے کھانا تقسیم کرنے والے منتظم سے دو افراد کے کھانے کا مطالبہ کیا۔۔۔ منتظم نے پو چھا سب اپنا اپنا کھانا لے رہے ہیں تم دو افراد کیلئے کیوں مانگ رہے ہو۔۔۔ ”ایک اپنے لئے اور ایک اس کیلئے جو باسی روٹی پانی میں بھگو کر کھا رہا ہے ”اس شخص نے دور بیٹھے بارریش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا ”تم اسے جانتے ہو؟” منتظم نے دریافت کیا نہیں۔۔۔اس شخص نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہامیں جانتا تو نہیں لیکن اسے باسی روٹی پانی میں بھگو کر کھا تے دیکھ کر بڑا ترس آیا کہ سب اچھا کھانا کھا رہے ہیں وہ کیوں نہیں؟ وہ۔۔منتظم نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا ہمارے امیرالمومنین حضرت ابو بکر صدیق ہیں آپ سب لوگوں کیلئے کھانے کااہتمام ان کی طرف سے ہی کیا گیاہے وہ شخص یہ سن کر دنگ رہ گیا۔
ہریجن میں درج ہے 1937 ء میں انڈیا میں کانگریس کی حکومت بنی گاندھی نے اپنے وزراء کو سادگی کا مشورہ دیتے ہوئے کہا”میں رام چندراور کرشن بھگوان کا حوالہ تو نہیںدے سکتا کیونکہ وہ تاریخی ہستیاں نہیں تھیںمیں مجبور ہوکرابوبکر اور عمرکے نام پیش کرتاہوں وہ بہت بڑی سلطنت کے مالک تھے لیکن وہ اتنے سادہ تھے کہ انہوں نے فقیروں جیسی زندگی گذاری پانچویں مغل بادشاہ شہاب الدین محمدشاہ جہاں کو۔۔۔ کون نہیں جانتا دنیا کے سات عجائب میں شامل ایک عجوبہ تاج محل اسی نے تعمیر کروایا تھا لاہورکا شالامارباغ ،جامعہ مسجد اور لال قلعہ دہلی بھی اسی کے شاہکارہیں شاہ جہاں اپنے بڑے بیٹے داراشکوہ کو اپنا جانشین بنانا چاہتا تھا لیکن دوسرے بیٹے اورنگ زیب عالمگیر نے اپنی فہم و فراست ،بہتر منصوبہ بندی اور جنگی حکمت ِ عملی سے نہ صرف اپنے حریف داراشکوہ کو شکست سے دوچارکردیا اس جنگ میں داراشکوہ مارا گیا بلکہ اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے والدشاہ جہاں کو گرفتارکرکے گوالیارکے قلعہ میں قید کردیا اورنگ زیب عالمگیرہرماہ اپنے باپ کی خبر گیری کیلئے اس سے ملنے جایا کرتا تھا ایک مرتبہ ملاقات کے دوران شاہ جہاں نے اپنے بیٹے سے کہا”اس قید ِ تنہائی سے میں تنگ آگیاہوں وقت ہے کہ گذرتاہی نہیں کچھ بچے قلعہ میں بھیج دیں میں ان کو پڑھا لکھا کر دل لگا لوں گا۔۔۔یہ سن کر اورنگ زیب عالمگیر مسکرایا اور شاہ جہاں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جو الفاظ کہے وہ تاریخ بن گئی ۔۔ اورنگ زیب نے کہا ”قید میں بھی بادشاہت کی خو نہیں گئی اب آپ بچوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں”۔
