اسلام آباد (جیوڈیسک) جامعہ حفصہ سے اپنی بچی کی بازیابی کے لیے والد نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ والد کا الزام ہے کہ مدرسے کی انتظامیہ نے اس کی بیٹی عظمیٰ قیوم کو حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے۔
جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بچی اپنی مرضی سے مدرسے میں ہے، واپس گھر نہیں جانا چاہتی۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے شیخ محمد قیوم نےسپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ ان کی بیٹی عظمیٰ قیوم ایک دن گھر سے اپنے مدرسے جامعہ بنت عائشہ گئی مگر گھر واپس نہ آئی۔
اس پر انہوں نے متعلقہ مدرسے سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ عظمیٰ قیوم واپس جا چکی ہے،بعد میں معلوم ہوا اسے ام حسان اپنے مدرسے جامعہ حفصہ میں لے گئی ہیں،میں نے کئی مدرسوں سے رابطہ کیا مگر میری بیٹی کا پتہ نہیں چلا،پھر کسی نے ہمیں بتایا کہ وہ جامعہ حفصہ میں ہے،جب ہم جامعہ حفصہ گئے تو وہاں ام حسان نے میری بیوی اور دو خواتین کی موجودگی میں میری بیٹی سے ملاقات کرائی۔
جو ہمیں دیکھ کر چیخنے لگی، مگر ام حسان نے بچی کو ہمارے ساتھ نہیں آنے دیا۔ عظمیٰ قیوم کے والد نے جیو نیوز کو بتایا کہ میرے بھتیجے ولید کو جامعہ حفصہ کے پرائیویٹ گارڈز نے بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔
ام حسان نے میری بیٹی کو حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے، میں نے ہر دروازہ کھٹکھٹایا،مولانا تقی عثمانی سمیت تمام علماء سے بات کی مگر سب کہتے ہیں کہ یہ کسی کی نہیں مانتے، ہم ان سے بات نہیں کرسکتے۔ عظمیٰ قیوم کے والد نے اپنی درخواست میں چیف جسٹس آف پاکستان سے استدعا کی ہے کہ وہ معاملے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ان کی بیٹی کو جامعہ حفصہ کی انتظامیہ سے بازیاب کرایا جائے۔
اس حوالے سے جب جامعہ حفصہ کی پرنسپل ام حسان سے رابطہ کیا گیا تو مدرسہ انتظامیہ کی طرف سے جواب دیا گیا ہے کہ عظمیٰ قیوم اپنی مرضی سے جامعہ حفصہ میں تعلیم حاصل کر رہی ہے، بچی پر حق والدین کا ہے یا مدرسے کا؟ فیصلہ اب سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