تحریر: سید مبارک علی شمسی سرد موسم بے درد ہوا کرتا ہے۔ اس بات کا احساس ہمیں سیاچن گلیشئرز کی بلندیوں کا اندازاہ ہوا جہاں پاک فوج کے تازہ دم دستے ملک و قوم کی حفاظت کرتے ہوئے دشمنان وطن کے آگے ایک سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ یہ ایسا مقام ہے جہاں سارا سال برف جمتی رہتی ہے۔ اس کے تصور سے جھرجھری آجاتی ہے۔ جہاں حد نگاہ تک برف ہی برف ، زندگی ناپید ، سانس لینا دشوار اور قدم اٹھانا مشکل ہے۔ یہاں موت زندگی سے پہلے اور بیماری تندرستی سے پہلے پہنچ جاتی ہے۔ جہاں انسان پانی کو ترستا ہے اور بھوکا رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ جہاں گلا خشک ہو جاتا ہے۔ جہاں سانس رکتی ہوئی اور خون رگوں میں جمتا ہوا محسوس ہوتا ہے اس جگہ کا ہر لمحہ صبر آزما ہے۔ اور ہر گلی قوت برداشت کی آزمائش ہے۔ یہاں پر پھیلی ہوئی لامحدود وسعتوں کو دیکھ کر ہول ااتا ہے اور جہاں کے مہیب سناٹے میں تہنائی کاٹنے کو دوڑتی ہے۔ یہاں پہنچ کر آدمی کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے باقی دنیا سے اس کا رشتہ ہمیشہ کے لیئے منقطع ہو گیا ہو۔ اور اب وہ کبھی واپس نہیں جا سکے گا۔ یہاں عزیزوں کی یادیں شدت اختیار کر جاتیں ہیں۔۔۔۔۔ رخصت ہوتے وقت ماں کی آنکھوں سے ٹپکتے ہوئے آنسوئوں کا خیال آتا ہے تو دل ہچکولے کھانے لگتا ہے۔
یہاں بیوی کی شرمگیں آنکھوں میں بھرے ہوئے ہوئے آنسوئوں کا تصور دل کو تڑپانے پر مجبور کرتا ہے، یہاں اپنے پیارے پیارے بچوں کی ” ابو کب آئیں گے” ” ابو کب آئیں گے” کی آوزیں بار بار کانوں سے ٹکراتی ہیں تو آدمی کا دل مسوس کر رہ جاتا ہے، یہاں بہنوں کی محبتیں بھائیوں کو بے چین کر دیتی ہیں، یہاں فطرت اپنی پوری قہرمانیوں کے ساتھ انسان کی قوت برداشت اس کے اعصاب اس کے حوصلے اس کے صبر و تحمل، اس کے جذبہ ایثار، اس کی حب الوطنی اور اس کے شوق شہادت کا سب سے کڑا امتحان لیتی ہے۔ یہ بڑی جان لیوا ، کٹھن اور حوصلوں کو شل کر دینے والی آزمائش ہے۔ یہاں سب کچھ ہے یہاں جذبات کی پیہم یلغار، دشمن کی مسلسل پیکار اور فطرت کی حوصلہ شکن للکار ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاںعام آدمی کا حوصلہ گریز پا اور ہمت شکستہ گام ہے۔ سیاچن کی مہیب پہنائیوں میں پاک فوج نوجوان دشم کے اعصاب پر سوار اپنے مورچوں میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کے حوصلے جو ان ، ان کے ادراے مضبوط ، ان کے عزم بلند اور ان کے مقاصد محکم ہیں ان کے دماغ روشن، ان کے دل بے ہراس ، ان کے لب مشیم، انکی نگائیں پر نور ، ان کے اعصاب قوی اور ان کے قلب مطمئن ہیں یہ کچھ کر دکھانے کے لیئے بے قرار اور دشمن کو مٹا دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ آج بھی حسن پرست لوگوں کو گلیشئرز پر حسن و جمال فطرت کی پریاں رقص کرتی نظر آتی تو انکے جذبات میں کیف و سرور کی مہریں دوڑ جاتی ہیں اور بے خودی کے عالم میں سورج کی روشنی میں رنگ و نور کا ایک سیلاب بکھیرتی ہوئی سفیدی میں ڈوبی ان بلندیوں کی طرف چل پڑتے ہیں۔ لیکن ابھی منزل پر پہنچ بھی نہیں پاتے کہ برفستان کی شوخ پریاں ان کو غائب کر دیتی ہیں۔ یا پھر برف انہیں اپنے سینے میں دبوچ کر موت کی وادی میں دھکیل دیتی ہے۔ یہ سحر آفریں حسن فطرت، جسے دیکھنے کے لیئے سات سمندر پار سے لوگ آتے ہیں۔ اور اس کے سحر آفریں حسن میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔ یہاں جمال میں جلال اور حسن و رعنائی میں قوت و برنائی کی عود ہے یہ وہ علاقہ ہے جہاں حسن پر ہمیشہ دوشزگی طاری رہتی ہے اور فطرت سدا جوان نظرآتی ہے۔ یہاں برف پوش حسین چوٹیوں کی اٹھتی جوانیاں انسانوں کو شیریں کی طرح دعوت وصل تو دیتی ہیں لیکن انکار فرحاد سا حال کرتی ہیں۔ خلاق عالم کی ضاعی کا کمال ہے اس نے ان بلند پہاڑوں پر بسنے والے لوگوں اور ان پر پڑنے والے آرمی کے جوانوں کے دل اور پھیپھڑے بڑنے بنائے ہیں۔ اور ان کے خون میں سرخ ذرات کی تعداد زیادہ رکھی ہے۔ اس برفاب موحول میں رہنے والے جوان قابل فخر اور لائق داد ہیں۔
دسمبر اداس موسم ہے اور مایوسی کا موسم ہے کیونکہ اس موسم کے آتے ہی درختوں سے پتے گرنے لگتے ہیں اور پھول بکھرنے لگ جاتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ برفانی ہوائیں چلتی ہیںتو سارے چشمے اور آبشار سوکھ جاتے ہیںاور لوگ صرف اپنے گھروں تک محدود ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موسم سرما کے حوالے سے لکھے ہوئے انگریزی کے پُرانے اشعار بہت درد بھرے ہوتے تھے میں اس ضمن میں صرف خوبصورت انگریز شاعر شیلے کی اس نظم کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جسمیں اس نے کہا ہے کہ: If winter comes, can spring be for behind? یہ درد صرف انگریزی شاعر ی کا ہی خاصہ نہیں ہے اسے اکثر شعراء نے بھی اپنی شاعری کا ذریعہ اظہار بنائے ہوئے دسمبر کو رومانوی مہینہ قرار دیتے ہوئے ہجر، عشق، وصال کی کئی غزلیں اور نظمیں لکھی ہیں۔ خواجہ غلام فرید لکھتے ہیں کہ ” روہی( چولستان) میں بارش ہو چکی ہے تالاب میں پانی پوری طرح بھر گیا ہے اے ہم عصر دوست ایسے میں آکے مجھ سے ہم کنار ہو جا۔۔۔۔۔۔۔ رات اور دن کو بادل اور برکھا کا سماں ہے ساتھ ہی پرندوں کے چہچانے کی آوازیں ہیں۔اے سوختہ بخت عشق کی مسافتیں تو بہت ٹیٹرھی اورلمبی ہیں وہاں کے پہاڑ تکلیف دہ اور پہاڑوں اور ندی نالوں پر سے گزرنے والی راہیں دشوار گزار ہیں تھل کے علاقے کی مسافتیں دکھ بھری ہیں پل پل درد کے دورے پڑے لگتے ہیں اے سائیں! میری تو باگ ڈور بھی دردوالم کے ہاتھ میں ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے دسمبر کو محبت کا موسم قرار دیتے ہوئے کہا کہ۔ بادشمال چل رہی ہے؟ مگر میرے پاس گرم کپڑے نہیں؟ نہ تو میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے اور نہ ہی محبوب کا گرم ہاتھ ہے ان لوگوں کا حال کیا ہو گا؟ جن کے گھر اجڑے ہوئے ہوئے ہیں۔ اس شعر میں سندھ کی غربت (تھرپارکر ) کی تصویر نظرا تی ہے۔ اردو اب کے بے باک ادیب اور شاعر جوش ملیح آبادی نے بھی دسمبر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب سردی میں شدت آتی ہے تو تب صرف روٹی سے مسئلہ حل نہیں ہوتا اس موسم میں ” دوائی” کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے اور یہ دوائی شاہ لطیف کی شاعری کا موضوع رہا ہے۔
Army Public School, Attack