وہ خاصامضطرب تھا بے چین سا ہوکر اٹھ بیٹھا ٹہلنے لگااسے ایک خاص مہمان کا انتظار تھا۔۔اس کا شمار شہرکے گنے چنے امیر کبیر لوگوںمیں کیا جاتا تھاانسان دوست،علم پرور اوردین کی خدمت کرنے والا حاشر ۔۔ کئی ادارے اس کی سرپرستی میں کام کررہے تھے ذرا سی بھی آہٹ ہوتی وہ چونک چونک جاتا اور بے اختیار نگاہیں دروازے کا طواف کرنے لگتیں۔اصرارکے باوجود معزز مہمان نے خاص طورپر تاکیدکی تھی کہ میں خود آپ کے پاس آئوں گا میرے استقبال کیلئے کسی کو نہ بھیجا جائے ۔ وہ مہمان کے مزاج سے واقف تھابس میں ہوتا تو حاشر خود سر کے بل ان کے استقبال کیلئے جانا اپنے لئے فخر سمجھتا۔۔اتنے میں ایک ملازم دوڑتا ہوا آیااور معزز مہمان کے آنے کی اطلاع کی حاشر بے تاب ہوکر ننگے پائوں استقبال کیلئے باہر لپکا وہ بزرگ دروازے تک آن پہنچے تھے ان کی صورت ایسی کہ دیکھ کر ایمان تازہ ہو جائے حاشربغلگیرہوا احترام سے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور مہمان خانہ میں لے گیا اگلے روز اصرار کے باوجود مہمان نے جانے کا قصد کیا حاشر نے ظہرکی نمازان کی اقتداء میں پڑھنے کی خواہش کااظہار کیااسی اثنا ء میں کچھ لوگ ملاقات کے آواردہوئے ان کے ساتھ تاجروںکے روپ میں 2 افراد ایسے بھی تھے چوری،فراڈ اورڈکیتی جن کا چلن تھا۔معززمہمان رخصت ہونے لگا تو حاشر نے زاد ِ راہ کیلئے100اشرفیوںکی تھیلی پیش کی جو انہوں نے قبول کرلی۔ اتنی رقم دیکھ کر ٹھگوں کے منہ میں پانی بھر آیا آنکھوںہی آنکھوںمیں انہوںنے مال ہتھیانے کا فیصلہ کرلیاجب بزرگ مہمان رخصت ہوا تو وہ بھی چپکے سے اس کے پیچھے ہولئے ٹھگوں کا ارادہ تھا شہر سے کچھ دور جب بھی موقعہ ملا وہ اشرفیاں چھین کر رفو چکر ہوجائیں گے لیکن بات نہ بنی بزرگ چلتے چلتے دریا کے کنارے پہنچے کسی سے اگلی منزل جانے والی کشتی بارے دریافت کرکے سوارہوگئے۔
Boat
تھوڑی دیر بعد ٹھگ بھی کشتی میں بیٹھ گئے سفر کا آغاز ہوا کشتی دریا کے عین وسط پہنچی دونوںنے شور مچانا، واویلاکرنا شروع کردیاہماری 100اشرفیوںکی تھیلی چوری ہوگئی ہے ملاح نے دو افراد تلاشی پرمامور کردئیے باری باری سب کی تلاشی۔ ایک بار، دوسری مرتبہ۔لیکن اشرفیوںبھری تھیلی کسی سے برآمد نہ ہوئی۔۔ٹھگوںنے براہ ِ راست بزرگ مہمان پر الزام لگاڈالا ہمیں اس پر شک ہے۔۔۔ لوگ حیران پریشان ۔۔جس کے چہرے پر نور برس رہاہے چور کیسے ہو سکتاہے؟ مسافروںنے سمجھایا لیکن اصرار تھا ہمارا چور یہی ہے بار بار تلاشی لینے پر بھی کچھ نہ نکلا تو لوگوںنے دونوںکو لعن طعن شروع کردی کہ اتنی محترم شخصیت پر ایسا گھٹیا الزام ۔۔اور سچ مچ ٹھگوںکی حیرت گم ہوگئی۔۔وہ سوچنے لگے الہی یہ ماجرہ کیاہے؟ اشرفیاں گئی کہاں؟یہ شحص ہم سے بڑا فنکارہے کیا؟۔۔سفر اختتام پذیرہوا دونوں پھر بزرگ کا تعاقب کرنے لگے وہ ایک سنسان جگہ راستہ روک کر کھڑے ہوگئے ایک بولا ہماری نظروںکے سامنے آپ کو100اشرفیوںکی تھیلی دی گئی لیکن کشتی میں تلاشی کے دوران بھی نہیں ملی ہم نے اس کی خاطر اتنا لمبا سفرکیاہے لائو وہ تھیلی ہمیں دیدو۔۔۔بزرگ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔ اشرفیاں تو میرے پاس نہیں ہیں؟۔۔ انہوںنے متانت سے جواب دیا۔۔۔ پھرکہاں گئیں؟ دوسرے نے بے صبری سے پو چھا۔۔۔بزرگ نے مسکراتے ہوئے کہا جب تم نے شور مچایا کہ ہماری 100اشرفیوںکی تھیلی چوری ہوگئی ہے ۔۔میں نے چپکے سے وہ تھیلی دریا میں پھینک دی تھی۔۔۔دونوں حیرت سے اپنے مخاطب کوتکنے لگے۔۔اتنی بڑی رقم دونوں بیک وقت بولے۔۔۔آپ نے دریا برد کردی۔
