تحریر : سحرش فاطمہ لکھاری کا ادب سے ایک رشتہ جڑ جانے کے بعد اسے اس کا پاس رکھنا بہت ضروری ہے وہ جو لکھتا ہے اس کے پڑھنے والوں پر اس کا اثر چاہے برا ہو یا اچھا پڑتا ہے وہ جس بھی موضوع پہ لکھے اخلاق کے دائرے میں رہ کے لکھے تو ہی اسے ادب میں شمار کرنا چاہیئے نہیں تو وہ رشتوں کا تقدس اور لوگوں کی عزت کو پامال کرے یہ ادب میں نہیں ہوتا…آج سے پچاس سال سے بھی اوپر جائیں تو ادب کے بہت جانے مانے نام جنھوں نے جب بھی لکھا آزادانہ رویہ لے کر بھی تلخ سچاء سامنے رکھی اور لفظوں کا اچھے سے سلیقے سے استعمال کیا کہ کہیں بھی کسی کی عزت کو مجروح نہیں کیا گیا اور آج کل کے لکھاریوں کا بس چلے تو یا تو فحاش لکھیں گے یا نازیبا الفاظوں کا استعمال کھلم کھلا کریں گے جن میں کس کی عزت جاتی ہے صرف اور صرف عورت کی… اس سے زیادہ شرم ناک بات اور کیا ہوگی کہ وہ پڑھی بھی جاتی ہوں اور چھپی بھی۔
یعنی کسی کو اس بات کو ہوش نہیں شرم نہیں کہ ماں بہن کے لئے جو نازیبا الفاظ لکھے گئے ہیں وہ یہی ماں بہنیں ہی تو پڑھیں گی؟پھر اگر یہی لکھاری ان عظیم نامور لکھایوں کی مثال دیں تو یہ انصاف تو نہ ہوا کہ جی وہ لوگ بھی آذاد لکھتے تھے … بات آذاد یا دائرے میں رہ کر لکھنے کی نہیں بات ہے لکھنے کی… سوچ سمجھ کر لکھنا پڑتا ہے کہ آپ کا لکھا یوا کس نے پڑھنا ہے ؟ جب ایک لکھاری نازیبا الفاظ جنھیں عرف العام میں گالیاں کہا جاتا ہے وہ اپنے لکھنے میں شامل کرے ایک لمحے کے لیئے وہ خود سوچے کہ جو وہ لکھ رہا ہے اس کی ماں بہن بھی تو پڑھیں گی انہیں سبکی محسوس نہیں ہوگی کہ کس قدر جہالت پاء گء ہے۔
اللہ تعالی اس کے بارے میں کہتے ہیں:: مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں۔ اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام (رکھنا) گناہ ہے ۔ اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں سورة الحجرات ( 11)،غلط زبان کا استعمال کرتے ہوئے مذاق میں بھی گناہ ہے اور یہ جہنمی لوگوں کی خصوصیت ہے … رسول اللہ نے کہا: دوزخیوں کی پانچ اقسام ہیں…… اور ان کے درمیان وہ لوگ ہیں جو کنجوس, جھوٹے , گالی دینے والے فحش اور گندے الفاظ استعمال کرنے کے عادی ہوں (مسلم)۔ قیامت کے دن بدترین لوگ: برے الفاظ کا استعمال اور گندے منہ لوگ ہیں جو قیامت کے دن سب سے برے لوگوں میں سے ایک ہو جائیں گے۔
ALLAH
رسول اللہ نے کہا: اے عائشہ! کیا تم نے کبھی ایک بری اور گندی زبان بولنے سے مجھے دیکھا ہے ؟ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک بدترین لوگ صحرا یا ان کے گندے زبان سے یا اپنی سرکشی سے خود کو بچانے کے لئے چھوڑدیئے جائیں گے اور پھر وہ یاد رکھیں گے سب…(بخاری)،ابن عباس سے روایت ہے کہ دو مردوں نے اللہ کے رسولۖ کے زمانے میں ایک دوسرے کو بدنام کہا، “… ان میں سے ایک خاموش رہا جو دوسرے سے بے پناہ محبت تھی … نبی بیٹھے رہے … دوسرے آدمی نے واپس اس کو جواب دیا اور رسول اللہ اٹھے … وہ فرشتوں سے پوچھا جو بائیں جانب تھے “، اس نے کہا” کیا تم اٹھ کر پوچھا، “، تو میں نے ان کے ساتھ چھوڑ دیا گیا تھا… یہ شخص خاموش تھا جبکہ، فرشتوں نے اس پر لعنت کی ہے جو ایک کا جواب دے رہے تھے … اس نے جواب دیا تو فرشتوں نے اس کو چھوڑ دیا…(الادب المفرد رحمہ اللہ)، یہ گناہ ہے کسی نے پوچھا: کیا ایک مسلمان ایک کتا، سور، یا دیگر جارحانہ لفظ بلاتا ہے ایک شخص کے ساتھ کیا کیا جانا چاہیے ؟ یہ ایک گناہ ہے ؟ ” امام نووی نے کہا کہ: “یہ ایک گناہ ہے اور اسے سزا دی جانی چاہئے ـ قاضی / مسلمان جج کی طرف سے مخصوص کرنے کی سزا… توبہ بھی کرے … “(فتاوی امام نووی) سبحان اللہ! آپ کے مسلمان بھائی ‘کتے ‘ بلا وجہ سزا دی! اور ابھی تک، ہم وہ کچھ بھی نہیں، اس میں سے بالکل کچھ بھی نہیں سوچتے ہیں۔
جبکہ ہر جملے میں، ایک دوسرے کو ‘کتے ‘ اور ‘NIGGA کے ‘ اور بہت برا بلا ہمارے نوجوانوں کو کہتے سنتے ہیں… امام نووی: مسلمانوں میں سے کچھ آج بات کرتے ہوئے سنا ہے تو کہتے ہیں؟ !! کیا کیا جائے ؟ رسول اللہ نے کہا: خدا پر جو یقین رکھتا ہے اور جو شخص آخرت کے دن پر یوین رکھے اس کے لئے اچھی بات کرے یا خاموشی اختیار رکھنا چاہیے …” (بخاری)، آپ کسی ایک مؤمن اور ایک مومن غلیظ الفاظ بولنا یا کسی پر لعنت نہیں کرتے ہیں …، دور گندے زبان، لعنت اور بری باتوں سے دور رہو… … اس طرح کے خراب زبان بولنے والے لوگوں سے دور رہنا ہے آخر میں: برے الفاظ ان لوگوں کی توہین عزت نفس کی کل کے فقدان اور سے بات کرتے دکھایا گیا… گندی زبان سے دور رہتا ہے وہ پرانے زمانے کی بات…نہیں ہو رہی بلکہ وہ ایک مؤمن ہے اور سب سے بہترین آداب کے ساتھ ہماری تعلیمات اس بات کی قطی اجازت نہیں دیتے ……… اس طرح کے شر الفاظ کا استعمال، نہیں برداشت کیا جا سکتا نہ ہی یہ اسلام میں قابل قبول رویہ ہے۔
بے شک ایک آدمی اس کی کوئی اہمیت دیتا ہے جس کے الفاظ بولے ، اور ان کی طرف اس نے یہ جہنم کی آگ میں آتا ہے ، اور صحیح معنوں میں ایک آدمی کو اس کی کوئی اہمیت دیتا ہے جس کے الفاظ بولے ، اور ان کی طرف جو اللہ نے باغ میں اسے اٹھاتا ہے …(بخاری..) نہ ایک لفظ بھی وہ (یا وہ) کرتا ہے لیکن اس کی طرف سے ایک نگہبان تیار ‘(اسے ریکارڈ کرنے کے لئے ) ہے (سورہ ق: 18) انسان جب بھی سوچتا ہے اور وہ لکھاری بننے کی طرف آتا ہے تو اسے بہت سوچ سمجھ کر لکھنا پڑتا ہے جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا کہ پڑھنے والوں پہ تاثر چھوڑا جاتا ہے تو لکھاری اگر رمیز و تہذیب کے دائرے سے نکل کے لکھے گا تو جو سمجھ بوجھ رکھنے والو لوگ ہوں گے وہ صرور اس کی طرف ایکشن لیں گے اور لینا بھی چاہیئے … اور پھر اس پہ فخر بھی کرنا کہ جی ہم نے لکھا ہے ؟ کیا شرم بیج کے لکھا جاتا ہے ؟ لوگ خود اپنی زبان سے اپنی ماں بہن کے لئے یا دوسروں کی…ماں بہن کے لئے غلیظ اور گھٹیا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور اللہ ہم سب کو ہدایت دے آمین