تحریر: بابر نایاب، منچن آباد نئی منتخب حکومت جس کے بلند و بانگ دعوئوں پر ظلم کی چکی میں پسی عوام نے پھر اعتبار کر کے اپنی سسکیاں لیتی اُمیدوں اور دم توڑتی آرزئوں کا گلا گھونٹا اور اب خود ہی اپنی لاش کا جنازہ اُٹھا کر ماتم کناں ہے اور بد قسمتی سے یہ ہولناک مایوسی سے بھری چیخیں کوئی سننے والا نہیں کہتے ہیں کہ اگر بیوقوف نہ ہوتے تو عقلمند کہاں سے کھاتے مگر اب تو بڑے سے بڑے عقلمندوں کو بے روزگاری نے ناکوں چنے چبوا دیا ہے پڑھ لکھ کر اپنے ماں باپ کی اُمیدوں کو تکمیل کی سرحدوں تک پہنچانے کا عزم لیے نوجوان اپنے گھر کا سہارا بننے کا خواب لیے نوجوان اب جگہ جگہ زلت اور بے بسی کے گھونسے کھا رہا ہے کیونکہ جب روزگار ہی نہ ہو گا تو پھر کیا ہو گا کیا پھر ملک کا نظام چل سکے گا کیا ملک میں امن ہو سکے گا یقینا یہ ایک منفی سوال ہے۔
روز ہی اخبارات میںاور نیوز چینل میں حکمرانوں کے وعدوں کے حسین خواب دیکھنے کو ملتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ یہ وہ خواب ہیں جن کی تعبیر کم از کم اس دنیا میں پاکستانی عوام کو ملنا ممکن نظر نہیں آتی وزیراعظم نواز شریف کی یوتھ سکیم انتہائی مایوس کن خواب ہے جسکی تعبیر نوجوانوں کو بھیک پر لگانے کی تھی بے روزگار نوجوان سر پربھاری قرضے کا سود سمیت بوجھ اُٹھاکر کاروبار کرے گا واہ کیا منطق ہے بے روزگاری پر قابو پانے کی کبھی ییلو پیلو سکیم چلا کر ٹیکسی ڈرائیور بنایا جاتا ہے اب رہی سہی کسر قرضے کے بوجھ تلے دب جائی گئی یعنی غربت ختم نہیں غریب کو ختم کرنے کی پالیسی ہے اور یہ پالیسی کا تب پتا چلے گا جب قرضہ سود سمیت لوٹانے کے لیے نوجوان رہی سہی جُھگی بھی پھُونک دے گا ۔اسلام میں دینے والے ہاتھ کو مانگے والے ہاتھ سے بہتر قرار دیا ہے چنانچہ وہی پالیسی ہی کامیاب ہو سکتی ہے جس میں انسان اپنی قابلیت اپنی تعلیم یا اپنے ہنر کے بل بوتے پر اپنا روزگار شروع کرسکے۔
بے روزگاری کے طوفان سے نبر دآزما ہونے کے لیے کوئی لائحہ عمل ہی نہیں بنایا گیا اور پنجاب کے خادم اعلی شہباز شریف جو پڑھے لکھے پنجاب کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں نوجوانوں میں لیپ ٹاپ دے کر سب نوجوانوں کے دل کو جیتنا چاہتے ہیں مگر کیا وہ اس بات کا جواب دیں گئے کہ صرف تعلیم کا پرچار بلند کر کے وہ کیا ثابت کر نا چاہتے ہیں کیا اُنھیں اس بات کا ادراک نہیں کہ بڑی بڑی ڈگریاں لے کر نوجوان بے کار پھر رہے ہیں کیا ان کے لیے لیپ ٹاپ کے علاوہ کوئی اور سکیم نہیں جس پر اربوں روپے فضول میں خرچ کر دئے گئے اگر لیپ ٹاپ کی بجایئے کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اتنے پیسے نئی ملازمتوں پر خرچ کر دیتے تاکہ کچھ تو ٹھاٹھیں مارتے ہوئے بے روزگاری کے طوفان میں کچھ کمی واقع ہوتی مگر شاید وہ خود ایسا کرنا نہیں چاہتے آرٹس ایجوکیٹر کی بھرتی کے نعرے کب سے پنجاب حکومت لگا رہی ہے مگر اب جب آرٹس ایجوکیٹر کی بھرتی کا عمل شروع ہوا جا تا ہے اُس میں سترفیصد سائنس اساتذہ اور صرف تیس فیصد کے لگ بھگ آرٹس