تحریر: روہیل اکبر گذشتہ برسوں کی طرح 2014ء بھی بلا آخر ا ختتام پذیر ہوگیااور ہم ہر نئے سال کو نئی تبدیلیوں کے ہمراہ نہ صرف قبول کرلیتے ہیں بلکہ سوچتے ہیں کہ پچھلے سال جو ہم نے دکھ تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھائی ہیں ان کو اس نئے سال میں اپنے قریب بھی پھٹکنے نہ دیں 2014ء ہمیں اس حوالے سے بھی ہمیشہ یاد رہے گا کہ اس سال کے آخری ماہ میں پشاور کے آرمی سکول کے حادثہ میں ہمارے بچوں کے ساتھ جو ظلم کیا گیااس نے ہمارے سینے چھلنی کردیے اس کے بعد کراچی اور لاہور میں ہونے والی آتشزدگی کے نتیجہ میں جو ہلاکتیں ہوئی وہ بھی ہمیں نہیں بھولیں گی
ان سب ناقابل فراموش واقعات کے باوجود ہم آج تک یہ بھی نہیں بھول سکے کہ 11 مئی 2013 کو ملک میں عام انتخابات سے قبل ہمارے آج کے حکمرانوں نے جو ہم سے و عدے کیے تھے انکو آج تک کیوں نہیں کیا گیااگر حکمران اپنے ان وعدوں میں سے صرف دہشت گردی ،مہنگائی ،کرپشن کو ختم کرنے اور بلدیاتی الیکشن کروانے کے وعدے پورے کردیتے تو ہوسکتا تھا کہ ہم آج ان تمام جان لیو احادثات سے بچ جاتے کیونکہ دہشت گردی نے ہمارے ملک کی بنیادوں کو ہلا کررکھ دیا ہے کوئی غیر ملکی سرمایہ دار پاکستان نہیں آتا جو آچکا ہے وہ ان دہشت گردوں کے ہاتھوں تنگ آکر واپس جا نے کے منصوبے بنا رہا ہے دہشت گردوں نے نہ صرف ہماری فوجی جوانوں کے گلے کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلا ہے بلکہ ہمارے کل کی امید معصوم بچوں کو سکول میں گھس کر جس بے دردری سے شہید کیا گیا ہے
اسے ہم کیسے بھلا سکتے ہیں اگر حکمران حلف اٹھانے کے بعد فوری طور پر ملک میں موجود دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کردیتے تو آج ہمارے ملک سے دہشت گردی کا مسئلہ ختم ہوچکا ہوتا مگر ہماری سیاسی قیادت اور طالبان کے حامیوں نے انہیں مذاکرات کی آڑ میں خود کو مضبوط کرنے کا موقعہ فراہم کردیا جسکے بعد ایک طرف مذاکرات کا ڈھونگ رچایا جاتا رہا تو دوسری طرف دہشت گرد نہ صرف اپنے آپ کو مضبوط کرتے رہے بلکہ ملک میں اپنی مذموم کاروائیاں بھی دھڑلے سے جاری رکھے ہوئے تھے اور انکے حامی اس وقت بھی انکے ساتھ تھے اور آج بھی انکے ساتھ ہیں موجودہ حکمران اپنے اس وعدے کی تکمیل میں بری طرح ناکام رہے
Pakistan
عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ان خونخوار درندوں کے آگے پھینک دیا جنہوں نے نہ بچے دیکھے نہ بزرگ اور نہ ہی خواتین کا احترام کیا سب کو خون میں نہلاتے رہے آج تک جتنے بھی پاکستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے ان سب کے خون کا حساب حکمرانوں کے سر ہوگا کہ جنہوں نے دہشت گردی کو ختم کرنے کا وعدہ کرکے اس لعنت کو ختم نہ کیا حکمران اپنا دوسرا وعدہ مہنگائی اور کرپشن کو کنٹرول کرکے پورا کردیتے تو آج ملک کے کونے کونے میں جو وارداتیں ہورہی ہیں اور اس کے نتیجہ میں قتل وغارت کا جو بازار گرم ہوچکا ہے یہ بھی نہ ہوتا آج رات کے وقت کسی بھی سنسان گلی یا سڑک سے گذرنا محال ہوچکا ہے بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم چوروں کے ملک میں رہ رہے ہیں