دور حاضر میں خواتین کی نمائندہ شاعہ و افسانہ نگار درد انہ نوشین خان لکھتی ہیں کہ دسمبر کا نقارہ بج گیا ہے ، پڑائو کا اشارہ کوچ کا ہے۔ دسمبر نقارہ کوچ کا ہے۔ تسنیم کوثر لکھتی ہیں کہ ” دل کے آسماں پر جب اکبر چھانے لگتا ہے ، درد کا سمندر بھی جھاگ اڑانے لگتا ہے، بادلوں کے کچھ ٹکرے سامنے جب آتے ہیں ، پہروں پھر رولاتے ہیں۔ پری عمران شاہ لکھتی ہیں کہ ” میں نے اسے بہت ڈھونڈا ، دسمبر کے آخری پل میں ، مگر وہ یاد کا حصہ بن کر ، ابر آیا” معروف سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی لکھتے ہیں کہ
مونجھ داتار سمندر آگئے دل وت قہر دے اندر آگئے شاکر درد ودھاونٹر کیتے وت ایں سال دسمبر آگئے
عیسوی سال کا آخری مہینہ دسمبر اپنی یادوں کے آنچل کو سمیٹ کر ہم سے بچھڑنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اس کے جانے کے بعد ہماری زندگی کا ایک باب ختم ہو کر ماضی کا حصہ بن جائے گا۔ موسم سرما کا بادشاہ دسمبر جسے رومانوی حیثیت کے ساتھ ساتھ تاریخی اہمیت بھی حاصل ہے۔ آئیں دسمبر کو تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ 2 دسمبر 1988 کو بے نظیر بھٹو نے پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل کیاکرتے ہوئے حلف اٹھایا اور بعد میں محترمہ 27 دسمبر 2007 کو روالپنڈی میں شہید ہو گئیں۔ 5 دسمبر 1958کو پطرس بخاری نے ساٹھ سال کی عمر میں نیویارک یونائیٹڈ سٹیٹ میں وفات پائی ۔ 8 دسمبر1925 کو ناصر کاظمی پیدا ہوئے ۔8 دسمبر 2014 کو تحریک انصاف کے پلان سی کے مطابق نکالی گئی ریلی پر (ن) لیگ کے کارکنوں نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجہ میں دوشخص جاں بحق ہو ئے۔ 9 دسمبر 2000کو سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے شریف برادری کو اٹک قلعہ سے اسلام آباد اور وہاں سے جدہ بھیج دیا تھا اور 9 دسمبر 2003 کو متحدہ مجلس عمل اور جے یو پی کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی داغ مفارقت دئے گئے۔ 10 دسمبر کو مولانا محمد علی جوہر پیدا ہوئے۔ 11 دسمبر 2014 کو تین نسلوں کے مقبول ترین سرائیکی گائیک منصور علی ملنگی اپنے لاکھوں مداحوں کو روتا ہوا چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ 12دسمبر 2013 کو چیف جسٹس افتخار چوہدری اپنے عہدے سے رخصت ہوئے اور ان کی جگہ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے حلف اٹھایا۔ 14 دسمبر 1931 کو معروف شاعر کون ایلیاء پیدا ہوئے۔ 16 دسمبر 1971 کو سانحہ مشرق پاکستان اور 16 دسمبر2014 کو سانحہ پشاور رونما ہوا۔ 19 دسمبر1984 کو جنرل ضیاء الحق کا متنازعہ ریفرنڈم ہوا۔ 21 دسمبر1982 کو پاکستان اور آزادکشمیر کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔25 دسمبر کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ولادت ہوئی ۔ 26 دسمبر 1994 کو پروین شاکر اسلام آباد میں ایک کار حادثے میں ہم سے بچھڑ گئیں۔26 دسمبر2004 کو سونامی طوفان مختلف ممالک کے ساحلی علاقوں کے لیے تباہی کا پیغام لایا۔2 دسمبر 1992 کو ایودھیہ میںمسلمانوں کے لیئے تاریخی اہمیت کی حامل بابری مسجد کو انتہا پسندوں نے شہید کر دیا۔
میری دعا ہے کہ آئندہ جب بھی دسمبر آئے تو ہمارے لیئے خوشیاں لے کر آئے اب ہم میں مزید زخم سہنے کی ہمت نہیں۔ اب ہم سانحہ پشاور کی وجہ سے دسمبر کو ہمیشہ یاد رکھیں گے اور شہدائے پشاور کی یادیں اپنے نہاں خانہ دلوں میں محفوظ رکھ کر جینے کا حوصلہ سکھیں گے اور دہشت گردی ختم کر کے دم لیں گے۔
Mubarak Shamsi
تحریر: سید مبارک علی شمسی ای میل mubarakshamsi@gmail.com