ایجوکیٹر بھرتی کیے جا رہے ہیں جدید وقت کے تقاضوں اور دنیا میں ٹیکنالوجی کے میدان میں مقابلہ کرنے کے لیے سائنس کی تعلیم بے حد ضرور ی ہے مگر سائنس کو ہی کامیابی کا زینہ سمجھتے ہوئے آرٹس سبجیکٹ اور آرٹس اساتذہ کو ختم کرنے کا مطلب پاکستان کی ثقافت روایات تاریخ اور دینی علوم کوختم کرنے کے متراداف ہے کیونکہ اسلامیات ،اُردو ،مطالعہ پاکستان ،عربی ،فارسی میں رکھا ہی کیا ہے ظاہر ہے جب یہ سبجیکٹ پڑھانے والے ہی نہیں ہوں گے تو جو نئی پود نکلے گئی وہ سیکولر کے نظریات پر مشتمل ہو گئی۔
وزیر اعلی شہباز شریف ایک اچھے منتظم سمجھے جاتے ہیں مگر افسوس تو اس بات کاہے کہ انھوں نے بے روزگاری کو چلو ختم نہ سہی مگر کم کرنے کے لیے ابھی تک کیا کردار ادا کیا ہے اگر بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے اگر انھوں نے کو ئی سنجیدہ اقدام کیا ہوتا تو وہ آج نظر آ رہا ہوتا جسطرح ڈینگی کو ختم کرنے میں محترم وزیر اعلی چستی اور پھرتی دکھاتے پھرتے ہوتے ہیں بے روزگاری کو ختم کرنے میں اُن کی چستی اور پھرتی دونوں ہی سوئی ہوئی ہیںاور خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہیں مجھے تو اس بات پر حکمرانو ں کے رویے پر حیرت ہے وہ بے روزگاری کو کوئی بڑا مسئلہ سمجھتے ہی نہیں وہ سمجھے گئے بھی کیسے کیونکہ جن کے پیٹ بھرے ہوتے ہیںاُن کو بھوکے پیٹوں کا احساس ہی کب ہوتا ہے دنیا میں غربت اور مُفلسی سے بڑھ کر کوئی بیماری نہیں ۔پیٹ جب بھرا ہوتا ہے تو دنیا بڑی حسین لگتی ہے مگر جب یہ خالی ہوتا ہے تو آنکھوں کی رونق معدوم ہو جاتی ہے زندگی ایک پل میں مُرجھا جاتی ہے وقت سانپ بن کر ڈستا ہے دنیا کی رنگینی زہر کی طرح لگتی ہے قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں اور انسان کا ایمان بھی ڈگمگا جاتا ہے ۔ماں باپ یہی سوچ کر اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی اُولاد کو پڑھاتے ہیں کہ ایک دن وہ اپنے ماں باپ کو سُکھ دیں گئے مگر شاید سُکھ تو نصیب والوں کا ساتھی بن گیا ہے کیونکہ دُکھ تو بے روزگاروں کا ساتھی ہے اور یہی دُکھ نا چاہتے ہوئے بھی بے روازگار اپنے والدین کو دیتا ہے۔
Unemployed
انسان کو اُمید کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے مگر ہمار ے نوجوان کی برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے مُجھے ڈر ہے کہیں وہ دن نہ ا جا ئے کہ یہی بے روزگار نوجوان ایک لاوا بن جائے اور جب یہ لاوا پھٹے گا تو کچھ بھی نہیں بچے گا اس لیے اے حکومت کرنے والوں خدا سے ڈرو ااور اس مُلک کے بے روزگار نوجوانوں کا کچھ سوچوں میں کہتا ہوں آدھے جرم ختم ہو جائئں گئے جب نوجوان بے روزگار ہونا بند ہو جائیں گئے ہمارے نوجوان برے نہیں انھیں حالات نے بددل اور دلبرداشتہ کر دیا ہے ۔