پوری قوم ایک صفحے پر

Karachi Airport

Karachi Airport

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
ہم بھی عجیب لوگ ہیں ۔جب بھی کوئی جانکاہ حادثہ رونما ہوتاہے تو ہم جذبات کے الاؤمیں اپنے پرانے زخم کریدنے لگتے ہیں، سر جوڑکر بیٹھتے ہیں ،نئے نئے منصوبے تراشتے ہیں لیکن نتیجہ ہمیشہ ڈھاک کے تین پات۔ دہشت گردوں نے ساٹھ ہزار شہید کر دیئے، پریڈلین مسجد ،جی ایچ کیو ،نیول ایئر بیس، کراچی ایئرپورٹ، کونسی جگہ ہے جو دہشت گردوں نے چھوڑی ہو ۔اُن وحشیوں نے تو مساجد، جنازگاہیں، مارکیٹیں اور چرچ تک نہیں چھوڑے لیکن ہم نے اپنے آپ کو فقط منصوبوں تک محدود رکھا، عملی اقدام نہ ہونے کے برابر۔ پھردلوں کی دنیااآجاڑ دینے والاسانحہ پشاور ہو گیا اور ہم ایک دفعہ پھر سر جوڑ بیٹھے لیکن اب کی بارمنظر دوسرا تھا۔

پاکستان اور عالمِ اسلام ہی نہیں، پوری دنیانے اِس درد کو محسوس کرتے ہوئے بھر پور مذمت کی ،کوئی طالبان کاحامی باقی نہ بچا حتیٰ کہ سیّد منور حسن نے بھی کہہ دیا”یہ قتال فی سبیل اللہ نہیں ،قتال فی سبیل الشیطان ہے۔ سانحہ پشاور پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی اوربنا حیل وحجت سبھی دہشت گردی کے خلاف یکسو ہوگئے۔

اللہ نظرِبَد سے بچائے، سیاسی وعسکری قیادت میں جتنی معجزاتی ہم آہنگی آج نظر آرہی ہے وہ پاکستان کی تاریخ میں دیکھی نہ سُنی۔ اِس کے باوجود کچھ کور چشم بزرجمہروں کو یہ ہم آہنگی نظرنہیں آرہی۔ ایک ارسطوئے دَوراں جو حبّ علی نہیں ،بغضِ معاویہ کے تحت ہمیشہ نواز لیگ کے خلاف محض اِس لیے زہر اگلتے رہتے ہیں کہ 2013ء کے انتخابات میں نواز لیگ نے اُنہیں ٹکٹ سے محروم رکھا، اُنہوں نے وزیرِاعظم کے جی ایچ کیو کے دورے پر فرمایا جب وہ پشاور میں ہونے والی درندگی کے بعد جی ایچ کیوگئے تو اُن کے چہرے کے تاثرات دیکھنے والے تھے۔ فیصلہ ساز فوجی جنرل اور جنگ میں قوم کی قیادت کرنے والوں کو علم ہی نہ تھا کہ کیا کہا جا رہا ہے ۔وہ وہاں سکوت کا مظہربنے بیٹھے تھے۔

ہم تو سمجھتے تھے کہ موصوف صرف لکھاری ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ وہ ایسے ماہرِ نفسیات بھی ہیں جو چہروں کو پڑھ کردِل کا حال معلوم کرلیتے ہیں ۔ویسے یہ بھی ہوسکتاہے کہ موصوف کے پاس ”سلیمانی ٹوپی”ہو جسے پہن کروہ دنیا کی نظروںسے غائب ہوکر میاں صاحب کے پیچھے پیچھے جی ایچ کیو میں ہونے والی میٹنگ میں جاپہنچے ہوں کیونکہ جس قطعیت سے موصوف نے میاںصاحب کے ”سکوت کا مظہر”بنے بیٹھنے کا ذکرکیاہے اُس سے تو یہی ظاہر ہوتاہے کہ وہ بھی میاں صاحب کے پہلو میں ہی براجماںتھے ۔ہم اُن کی سلیمانی ٹوپی پر ایمان لے آتے لیکن 24 دسمبرکی طویل ترین آل پارٹی کانفرنس کے بعد موصوف کا بھانڈا پھوٹ گیا کیونکہ وہاں تو ناقابلِ یقین ہم آہنگی نظرآئی اور سبھی نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ حکومت اور فوجی قیادت ایک صفحے پرہے۔ دراصل محترم لکھاری دھرنے ختم ہونے پر بوکھلا گئے ہیں کیونکہ وہ تو سمجھتے تھے کہ حکومت کے دِن گنے جاچکے لیکن اب تو تمام سیاسی جماعتوں نے میاں نواز شریف کی قیادت پر اعتمادکا اظہار کر دیا جس کی بناپروہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئے۔

