دی دی اور 2015

Ambulance

Ambulance

تحریر: وسیم رضا
ایمبولینس بن بلائے خاموشی سے گھر میں داخل ہوئی اور دیدی کو زبردستی اٹھا کر ہسپتال لے گئی، اور پھر خبر آ ئی کہ دیدی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد دنیا سے سدھار گئی ہے،دیدی کا تعلق انڈیا سے تھا اور اس کا مذہب بھی ہمارے دین کی ضد تھا پھر بھی میں اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ افسوس کرنے اس کے گھر چلا گیا ، بنیادی تعلیم اور اطالوی ثقافت سے کوسوں دور عمر رسیدہ دیدی کا ایم اے پاس شوہر شیام لال حسرت اور بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا، ایک غیر مسلم سے اس کے گھر جا کر اسکے فوت ہو جانے والے کسی عزیز کا افسوس کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، اس کا احساس ہمیں اس دن شدت سے ہوا۔

َِّ یہ کوئی ،ڈاکٹروں کا بہت بڑا مافیا ہے، ان کو جسم کے کسی صحت مند حصے کی ضرورت تھی ، جس کی خاطر انھوں نے میری بیوی کی جان لے لی ‘ شیام لال غصے اورشدت غم سے نڈھال ہو رہا تھا’ میری بات یاد رکھنا ، یہ غیر ملکیوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں، اب کام شروع ہو گیا ہے، آج میری باری آئی ہے کل کسی اور کی آئے گی ، میں نے تو ان کیخلاف کیس بھی کر دیا ہے ‘ ہم نے شیام بھائی کو حوصلہ دینا چاہا لیکن وہ بولتا رہا ، ‘ میری بیوی بالکل ٹھیک تھی، صرف معمولی بخار تھا، میں نے انہی دنوں چیک بھی کروایا تھا ، میرے پاس رپورٹ بھی موجود ہے، معمولی بخار کے علاوہ اسے کبھی کوئی بیماری نہیںلگی’ ‘ آپ ٹھیک کہتے ہیں ، یہ ہم غیر ملکیوں پر تجربے کرتے ہیں ، پوسٹ مارٹم کے وقت جسم کے کچھ حصے بھی نکال لیتے ہیں۔ سب سے پہلے کڈنی کو ہاتھ ڈالتے ہیں’ ابھی شیام لال کی بات جاری تھی کہ کسی نے ٹوک کر اپنا مشاہدہ بیان کرنا شروع کر دیا۔

میں پوچھتا ہوں ایمبولینس کو کس نے بلایا ، ہماری تو کوئی اپائنٹمنٹ بھی نہیں تھی، میری بیوی بیوی نے بلاوجہ ایمبولینس میں سوار ہونے سے انکار کیا تو انھوں نے پولیس کو بلا لیا، اس نے پریشان ہوکر مجھے فون کیا ، میں شاپ بند کر کے بھاگم بھاگ گھر پہنچا تو اسوقت وہ اسے زبردستی ساتھ لے جا چکے تھے، میری بیوی سیدھی سادی تھی ، اسے تو اٹالین زبان بھی نہیں آتی تھی’ آج ایک مہینہ ہونے کو آیا ہے لیکن وہ مجھے ڈیڈ باڈی نہیں دے رہے، میں بس یہ چاہتا ہوں کہ مجھے ڈیڈ باڈی دے دیں تاکہ میں اسے لیکر انڈیا چلا جاؤں، دیدی کی آتما تڑپ رہی ہے، اسے اپنی جگہ پہنچنے سے پہلے شانتی نہیں ملے گی۔

Italy

Italy

دیدی کو میں پچھلے دس سالوں سے جانتا تھا ، گرمی ہو یا سردی وہ ہمیشہ ساڑھی پہنتی تھی، انتہائی نیک عورت تھی، اسے پیچھے رہ جانے والے اپنے بچے بہت عزیز تھے ، کبھی کبھی میرے ساتھ ان کی ڈھیروں باتیں کرتی، اپنے لباس کی وجہ سے اپنا پرایا ہر کوئی شہر میں اسے پہنچاتا تھا، جبکہ پڑھا لکھا اور سلجھا ہو اشیام لال ہمیشہ ڈبل پریس پینٹ کوٹ پہنتا تھا ، پینٹ کوٹ اور ساڑھی کے کمبی نیشن کے ساتھ وہ آتے جاتے بہت بھلے د کھتے، ا ٹلی میں راجھستان کا یہ نمائندہ جوڑا بڑا مثالی سمجھا جاتا تھا، آئندہ مارچ میں تو ان دونوں نے اٹلی کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کیہ کر انڈیا واپس جانے کا پروگرام بھی بنا رکھا تھا۔

اب سے چند گھنٹوں بعد سن دو ہزار پندرہ کا نیاباب کھلنے جا رہا ہے ، کیا دیدی کے شوہر کو ا نصاف مل پائے گا ؟ کیا نئے سال میں معاشی گرداب میں پھنسے ا ٹلی اور یہاںمقیم تارکین وطن پاکستانی اپنی ادھوری خواہشات کے ماتھوں پر کامیابیوں کے جھومر سجا پائیں گے ،؟ا ٹالین کمیونٹی کے بعض فیس بکی اور ا خباری لیڈر اپنے پریشان حال بھائیوں کی انفرادی سطع پر حقیقی مدد کرنے کیلئے میدان میں اترنا پسند کریں گے؟ ا ٹلی کے مسلم لیگی لیڈر بریشیا کے مسلم لیگی کنونشن میں وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے کئے گئے وعدوں پر عمل درآمد کروا پائیں گے؟ اعجاز احمد کاغذ پر شائع ہونے والے اردو کے واحد اخبار ‘ آزاد’ جس نے کمیونٹی کوآپس میں جوڑ رکھا تھا ،کو جاری کرنے میں مزید لعت و لعیل سے کام نہیں لیں گے؟ محمود اصغر جن کی ایک ایک تحریری پوسٹ پر سات سات ہزار قاری وزٹ کرتے ہیں ، عزت اور شہرت سمیت ان کے پاس کسی بھی شے کی کمی نہیں وہ اپنے نام کے ساتھ چوہدری ہٹا کر برادری ازم اوذات پات کی حوصلہ شکنی کریں گے؟۔

دو ہزار پندرہ شروع ہونے میں نصف گھنٹہ باقی ہے دیدی کے چھوٹے سے گھر کے کچن کی لائٹ کئی دنوں سے مسلسل بند ہے، میرا سب سے پیارا دوست رانا محمد ر فیق ایک موزی مرض میں مبتلا ہو کر اسی ہسپتال کی تیسری منزل کے سلوٹوں بھرے ایک بستر پر پڑا ہے ، جہاں کچھ روز قبل ہسپتال والے دیدی کو اس کی مرضی کے بغیر اٹھا کر لے گئے تھے، میرے پاس مسکراتے ہوئے بازو پھیلاکر دو ہزار پندرہ کو خوش آمدید کہنے کی کوئی بھی وجہ نہیں ، پھر بھی ایک ہلکی سی امید ضرور زندہ ہے، اور میں امید کرتا ہوں کہ دو ہزار پندرہ میرے لئے لکی ثابت ہو گا۔

Wasim Raza

Wasim Raza

تحریر: وسیم رضا