ہمارے پڑھے لکھے نوجوان ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں مگر ہم اس اثاثے کی قدر اسے جگہ جگہ پامال کر کے دے رہے ہیں اگر یہ حکومت کرنے والوں کی آج ہی نیت ٹھیک ہو جائے تو ان کے لیے بے روزگاری پر قابو پانا کچھ مُشکل نہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سال 2012سے سال2013 تک صرف ایک سال میں پانچ ہزار سے چھ ہزار لوگوں نے بے روزگاری سے تنگ آ کر خودکشی کی ہے جوکہ ایک شرمناک حقیقت ہے عوام پہلے ہی بم دھماکوں کمر توڑ مہنگائی سے مر رہی ہے اب بے روزگاری مرے ہوئے لوگوں کو مزید مار رہی ہے ہر مسئلے کا کوئی نا کوئی حل ضرور ہوتا ہے مگر حل ڈھونڈنا بھی قابل لوگوں کا کام ہوتا ہے یا تو موجودہ حکومت اس قابل نہیں کہ وہ بے روزگاری کا کوئی حل ڈھونڈ سکے یا وہ سُستی اور نااہلی کا مظاہرہ کر رہی ہے ہمارے قابل پڑھے لکھے لوگ اب پاکستان میں رہنا بھی نہیں چاہ رہے ہر دوسرا بے روزگار پاکستان سے باہر جا کر روزگار حا صل کرنے کا خواں ہے اور اسی طرح یہی حالت رہی تو پھر یہاں پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے ہمارے بازو ہی ہم سے جدا ہو گئے تو ترقی کی بجائے مزید زوال ہو گا اور اﷲ نہ کرے وہ زوا ل ہمارا مقدر بنے ہم تو سر اُٹھا کر اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا اور جینا چاہتے ہیں مگر جب کچھ کرنے کے لیے ہمارے بے روزگار قابل نوجوانوں کو موقعہ ہی نا دیا جائے تو پھر وہ خود حالات سے مجبور ہو کہ یا تو باہر کے ملکوں میں اپنی خدمات دے کر روزگار حاصل کرتا پھر رہا ہے یا وہ جرم کے رستوں کو چُن رہا ہے، اور اس میں سب قصور صرف اور صرف حکمرانوں کا ہے اور وہ کبھی بھی روز قیامت اپنا گریبان نہیں بچا سکیںگئے اگر نیت اچھی ہو اور مسائل چاہے کتنے بھی کیوں نہ ہوں وہ حل ہو ہی جاتے ہیں مگر جب بد نیتی ہو صرف حکمرانی کا شوق ہو تو پھر مسائل کبھی بھی حل نہیں ہو پاتے لحاظہ ہماری حکومت کو جس کو عوام نے اتنے بھاری مینڈیٹ سے مُنتخب کیا ہے وقت اور حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے فوری طور پر اپنے ایجنڈے میں بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے فوری اور بھرپور اقدامات کرے اور ہمارے بے روزگار نوجوانوں کے زخموں پر روزگار کا مرہم لگائے تاکہ وہ کہیں اپنااصل راستہ بھٹک کر برائی اور جرم کے راستوں کا مسافر نہ بن جائے۔
آخر میں اپنے ہم عمر نوجوانوں کو یہی مشورہ دوں گا کہ تعلیم اور علم کبھی رائیگا ٰں نہیں جاتے جہالت کی ذلت سے با علم ہونا اﷲکی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کو کچل کر بُرے رستوں کا ا نتخاب کبھی نہیں کرنا چاہیے جس خدا نے پیدا کیا ہے اُس خدا نے ہر ایک کا رزق بھی لکھ دیا ہے اور خدا کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہو نا چاہیے اقبال نے نوجوان کو ایسے ہی تو شاھین نہیں کہ دیا اور شاھین کی پرواز بلند ہوتی ہے اس لے ہمارے وطن کے پڑھے لکھے اچھے نوجوانوں کو خاطر جمع رکھنی چاہیے اور نیک شگون اُمید پر اپنی محنت کو برقرار رکھنا چاہیے کیونکہ ہر ایک تاریک رات کے بعد صبح کاخوبصورت اُجالا ضرور آپکا منتظر ہوتا ہے۔
Babar Nayab
تحریر: بابر نایاب، منچن آباد email:babarsaleem23@hotmail.com Cell No :0300-7584427