کراچی (جیوڈیسک) 2014 پاکستانی اسپورٹس کے لیے ہنگامہ خیز ثابت ہوا، کارکردگی میں اتارچڑھاؤ دیکھنے میں آیا لیکن تنازعات بھی پیچھا کرتے رہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی کرکٹ رواں برس بھی چونکا دینے والی خبروں کے اعتبار سے شہ سرخیوں میں رہی، پی سی بی کی چیئرمین شپ کو حاصل کرنے کی خواہش نے دنیا بھر میں پاکستانی کرکٹ کی جگ ہنسائی کرائی، اس عہدے کو پانے کی خواہش فریقین کو عدالت میں لے گئی اور اس تنازعے کا ڈراپ سین کچھ اس طرح ہوا کہ ذکا اشرف کو چیئرمین کے عہدے سے محروم ہونا پڑا جس کے بعد شہر یار خان نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی چیئرمین شپ سنبھال لی۔
اس تنازع کے دوسرے فریق نجم سیٹھی پی سی بی کی چیئرمین شپ کو چھوڑ کر آئی سی سی کی صدارت تک جا پہنچے، پی سی بی کی صدارت ہی نہیں بلکہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی بھی ایسی ہی ہے کہ اچھے اچھے کے منہ میں پانی آجاتا ہے، کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق کو ورلڈ کپ تک کپتان بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن معلوم نہیں شاہد آفریدی کو کیا ہوا کہ انھوں نے کپتانی کی خواہش ظاہر کرڈالی، شاہد آفریدی کو اپنی اس خواہش کے اظہار پر کرکٹ بورڈ کی سرزنشں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
اس سال ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے سب سے کامیاب بیٹسمین یونس خان ون ڈے ٹیم سے باہر کیے جانے پر خوب گرجے، نتیجہ یہ نکلا کہ وہ نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے ٹیم کا حصہ بنا دیے گئے، پاکستانی کرکٹ کے لیے یہ سال اس اعتبار سے بھی کٹھن رہا کہ پہلے سعید اجمل اور پھر محمد حفیظ اپنے مشکوک بولنگ ایکشن کے سبب بین الاقوامی کرکٹ میں بولنگ کرنے سے روک دیے گئے، سعید اجمل کا معاملہ خاصا پیچیدہ رہا اور آخر کار انھوں نے ورلڈ کپ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے وقار یونس کو ایک بار پھر کوچ کی ذمہ داری سونپ دی تاہم معین خان کو منیجر کا عہدہ چھوڑنا پڑا اور ان کی جگہ بیوروکریٹ نوید اکرم چیمہ کو منیجر بنادیا گیا، اسی طرح قومی کھیل میں بھی پاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سے آئی او سی کی منظور شدہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو تسلیم نہ کرنے کے نتیجے میں پاکستانی ٹیم کامن ویلتھ گیمز میں شرکت سے محروم رہی، پاکستان نے ایشین گیمز اور چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل کھیلے اور دونوں کے فائنل میں شکست کی وجہ سے اسے چاندی کے تمغے پر اکتفا کرنا پڑا۔
یہ بات بھی نظرانداز کرنے والی نہیں کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سے آئی او سی کی منظور شدہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو تسلیم نہ کرنے کے نتیجے میں پاکستانی ٹیم کامن ویلتھ گیمز میں شرکت سے محروم رہی اور اس سے بھی بڑھ کر افسوسناک بات یہ کہ پاکستان ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار عالمی مقابلے کے لیے کوالیفائی نہ کرسکا، سیاسی بینادوں پر ہاکی فیڈریشن کی باگ ڈورسنبھالنے والے عہدیداران چین کی بنسری بجاتے رہے لیکن کھلاڑی اور کوچ سارا سال مالی مشکلات کا رونا روتے رہے۔
اسنوکر میں محمد سجاد نے بنگلور میں کھیلی گئی ورلڈ امیچراسنوکر چیمپئن شپ کا فائنل کھیلا،انھوں نے گزشتہ سال محمد آصف کے ساتھ ورلڈ چیمپئن شپ بھی جیتی تھی لیکن محمد آصف کی طرح محمد سجاد بھی سرکاری پالیسی کے تحت ملنے والی انعامی رقم سے تاحال محروم ہیں، آصف نے 2012 میں اسنوکر کی عالمی چیمپئن شپ جیتی تھی۔
پاکستانی اسکواش قصہ پارینہ بن چکی ہے، کسی زمانے میں پاکستانی اسپورٹس کی شہ سرخی جہانگیرخان اور جان شیر خان کی جیت سے بنتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے، رواں برس پاکستانی کھلاڑی کسی بھی بین الاقوامی مقابلے میں کوئی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکا، یہاں تک کہ ایشین گیمز میں پاکستان کا کوئی بھی کھلاڑی سیمی فائنل میں بھی نہ پہنچ سکا، ٹیم ایونٹ میں پاکستان کو حیرت انگیز طور پر کویت نے ہرا دیا اور پاکستان ناک آؤٹ مرحلے تک بھی رسائی حاصل نہ کرسکا۔
دوسری جانب اولمپک ایسوسی ایشن کا قضیہ بھی اخبارات کی زینت بنتا رہا، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے معاملات میں سرکاری مداخلت اس سال بھی جاری رہی، لیکن انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کی جانب سے پاکستان کی اولمپک رکنیت معطل کرنے کا الٹی میٹم کام آ گیا اور پاکستانی حکومت کو لیفٹننٹ جنرل ( ریٹائرڈ ) عارف حسن کی سربراہی میں کام کرنے والی پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو ملک کا نمائندہ تسلیم کرنا پڑا۔
رواں برس سابق اسکواش پلیئر ہاشم خان اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے، انھوں نے سنہ 1951 میں برٹش اوپن جیتی تھی جسے اس زمانے میں اسکواش کی عالمی چیمپئن شپ کا درجہ حاصل تھا، ہاشم خان 100 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ 9 اولمپکس کے ہاکی مقابلوں میں کمنٹری کرنے والے ایس ایم نقی طویل علالت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے،ایس ایم نقی نے ہاکی کے علاوہ دیگر کھیلوں کی بھی کمنٹری کی لیکن انھیں ملک گیر شہرت ہاکی کمنٹری سے ملی۔