ایک حقیقت جس کا اعتراف جرم نہیں

Sense

Sense

تحریر: محمد ابوذر مہدی

ہمارا شعور ابھی خواب خواب تھااور ہماری فکربھی ارادوں کی سرزمین کو سراب کرنے کے قابل نہ تھی جب ہماری سماعت اور عزمِ صمیم (لفظ)کاملاپ ہوا۔عجیب اتفاق ہوتا یا ہم حادثہ سمجھ کے سماعت کے پردوں سے گزار دیتے جب کوئی معلم یاادیب ہمیں جرت مند ،کہنہ مشق اور کامل شخصیات کی سچی کہانیاں سناتے ۔ معلم یاادیب کہاں اور ہماری سوچ کہاں ؟ہم تو اس وقت اسلامیات کے اس فقرے کے قائل تھے کہ ”سب انسان برابر ہیں”مگر ! تصوف پرمنصور کی شخصیت کا ذکر ہو یا سقراط کے پختہ ایمان کی مثالیں ،جمال الدین افغانی بحرِ منجمدمیں تھرتھراہٹ پیدا کرنے والے عظیم لوگوں میں نایاب اور جیدعلماء کے فقہ و دارالفتاء کے تذکرے ،ابن العربی ہویا حافظ شیرازی کاادبی سفر ،غالب جیسے بصائر انسان کی زندہ دلی یااقبال کافلسفہء خودی جہاں ان تمام شخصیات نے زندگی کا ایک طویل عرصہ ادب کی ترویج میںنہ صرف صرَف کیابلکہ تاریخ میں امر ہوگئے۔

ان کے برعکس سیاست کے چورچکارجنہوں نے اپنوں سے غیروں کی زبان کا نہ صرف کھلم کھلا استعمال کیا بلکہ عملی طور پر وہ مظالم ڈھائے جن کاذکرعام ہے۔تاریخ نے دونوں کا ذکرکیاہے محنت دونوں طبقوں نے کی ہے ایک نے محبت کا جذبہ پیدا کیا ہے تو دوسرے طبقے نے نفرت اور منافقت کی بنیادرکھی ہے۔اس کے علاوہ وہ لوگ جومحبت ، نفرت،جنت ،جہنم اور حلال حرام کی تفریق سے ماورا ء ہیں ان کا بھی ذکر آیا ہے ۔مگر ہمارے نزدیک سب انسان برابر تھے۔ زندگی کے مختلف پہلوہیں اوریہ انسان پہ منحصرہے وہ کیسے گزارتا ہے۔لیکن علامہ اقبال نے پُرامید ہو کروثوق سے کہا:
نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے
یہ رعنائی ،یہ بیداری ،یہ آزادی ،یہ بے باکی

زندگی جہد ِمسلسل کا نام ہے ۔زندگی کے ہرپہلومیں کئی رازپنہاں ہوتے ہیں اورہرراز میں انسان کے لئے ایک کشش ہے۔ہرراز کی نقاب کشائی سے انسان کوعجیب قسم کی مسرت حاصل ہوتی ہے۔غالباََ اس کی وجہ یہ ہے کہ فتح مندی اور وسعتِ نظر کے ملے جلے جذبات سے انسان کو اپنی اس اہمیت کا احساس ہونے لگتا ہے جس کی آرزو اُسے دشت وجبل اور وادی و ریگزار میں لئے پھرتی ہے۔زندگی خود ایک عظیم راز ہے۔جس کے چہرے سے پردہ اٹھانے کو انسان روزِ اول سے بیقرارہے اور نہ جانے کب تک بیقرار رہے گا۔چنانچہ جس طرف بھی آنکھ اُٹھا کر دیکھیں ذہنِ انسانی سربہ زانو نظر آتا ہے۔سادھوکی کٹیا ہوکہ فلسفی کاکاشانہ ،شاعر کابوریا ہوکہ پیغمبر کاآستانہ ہرکہیں افشائے رازکی ایک مستقل دھن ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہماری زندگی کا محبوب ترین مقصد خود زندگی کی حقیقت تک پہنچنا ہے ۔ یہاں مجھے حضرتِ جون ایلیا کا ایک شعریاد آرہا ہے۔
زندگی ایک فن ہے لمحوں کو
اپنے اندازسے گنوانے کا

چنانچہ اس کوشش میں زندگی کے ایک تنگ دائرے سے نکل کروسیع تر دائرے میں قدم رکھنا ہے اور انجام کار اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ زندگی کے پورے نقشے کو ایک ہی نگاہ میں دیکھ سکیں اور ہوسکے توکون ومکاں پر چھا جائیں ۔خود حق تعالیٰ نے”علم آدم الاسماء ”کو انسانی شرف وفضیلت کی بنیاد قرار دیا ہے اور اسی علم اسماء میں انسان کی ساری قوت کا راز ہے۔غالب نے کیا خوب فرمایا
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا لیتے
عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکان اپنا