جہاں کوئی بھی چیز درست نہیں ہے ایک انسان کے مستقبل سے لیکر اسکی زندگی تک کچھ بھی محفوظ نہیں کسی بھی وقت کوئی بھی حالات کا ستایا ہوا آپ سے آپکا سب کچھ چھین سکتا ہے اسکی سب سے بڑی وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی بے روزگاری اور کرپشن ہے جس نے نوجوان نسل کو اس راہ پر لگا دیا ہے اوپر سے ہمارے تھانے اور تھانیداری نظام نے ان برائیوں کو ختم کرنے کی بجائے ایسے افراد کی پرورش کرنا شروع کررکھی ہے جو لوٹ مار کرنے کا ماہر ہواور اعلی قسم کا فراڈیا ہوہمارے دیہات جو کبھی سب سے زیادہ محفوظ ہوا کرتے تھے جہاں کسان اپنے جانور اپنے ڈیروں میں باندھ کر خود گھر سکون سے سوتے تھے آج وہاں پر بھی ڈاکوؤں کا راج ہے لوگ سر شام ہی اپنے گھروں میں قید ہوجاتے ہیں
مغرب کی نماز کے بعد نہ کوئی شہر سے گاؤں آتا ہے نہ ہی گاؤں والے کسی کو باہر جانے دیتے ہیں اب تو ڈاکو بھی پولیس کی وردی پہنے ناکہ لگائے کھڑے ہوتے ہیں اور پھر ہر گذرنے والے کو جی بھر کرلوٹتے ہیں لٹنے والا بعد میں اس خوف سے پولیس اسٹیشن نہیں جاتا کہ جو کپڑے بچ گئے ہیں وہ کہیں تھانے میں پولیس والے نہ اتروا لیں حکومت مہنگائی اور کرپشن کو بھی کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہی جسکی وجہ سے نوجوان نسل بہک گئی اور اپنے ہی ملک کی دشمن بن گئی ہماری پولیس اور سیاستدان چوروں اور ڈاکوؤں کے سرپرست بن گئے ۔الیکشن سے قبل حکومت نے ملک میں بلدیاتی الیکشن کروانے کا بھی وعدہ کیا تھا جسکا اب وہ ذکر کرنا بھی گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں
اگر ملک میں بلدیاتی ادارے اپنا کام کررہے ہوتے تو چھوٹے چھوٹے عوام مسائل مقامی سطح پر ہی حل ہوجاتے ہر واردات کی ذمہ دار متعلقہ پولیس ہوتی ہر کرپشن کا ذمہ دار متعلقہ ناظم یا چیئرمین ہوتا اور ہر ٹوٹی سڑک ،گلی اور نالی کی ذمہ داری متعلقہ کونسلر کی ہوتی عوام اور بلدیاتی ادارے آمنے سامنے ہوتے تو آج ملک کے آدھے مسائل ختم ہوچکے ہوتے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا کام عوام کے مسائل کو ختم کرنا نہیں بلکہ ان میں مزید اضافہ کرنا ہے تاکہ ہر کسی کو اپنی ہی پڑی رہے سیاستدانوں کی لوٹ مار اور خاندانی سیاست کی طرف کسی کی توجہ نہ جائے۔
ہر نئے سال کی طرح ہم بھی اسی امید ،آس خوش دلی سے نئے سال کو خوش آمدید کہتے ہوئے اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ 2015ء ہمارے پاکستان کے لیے خوشحالی ،امن، سکون اور ترقی کا سال ثابت ہو جس میں غریب کو بھی وہ سہولیات میسر ہوں جو ایک امیر کو حاصل ہیں ہمارے ہسپتالوں ،کچہریوں ،تھانوں اور سرکاری ادارورں میں عوام کو وہ مقام مل جائے جو ہمارے حکمرانوں کو حاصل ہے کوئی ایک وقت کی روٹی کے لیے چوری نہ کرے اور نہ ہی کسی کا بھائی ،بہن اور والدین دواء کے بغیر لقمہ اجل بن جائیں ہر بنیادی سہولت ہر شہری کی دہلیز پر میسر ہو جائے۔