تحریر: ایس۔ یو ۔سمیع انگریز سرکار نے ریاست جموں و کشمیر کو تو ڈوگرہ راجہ کے ہاتھوں 75 لاکھ کا بیچ دیا مگر کشمیری آج بھی زندہ ہے اور اپنی مظلومیت کا ثبوت بھی بارہا دے چکا۔ ریاست کے موجودہ الیکشن میں بی جے پی نے دولت بھی لٹائی اور سنہرے خوابوں کا ابنار بھی لگایا لیکن شاید کشمیری گجرات کے فسادات نہیں بھول پائے۔بھارتی جنتا پارٹی کے پیچھے کار فرما سخت گیر آرایس ایس اور گجرات کے فسادات ایسی تصاویر ہیں جو اقلیتوں کے دلوں پر ضرب لگاکر انہیں جگاتی رہتی ہیں۔وادی اور لداح میں بی جے پی کوئی نشست حاصل نہیں کرپائی جب کہ اس کا منصوبہ سادہ اکثریت حاصل کر کے مسلم پرسنل لاء 370 کو تبدیل کر کے مسلم اکثریت پر کاری ضرب لگانے کا تھا’جسے ریاست کے غیور عوام نے ناکام بنا دیا۔
مفتی سعید اور انکی لخت جگر محبوبہ مفتی کی جماعت نے بی جے پی مخالف ووٹ کو کیش کروایا اور ریاست میں 28نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔12نشستوں پر کانگریس نے قبضہ جمایا۔باقی عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس ‘پیپلز کانفرنس اور آزاد اُمیدوار لے اُڑے۔
ریاست میں اسوقت اضطراب پایاجاتاہے اور ہرجماعت آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کرنے کا دعوی بھی کررہی ہے ۔ آج یکم جنوری کو بھاجپااور پی ڈی پی کے اتحاد کی خبریں سن کر سرینگر کے لوگوں نے اپنااحتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔وہ مفتی سعید ہوش میں آئو اور بی جے پی کو مسلم دشمن قرار دیتے رہے۔جبکہ دوسری جانب پی ڈی پی کے کامیاب امیدواران کی کچھ تعداد کا یہ کہنا ہے کہ اگر جماعت حزب اختلاف میں رہی تو پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اسکے ساتھ ساتھ انکا یہ بھی موقف ہے کہ اگر پارٹی نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا تو پھر بی جے پی مرکز سے فنڈ میں روڑے اٹکائے گی جس سے ریاست کے لوگ متاثر ہونگے اور سیلاب زدگان تنہارہ جائیں گے۔
پیپلز کانفرنس کے سجا د غنی لون نے بھی پی ڈی پی اور بی جے پی کو اتحاد کی صورت میں تعاون کا یقین دلایاہے۔اور اسے ریاست کیلئے فائدہ مند قراردیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ حزب اختلاف میں بھی خوشی سے بیٹھیں گے۔آج بروزمنگل بی جے پی کے ریاستی صدر جگل کشور شرما اورپارٹی کے جنرل سیکرٹری رام مادھونے ریاستی گورنر این این ووہرا سے ملاقات کے بعد کہا کہ کل یکم جنوری کو گورنر سے ملاقات کے بعد حکومت سازی کیلئے اہم اعلان ہو گا۔ ان کے عزائم کانگریس کی گرینڈ الائنس کی خوہش کو خاک میںملانے کے ہیں۔
Kashmir
آج پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی کی بھی گورنر سے ملاقات ہونا ہے۔اسوقت اصل گیم پی ڈی پی کے ہاتھ میں ہے جو بی جے پی مخالف ووٹ لے کر اقتدار میں آئی ہے۔لیکن اقتدار ایک ایسا دسترخوان ہے کہ جس کے سجنے کے بعد اپنے پرائے کی تمیز کم ہی لوگوں کو رہ جاتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی پی اگر بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرتی ہے تو کن شرائط پر ؟370دفعہ کی حفاظت اور اپنے سیکولر امیج کو قائم رکھتے ہوئے بی جے پی کے ساتھ اتحاد دودھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے۔
یہ تو مان لیا کہ 44کا ہندسہ نہ ملنے کی وجہ سے بی جے پی پورے ٹینور میں وزیراعلی کا خواب نہیں دیکھ سکتی لیکن اگر بی جے پی یہ شرط جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ نصف مدت کیلئے اسکا وزیر اعلی ہوگاتو یہ پی ڈی پی کے مستقبل اور ریاست کی اقلیتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے اور ہمارے خیال میں یہ بی جے پی کی سیاسی جیت اور پی ڈی پی کی ملی غیرت کی موت ہوگی اور اُمید بھی یہی ہے کہ شرائط کچھ بھی ہوں پی ڈی پی اور بی جے پی کااتحاد ہی ہوگا(واللہ عالم)۔رہے ریاست کے عوام تو عوام بے چاری تو بس کبھی سیاسی نعرے کی غلامی کرتی ہے کبھی مذہبی نعرے کی ‘اسکے مقدرمیں خوشحالی کم ہی آئی ہے۔الیکشن کا ضابطہ اخلاق ختم ہونے کے باوجود اسوقت انتظامیہ تقریبا جام ہے۔ سیلاب زدگان بے آسراہیں۔
کل جماعتی حریت کانفرنس نے الیکشن کا مکمل بائیکاٹ کیا۔بی جے پی مرکز میں حکومت ہونے کے باوجود ریاست جمو ں وکشمیر کی راجیاسبھامیںمحض پچیس نشستیں جیت سکی۔یہ باتیں اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ کشمیر کا حل استصواب رائے ہے۔ریاست کی اکثریت اس نعرے کو رد کرچکی جو کہ بی جے پی نے الیکشن میں لگایا تھا کہ وہ ریاست کے آئین کی دفعہ 370کو ختم کرکے کشمیر کو اٹوٹ انگ بنالے گی۔اس پر بی جے پی کو بھی سوچناچاہیئے کہ وہ کثیر مذہبی ‘لسانی وکثیر قومی ملک کی جماعت ہوتے ہوئے کسی ایک پلڑے میں وزن ڈالناچھوڑ دے اوراپنے ملک کی بہتری کیلئے سب کو ساتھ لے کرچلے۔ حق دار کو اسکاحق دے وگرنہ تاریخ گواہ ہے جہاںظلم ہو اس ملک کی سرحدیں ٹوٹ جایاکرتی ہیں۔