لندن (جیوڈیسک) 2014 میں افریقہ میں ایبولا کی سب سے بڑی وبا پھیلی جس میں ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں۔28 دسمبر 2013 میں ایبولا کے ہاتھوں ایک دو سالہ بچے کی ہلاکت کے بعد سے اب تک سات ہزار کے قریب افراد اس وائرس کا شکار بن چکے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایسی وبائیں دنیا بھر میں خوف و ہراس پھیلا دیتی ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ میڈیا انھیں سنسنی خیز اندازمیں پیش کرتا ہے لیکن ایبولا اس پہلے دنیا میں آنے والی وباو¿ں کے مقابلے پر کتنا خطرناک ہے؟ کہیں ہم ساری توجہ ایبولا پر مرکوز کر کے اس سے بڑے خطروں کو نظرانداز تو نہیں کر رہے؟ مختلف وائرسوں کے باعث ہونے والی اموات کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ ایبولا یقیناً خطرناک ترین انفیکشنوں میں سے ایک ہے۔
لندن کے سکول آف ہائجین کے چھوت چھات کی بیماریوں کے ماہر پروفیسر ڈیوڈ میبی کہتے ہیں: ’اس سے قبل افریقہ میں پھیلنے والی وباو¿ں کی شرحِ اموات عام طور پر 50 فیصد سے زیادہ ہوتی تھی۔ ماربرگ اور ریبیز کے سوا بہت کم وائرس ایسے ہوتے ہیں جن کی شرحِ اموات ایبولا کی طرح سو فیصد ہو لیکن لازمی نہیں ہے کہ اگر کوئی وائرس مہلک ہو تو بڑے پیمانے پر اموات کا باعث بھی بنے۔
اس مقصد کے لیے اس میں لوگوں کے اندر جلد سرایت کرنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔ اس وبا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایبولا دوسرے متعدی امراض کی مانند تیزی سے نہیں پھیل سکتا۔