نیا سال

Time

Time

تحریر: صفورا نثار، کراچی
وقت ہاتھوں سے ریت کی مانند پھسلتا جا رہا ہے۔ دن تسبیح کے دانوں کی طرح ایک کے بعد ایک آتے اور ماہ و سال میں متغیر ہوتے جا رہے ہیں ۔ وقت اپنی ایک ہی رفتار سے رواں دواں ہے کبھی راتیں طویل اور دن مختصر اور کبھی دن طویل اور راتیں مختصر مگر آج کل شب و روز کی طوالت اور اختصار کسی پر اثر انداز نہیں ہوتی۔

ابھی کچھ دن پہلے ہی ہماری ایک سہیلی نوشین کہنے لگی راتیں کچھ لمبی نہیں ہو گئیں اس کے جواب میں دوسری سہیلی سعدیہ نے کہا ہمارے دن رات توہمیشہ ایک ہی جیسے گزرتے ہیں۔رات دن کا گھٹنا بڑھنا ان لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے جو سورج کے حساب سے چلتے ہیں مگر ہم تو گھڑی کے حساب سے چلتے ہیں وہ ہی صبح سویرے چھ بجے اٹھنا اور تمام دن مصروف رہنے کے بعد رات دس، گیارہ بجے سونا۔

آج کے اس افراتفری کے دور میں زندگی مصروفیات سے بھر پوراسی انداز سے گزر رہی ہے کوئی چند لمحوں میں زندگی جی لیتا ہے اور کوئی زندگی جینے کے لیے ایک لمحے کی تلاش میں رہتا ہے۔

ہم سال کے ختم ہونے پر خوشیوں کے دیپ جلا لیتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہماری زندگی سے ایک سال اور کم ہو گیا۔ اچھی بات ہے جو گزر گیا اس پر غم کرنے کے بجائے جو آ رہا ہے اس کی خوشیاں منائیں مگر اس کے ساتھ ہی گزشتہ جو اچھائی، جو نیکی رہ گئی تھی، جو کام ادھورے رہ گئے تھے جو وعدے وفا کرنے ضروری تھے، جو خدمت گزاری، جو عبادات کل پر ٹال رکھیں تھیں انہیں پورا کریں۔ اپنی خوشیوں میں اپنے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کریں۔

خوشی کے لمحات اگرچہ کتنے ہی طویل کیوں نہ ہوں ہمیں وہ صرف چند لمحے لگتے
ہیں۔ اس کے برعکس اگر خدانخواستہ ہمیں کوئی دکھ ملے تو ایک ایک لمحہ بھی صدیوں برابر لگتا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ وقت اپنی ایک ہی مخصوص رفتار سے چلتا ہے لیکن ہمارے احساسات، ہماری کیفیات اسے کبھی طویل کر دیتے ہیں اور مختصر مگر ہمیں غم کے لمحات میں بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ ظلمت کی رات کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو سحر ضرور ہوتی ہے۔

Allah

Allah

اللہ سے دعا ہے کہ یہ نیا سال کسی کے لیے بھی کوئی رنج و الم کا لمحہ نہ لائے جس کا ایک پل صدیوں کے برابر لگنے لگے۔ نہ کوئی رنج و الم کسی کے پاس آئے خدا کرے نیا سال سب کو راس آئے دکھ ہر کسی کا ایک ہوتا ہے اور خوشیاں ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے مناتا ہے مگر ہماری نوجوان نسل کی سال ختم ہونے سے پہلے ہی خوشی کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں اور ان کا نئے سال کی خوشیاں منانے کا ایک الگ ہی جان جوکھم میں ڈالنے والا طریقہ ہوتا ہے اور انداز بھی ایسا جس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے، رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

رات بارہ بجتے ہی نئے سال کی خوشی میں ہلا گلا، موج مستی اور جشن شروع ہو جاتاہے۔وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہماری ذرا سی لاپرواہی وبالِ جان بن سکتی ہے اور ساتھ عمر بھر کا روگ بھی۔ نئے سال کی خوشی اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ احتیاط بھی لازم ہے کیوں کہ ہماری ذرا سی غلطی ہمارے ساتھ ان لوگوں کے لیے جو ہمیں چاہتے ہیں جن کی زندگیاں ہم سے وابستہ ہیں پچھتاوا بن سکتی ہے۔

ہمارے نوجوانان اپنے گزشتہ سال پر نظر ڈال کر ان کی غلطیوں کوتاہیوں سے عبرت حاصل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اگر وہ یہ زحمت گوارا کر لیں تو بہت سے ممکنہ انتشارات سے بچ سکتے ہیں۔ خدا را خود کے لیے اور خود سے وابستہ لوگوں کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہ بنیں۔ نہ صرف خود خوش رہیں بلکہ دوسروں میں بھی خوشیاں بانٹیں، اپنے لیے تو سب جیتے ہیں آپ دوسروں کے لیے جینا سیکھیں، غم ذدہ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیریں نہ کہ کسی کی اداسی، کسی کی تکلیف کی وجہ بنیں۔

Safora

Safora

آئیں سب مل کہ اس نئے سال کے آغاز پر اللہ سے یہ دعا کریں کہ اللہ ہمارے ملک کو اس کے ہر شہری کو اپنی حفظ امان میں رکھے اور کوئی سانحہ پیش نہ آئے خاص طور پر پشاور والے سانحے جیسا۔ جس نے ایک ساتھ کئی گھر اجاڑ دئیے، ہر آنکھ اشک بار کر دی، ہر دل خون کے آنسو رلا دیا، پتھر جیسے دل بھی پگھلا دیئے مگر اسے سانحے کے ذمہ داروں کو نا جانے کب رحم آئے گا، کب ان کا ضمیر اور ان کے اندر کی انسانیت جاگے گی۔ ’’اے کاش نیا سال خوشیوں کی نو لائے اس ملک کے ہر شہری کو یہ سال راس آئے نہ ہو سانحہ کوئی، نہ اُجڑے کوئی گھر نئے سال کا ہر لمحہ پیغام امن لائے

تحریر: صفورا نثار، کراچی