اسی طویل اور کٹھن منزل میں بہت سے مسافر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے زندگی کے اس راز کا نہ صرف پردہ فاش کیا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی اس راز کی جنگ میں شامل کر گئے ہیں ۔انہی نادرِ روزگار شخصیات میں منشاء فریدی کابھی ذکرآتا ہے۔ منشاء فریدی ضلع ڈیرہ غازی خان کے ذیلی علاقے چوٹی زیرین میں 10اپریل 1978ء کو پیدا ہوئے۔ موصوف اپنے علاقے کے ایک باعزت گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔محدودمعاشی وسائل کے پیشِ نظرابتدائی تعلیم قریبی سکول میں حاصل کی ۔محدود وسائل اورلامحدودمسائل کے پیشِ نظرتعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے ۔جہاں ذاتی اورسماجی مسائل نے موصوف کومتحرک رکھا وہاں ادبی اورتخلیقی سفربھی رواں دواں رہا۔شاعری اورتحقیق(ریسرچ)کے ساتھ ساتھ کالم نگاری میں ایک منفردمقام پرفائزمنشاء فریدی کا یہ سفرتقریباََچودہ سال کے طویل عرصے پرمحیط ہے۔

موصوف کے کالم نہ صرف پاکستان کے قومی اخبارات میں شائع ہوتے ہیں بلکہ دیگر ممالک کے اخبارات کی بھی زینت بنتے ہیں اورموصوفِ الیہ اپنے کالم میں نہ صرف سیاسی مسائل پرزور دیتے ہیں بلکہ علاقائی مسائل کوبہت زیادہ اجاگرکرتے ہیںاوراپنی دھرتی کا حق احسن طریقے سے اداد کرنے میں مگن ہیں ۔ اور حال ہی میں پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ(PFUC)کی ممبرشپ بھی ملی ہے جس پر راقم الحروف مبارک باد پیش کرتا ہے اور ان کے ساتھ محترم سیدبدرسعید اور ان کی پوری ٹیم کا بے حدمشکور ہے جنہوں نے ایک متحرک اور صاحبِ بصیرت وصاحبِ بصارت ادیب کواتنا معیار دیا۔ ورنہ اس دور ِ تنگ نظرمیں ہر بندہ خدا بننے کے چکر میں ہے یہ وہ معاشرہ ہے جس کے بارے میں جالب جیسے لوگوں نے بہترین فلسفہ پیش کیا تھا۔
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاندیہاں نہ نکلا کر

منشاء فریدی کے ساتھ ساتھ بہت سے ادیب ایسے ہیں جن کی زندگی صرف مطالعہ اور حق بات کی ترویج میں گزررہی ہے مگر تاریخ گواہ ہے انجام یہ ہوا کہ پہلے تومعاشی مسائل نے مار دیا اگر اس طوفان سے چھٹکارا ہواتو حاکم ِ وقت کے ہاتھ آ گئے اور یہاں سے بچ نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔کیونکہ ہماری قوم کوجہالت ادب کے طور پہ پڑھائی جاتی ہے۔ذلت کی نیند میں ڈوبی ہوئی قوم کوجگانا انتہائی مشکل اور سخت کام ہے۔امامِ حسین نے کربلا میں ارشاد فرمادیا تھا اگر قوموں کے اندر جہالت اور خوف رہا تو ہر دور کے مسلم بن عقیل کودارالعمارہ کی چھت پہ شہید کردیا جائے گا۔اسی جہالت کا نتیجہ روزمرہ کی زندگی میں عام نظر آتا ہے۔اور اس دور میں بے باق و بے باک لیڈر کی انتہائی ضرورت ہے جو کہ پاکستانی قوم کا ایک خواب کی حد تک ہے۔جہاں موت کی قدر نہیں وہاں انسان کی قدر بھلا کیا ہوسکتی ہے ؟محقق ہر شعبے کی ضرورت ہے مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے جاہل طبقہ صاحبِ اقتدارو اختیار ہے۔خاص کر ادیب دشمن عناصر کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ حکیم الامت نے کیا خوب فرمایا:
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج ِنظر کے سواکچھ اور نہیں

Sun

Sun

زمانہء حاضر کا انسان وسائل کے ہوتے ہوئے مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے ۔ستاروں کو ڈھونڈلانے والا انسان اپنے آپ سے بے خبر ہے۔سورج کی شعاعوں کوگرفتار کرنے والا انسان شبِ تاریک کوسحر کی نوید بھی نہیں دے سکتا ۔شاعرِمشرق کا شعرہذا آبِ زر کی مانند ہے :
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ ء نفع وضرر کر نہ سکا

لیکن اس سب کے برعکس منشاء فریدی نے اپنے افکار کو ایک خول میں بند نہیں کیا ۔بلکہ ہر موضوع پر قلم کو اُٹھایا اور خوب نبھایا ہے۔ان کے مضامین مختصر ہیں یا کہ طویل وہ نفسِ مضمون کے دھنک رنگوں سے مزین ومزیب ہیں ۔ان کے افکار صداقت کے امین اور رفعتِ تخیلات سے مملو ہیں ۔ان کے افکار میں اعتدال بھی ہے اور جلال وجمال بھی ہے۔میں اربابِ اختیار سے ملتمس ہوں کہ وہ منشاء فریدی کے مضامین کو سرکاری خرچ پر کتاب کی صورت میں محفوظ کریں تاکہ آئندہ نسل موصوف کے افکار ،ندرتِ خیالات اور اسلوبِ بیان سے مستفیدہو۔

Mohammad Abu Zar Mahdi

Mohammad Abu Zar Mahdi

تحریر : محمد ابوذر مہدی
03006788752
abuzarmehdi954@gmail.com