”بڑی سے بڑی دولت۔۔بزرگ نے فصیحت کے اندازمیں کہا انسان کے کردارسے زیادہ قیمتی نہیں ہوتی تم لوگ مجھے نہیں جانتے پیرانہ سالی کے باوجود نامساعد حالات، سفر کی صعوبتیں موسموںکی سختی کی پرواہ کئے بغیرمیں اتنا بڑا کام کررہاہوں جس کا تم اندازہ نہیں لگا سکتے میں نبی ٔ آخرالزماں ۖ کی احادیث ِ مبارکہ مرتب کررہاہوں تم جاننا چاہتے ہو تو سنو کشتی کے مسافروں میں صرف تم دونوں اس حقیقت سے واقف تھے کہ اشرفیاں میری ملکیت ہیں تلاشی کے نتیجہ میں مجھ سے برآمدہو جاتیں تو میرا کردار میری شخصیت قیامت تک متنازعہ ہو جاتی لوگ یہ تو کہہ سکتے تھے اسمعیل بخاری پر چوری کا الزام لگاتھا بعد میں حاشرمیری بے گناہی کی شہادت بھی دے دیتا تمہارا ضمیر ملامت کرتا تم سچی بات بھی بتا دیتے لیکن اس وقت کشتی کے مسافروںکو میں اپنی بے گناہی ثابت نہیں کر سکتا تھا اس لئے میرے پاس یہی ایک راستہ تھا کہ میں 100اشرفیوںکی تھیلی دریا برد کردوں مجھے اپنی ذات پر الزام بھی گوارا نہ تھا۔۔ دونوں ندامت میں پانی پانی ہوگئے اور برے کاموں سے تائب بھی۔۔۔یہ واقعہ حضرت سید اسماعیل بخاری کا ہے جن کی مرتب کردہ احادیث ِ مبارکہ کی مستند کتاب ”صحیح بخاری” ہے۔۔تاریخ کے سینے میں دفن یہ روایات۔۔حکایات اورزندگی کی حقیقتیں دنیا کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں ہم مسلمانوںنے اسے محض قصے کہانیاں قرار دے کر فراموش کردیاہے جن کو ہم کافر قرار دیتے ہیں انہوںنے حضرت عمرفاروق کے دور ِ حکومت کی تمام اصلاحات کو قانون بنا کر اپنے ممالک میں نافذ کردیاہے اور ان کی حکومتیں فلاحی مملکتیں سمجھی جاتی ہیں حکومت غلط پالیسیوں اور عوام کی منفی سوچ کی وجہ سے وطن عزیز میں مایوسی، دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ ملا۔
اللہ تبارک تعالیٰ نے پاکستان کو تمام نعمتوں سے نوازا ہے حتیٰ کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے سورة رحمن میں جنت کی جن نعمتوں کا ذکر کیا ہے وہ تمام تر پاکستان میں وافر جاتی ہے غالباً ا س کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کلمہ ٔ طیبہ کی بنیادپر قائم ہونے والی پہلی مملکت ہے اللہ جل شانہ’ نے اس ملک کو بھرپور وسائل سے سرفراز فرمایا اس کے باوجود ہم نا شکرے ہیں کبھی بجلی نہیں لوڈشیڈنگ نے کاروبار تباہ کردئیے—کبھی گیس نہیں— کبھی پانی نہیں— آئے روز بجلی،گیس ، اشیائے خودونوش،آٹا ،چینی ، گھی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے ایک زرعی اور انڈسٹریل ملک میں لوگ فاقے کرنے پر مجبور ہیں یہ توقیامت کی نشانیاں ہیں سچ ہے جو تاریخ سے کچھ سبق حاصل نہیں کرتے ان کا جغرافیہ بدل جاتا ہے ہمارے ملک کا جغرافیہ بدلنے کیلئے اسلام دشمن طاقتیں سرگرم ِ عمل ہیں پاکستان کے نت نئے نقشے جاری کئے جارہے ہیں اور ہمیں ہوش تک نہیں آئیے مل کر دعا کریں الہی !پاکستان کی خیر۔