محترم لکھاری کی طرح چودھری برادران کی بوکھلاہٹ تواُس وقت سے جاری ہے جب سے علامہ قادری اُنہیں داغِ مفارقت دے کر عازمِ امریکہ ہوئے ۔شنیدہے کہ علامہ صاحب کے کھسک لینے کے بعدلوگ دھڑادھڑ چودھری برادران سے دھرنے کی تعزیت کرنے اُن کے گھرپہنچنے لگے ۔اُن لوگوں میں شیخ رشید بھی شامل تھے جوچودھری برادران کویہ طفل تسلیاں دے رہے تھے کہ ابھی کپتان کا دھرناباقی ہے اور کپتان تواُن کے بغیر لقمہ بھی نہیں توڑتے اِس لیے خاطر جمع رکھیں لیکن چودھری برادران توعلامہ قادری کی جدائی میں اتنے بے کَل تھے کہ متواتر گاتے ہی چلے جارہے تھے کہ ”سانوں اِک پَل چین نہ آئے سجناں تیرے بِنا”۔ایک کونے میں احمد رضا قصوری اُداس اُداس بیٹھے تھے ۔کسی نے اداسی کا سبب پوچھاتو فرمانے لگے کہ دھرنا تھا تو کچھ آسرا بھی تھا لیکن اب تو پرویز مشرف صاحب کا مستقبل تاریک ہی لگتاہے

خطرہ ہے کہ ملک ایک ”عظیم فنکار”سے محروم ہوجائے گا ۔ہمارے علامہ قادری بھی عجیب شٔے ہیں ۔جب وہ کینیڈاسے تشریف لائے تو حکومت پریشان ہوئی اور جب گئے توکچھ راندہ درگاہ سیاستدان اور کاروباری لوگ پریشان ہوئے ۔راندہ درگاہ اِس لیے کہ سوائے ”آستانۂ قادریہ”کے اُنکی کوئی جائے پناہ نہیں تھی اورکاروباری اِس لیے کہ وہ توڈی چوک کو مارکیٹ میں بدلنے کے منصوبے بنائے بیٹھے تھے لیکن پتہ نہیں علامہ صاحب کے مَن میں کیاآئی کہ اچانک اپنا دھرنا سمیٹ کراُن کے کاروبارپہ لات ماردی ۔کچھ لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ علامہ صاحب نے بھکر کے ضمنی انتخابات میں مایوس کُن کارکردگی کی بناپر ایک دفعہ پھر انتخابات میں حصّہ لینے سے توبہ کرلی ہے اور صحت یابی کے بعدوہ انقلاب لانے پاکستان تشریف لارہے ہیں لیکن اب کی باراُنہیں کپتان صاحب کا ساتھ میسر نہیں ہوگا کیونکہ اب کپتان صاحب قومی دھارے میں شامل ہوچکے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف اُن کا عزم اتنا صمیم ہے کہ اُنہوںنے آل پارٹی کانفرنس میں بَرملا کہہ دیا ” تمام مسلح جتھوں سے ہتھیار واپس لیے جائیں، کوئی عسکری ونگ نہیں ہونا چاہیے، ہتھیار صرف ریاستی فوج کے پاس ہونے چاہییں۔

PTI

PTI

خاں صاحب کی اِس تجویز کو وزیرِاعظم اور آرمی چیف نے بھرپور اندازمیں سراہا ۔یہ بھی اُمیدکی جارہی ہے کہ ایک آدھ دِن میں حکومت اور تحریکِ انصاف کی مذاکراتی کمیٹیاں کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ جائیںگی ۔اِس لیے کپتان صاحب تواب علامہ قادری کے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہونے سے رہے البتہ الطاف بھائی سے اُمیدکی جاسکتی ہے کہ وہ ”اوئے جاگیردارا”کا نعرہ لگاتے ہوئے قادری صاحب کے ساتھ آن ملیں ۔ویسے بھی آجکل وہ بہت ”اوکھے اوکھے ”بیانات دے رہے ہیں۔

پہلے اُنہوںنے مولاناعبد العزیزسے پھڈا ڈالا ،پھر مارشل لاء کی بات کی اور اب ایک دفعہ پھر نئے انتظامی یونٹ اور صوبے بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ملٹری کورٹ پربھی سب سے زیادہ اعتراض ایم کیوایم کو ہی تھا ۔فاروق ستارصاحب نے فرمایا ”پہلے جب ملٹری کورٹس بنے تھے توہمارے خلاف ہی استعمال ہوئے تھے ”۔افہام وتفہیم کی فضاکو برقرار رکھنے کی خاطرچیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف صاحب نے کہہ دیا ”ماضی کو چھوڑیں ،آگے بڑھیں ،میں ذاتی گارنٹی دیتا ہوں کہ ملٹری کورٹ کا غلط استعمال نہیں ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ الطاف بھائی یہ سب کچھ حفظِ ماتقدم کے طورپر کررہے ہوں تاکہ 1992ء کی تاریخ نہ دہرائی جائے اور ایم کیوایم کے باقی رہنماؤں کو بھی الطاف بھائی کی طرح رات کے اندھیرے میں فرارنہ ہونا پڑے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر