تحریر : صادق رضا مصباحی موجودہ دور بڑا عجیب دور ہے تقریباً ہر قوم نے اپنے مذہب کو محض رسوم وروایات کا مجموعہ سمجھ لیا ہے ۔بہت کم لوگ ہیں جو مذہب کی روح سے قریب ہیں اور مذہب کی روشنی ہی میں اپنی زندگی کا سفر طے کرتے ہیں ۔بدقسمتی سے مسلمانوں نے بھی دینِ اسلام کو روایتی اور رواجی دین سمجھ لیا ہے مسلمانوں کے متعدد تیوہار اور خوشی کے مواقع ہیں جو انہیں اپنے نفس کی پاکیزگی، جذبۂ قربانی، کردار وعمل کی شفافی ،دوسروں کے ساتھ ہمدردی نیز اللہ ورسول کی تعلیمات پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم انہیں خرافات کی نذرکردیتے ہیں اور ان سب مواقع پر وہی کرتے ہیں جن سے ہمارا نفس خوش اور مطمئن ہوتا ہے۔ عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں میں سے ایک ہے جو اپنی حقیقی معنویت کھوتاجارہاہے ۔ ہر مسلمان واقف ہے کہ عیدِ میلاد النبی کیوں منایا جاتا ہے مگر صد حیف اس موقع پر لایعنی کاموں، فضول خرچیوں اور خرافاتوں کا اس قدر اہتمام ہوتا ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ یہِ میلاد النبی کاجشن ہے ۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری بلا شبہ رحمت تھی اور بلا تفریق مذہب وملت انہوں نے ہر شخص کو فیض پہنچایا تو ہونایہ چاہیے کہ ہم اس خوشی کے موقع پر دوسروں کو زیادہ سے زیادہ فائدے پہنچائیں، غریبوں کا خیال رکھیں،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں غریب بچیوں کی شادی کاانتظام کریں اورآپسی نفرت واختلاف ختم کرکے اتحاد واتفاق کی دعوت دیں مگر ہمارا عمل اس کے بالکل برعکس ہے الاماشاء اللہ۔ ان سے محبت وعشق کا تقاضا تو یہ ہے کہ جن کاموں کا انہوں نے حکم دیا ہم اس کو اپنے عمل سے جوڑیں۔
یہ کیسا عشق ہے اور کیسی محبت ہے کہ ایک طرف تو ان کے فرمودات کی صریح خلاف ورزی کی جاتی ہے اور پھر بھی عشقِ نبوی کے دعوے بلند کیے جاتے ہیں۔ ہم قدم قدم پرببانگ دہل عشقِ مصطفی کا نعرہ لگاتے ہیںاوراس عشق کی توہین کرنے والوں کے خلاف ایک طوفان کھڑاکردیتے ہیں مگرپیارے مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعلیمات کہ جن سے معاشرے میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے، ذہن ودماغ کو بالیدگی ملتی ہے اور سوسائٹی میں انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں ، کو جزوی یا کلی طور پربالکل نظر انداز کردیتے ہیں۔ گھروں میں چراغاں کرکے، ذکرِ ولادت منعقد کرکے، خوشیاں منا کراورجلوس نکال کرہم اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ عیدِ میلاد النبی کے مطالبات پورے ہوگئے اور عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضوں پر عمل ہوگیامگرکوئی ہمیں اپنے دل پرہاتھ رکھ کر بتائے کیاایساکرکے اس عظیم الشان جشن کاحق ادا ہوگیا ؟ کیا اسلام صرف رواجی اوررسمی دین ہے ؟نعوذ باللہ ہمارامدعایہ نہیںہے کہ آپ میلادنہ منائیں ،چراغا ں نہ کریں اورخوشیوں کااظہارنہ کریں۔آپ یہ سب ضرورکیجیے کہ بلاشبہہ اس موقع پرمختلف اندازسے خوشیاں کاعملی اظہارہماری دینی وراثت کاحصہ ہے جس سے ہم کسی بھی قیمت پردست بردارنہیں ہوسکتے مگر ان کے ساتھ ساتھ ان کو بھی بروئے کار لائیے کہ جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو سختی سے تلقین فرماتے رہے اور جن سے دینِ اسلام کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔
عید میلاد النبی دراصل اسی عہد کو دوہرانے کا دن ہے جوسرکارِدوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے امتیوںسے لیاہے۔سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کا جشن ہر سال منانے کا حقیقی مطلب یہی ہے کہ ان کی سیرتِ طیبہ کا تذکرہ کرکے ان پر عمل کرنے کا تہیہ کیا جائے،جو لوگ سیرتِ نبوی کوعملی طورپرفراموش کر چکے ہیں وہ اس روز سیرتِ نبوی کواپنے عمل سے ہم آہنگ کرنے کاعہدکرلیں اور اسی کے مطابق اپنی اگلی زندگی کا لائحہ عمل طے کریں، جو لوگ سیرتِ رسول سے قریب ہیںوہ اورقریب ہوجائیں اور معاشرے میں سیرتِ طیبہ کے مظاہر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس دن بعض مسلمان جلوسِ محمدی میں ڈھول باجے کا اہتمام کرتے ہیں، خواتین اور لڑکیاں بے پردگی کے ساتھ جلوس دیکھنے نکلتی ہیں، پٹاخے چھوڑتے ہیں، شوروغل کرتے ہیں،موسیقی والی نعتیں دھوم دھام سے سنی سنائی جاتی ہیںاوران نعتوں کی دھن پرنوجوان لڑکے رقص کرتے ہیں۔یہ چیزیں شریعت اسلامیہ میں بالکل ناجائزہیںدین کاان سے کوئی تعلق نہیں مگردین کے نام پرانہیں فرو غ دیاجارہاہے۔ یہ سب گناہ کے کام ہیں ہرمسلمان کی ذمے داری ہے کہ وہ ان خرافات سے خودبھی بچے اوردوسروں کوبھی بچنے کی تلقین کرے۔خصوصاائمہ مساجداپنے اپنے مصلیوں کوان سے بچنے کی سختی سے ہدایت کریں۔
ALLAH
سیکڑوں طوفان ہیں جو امتِ مسلمہ کو نگلنے کے لیے کھڑے ہیں ہزار وں قیامتیں ہیں جو مسلمانوں پر ٹوٹ پڑنے کے لیے بے تاب ہیں۔جگہ جگہ ہماری پسماندگی کے چرچے عام ہیں مگرہمیں اس کی کوئی فکر نہیںہم اپنی ناکامیوں کا ٹھیکرہ دوسروں کے سر پھوڑتے ہیں اور صرف شکوے شکایات کرکے ہی اپنی ناکامیوں پر ماتم کرتے ہیں۔ اکثر مسلمانوں کو یہ کہتے سناگیا ہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہم کیسے آگے بڑھیں مگر یہی لوگ جلوسِ محمدی میں ڈھول باجے اور ڈی جے جیسے دوسرے فضول اورغیرشرعی چیزوں میں لاکھوں روپے صرف کردیتے ہیں اور انہیں ذرا بھی ملال نہیںہوتا۔ ان کے پڑوس کی غریب بچیوں کے پھول جیسے چہرے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے انتظارمیںمرجھاجاتے ہیں لیکن ان کے ماتھے پر شکن بھی نمودار نہیںہوتی۔ خدارا ہوش میں آئیے دین کی آڑمیں آپ جوکچھ کررہے ہیںاس سے کنارہ کش ہوجائیے۔
آج عصری تناظر میں عید میلاد النبی کوبامقصد بنانے کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ اس کے مقاصد کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر صرف جلوس نکال لینااور چراغاں کرلینا ہی کافی نہیں بلکہ اس موقع پرایسے تعمیری اورترقیاتی کاموں پربھی توجہ دیناہوگی کہ جن سے مسلمانوں کی پسماندگی دورہوسکے ۔ جلوس کو غیر شرعی کاموں سے پاک کرنا اور اس جلوس کو بامقصد بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ کسی طرح کی کوئی غلط فہمی راہ نہ پاسکے۔ ہم نے بعض علاقوں میں دیکھا ہے کہ جلوسِ محمدی کے موقع پر بعض لوگ جلوس کے آگے آگے عربی لباس زیب تن کرکے گھوڑوں پر تلوار لے کر چلتے ہیں۔ہماری سمجھ میں آج تک نہیں آیاکہ اس کامقصدکیاہے اوراس سے دنیاکوکیاپیغام دیا جاتاہے؟یہ رواج کبھی کسی زمانے میں تھا مگر آج بالکل زیب نہیں دیتا اس سے برادرانِ وطن میں یہ غلط فہمی پھیلتی ہے کہ اسلام تلوار کی زور سے پھیلا اوراسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتاہے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے تعلق سے جو جو غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں ان میں غیرارادی طورپرمسلمان بھی ملوث ہیں اور انہیں مواد بھی مسلمان ہی فراہم کررہے ہیں ۔یہ روایت بالکل ختم ہونی چاہیے اس وقت سوائے نقصان کے اس کااورکچھ بھی فائدہ نہیں۔ اسی طرح جلوس میں بزرگانِ دین کے مزارات، مقاماتِ مقدسہ اورتاریخی مساجد وغیرہ کی جھانکیاں بھی بنائی جاتی ہیں جس پرمجموعی طورپر ہزاروں، لاکھوں نہیں کروڑوں کا صرفہ ہوتا ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ اس پر بالکل پابندی لگا دی جائے مگر مگراتناضرورکہیں گے کہ اس کی بھی حدبندی کردی جائے ۔آخراس کا مصرف کیا ہے اور اتنا زرِ کثیر صرف کرکے آخر اس سے کیا فوائد حاصل کیے جارہے ہیں؟ اس کا جواب جھانکیاںبنانے والے بھی نہیں دے سکتے ۔ بس ایک رواج ہے جس پر عمل کرنا ضروری خیال کیا جاتا ہے اوراپنی عقیدت کی تسکین کرلی جاتی ہے مگرحدیہ ہے کہ اس کو مذہب اور اسلا م سے تعبیر کیا جارہا ہے۔
Eid Milad
اس مبارک موقع پر انفرادی یا اجتماعی طور پرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر مشتمل کتابچے اردو، ہندی، مراٹھی، انگلش اور دیگر زبانوں میںمسلمانوںاور غیر مسلموںتک پہنچائے جائیں۔ دراصل عید میلاد النبی کا سب سے اہم تقاضا تو یہی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو عام سے عام تر کیا جائے، غریبوں کے لیے علاج کا اہتمام کیا جائے، اسپتالوں میں جاکر مریضوں کو پھل اور دودھ وغیرہ تقسیم کیے جائیں، نادار مگر شوقین بچوں کی ایک یا دویا پانچ سال کی فیس کا انتظام کیا جائے، غیر مسلم قائدین ومذہبی شخصیات کے ساتھ امن اورشانتی کے موضوعات پر مذاکرات منعقد ہوں۔ اس سے یقینا ایک اچھا پیغام جائے گا اور اسلام ومسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا۔ ہر مسلمان اپنے اپنے طور پر اپنے کسی غیر مسلم دوست کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور ان کے فرمودات سے آگاہ کرے۔ ہم اپنی نبوی کردارسے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنادیں، تعلیم عام کرکے جہالت کی ظلمتیں بھگادیں اور انصاف ودیانت کے تقاضے پورے کرکے ناانصافیاں وخرابیاں ختم کرنے کی کوشش کریں۔ جب تک ان باتوں پر عمل نہیں کیا جائے گا عید میلاد النبی کا قرض ہم پر ہمیشہ باقی رہے گا۔ کرنے کے کام یہی تو ہیں کہ انہیں کاموںکے لیے سید العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد ہوئی۔اسلام کا صحیح تصور یہی ہے اور اسی پر اسلام کی بنیاد قائم ہے۔ اگر مذکورہ خرافات پر عمل کیا جاتارہا تو نہ صرف ہم گناہِ عظیم کے مرتکب ہوں گے بلکہ اسلام کی بنیادوں کو خود ہی منہدم کریں گے ۔ صرف کلمہ پڑھ لینا، داڑھی رکھ لینا،اسلامی لبا س پہن لینا ،اسلام کی باتیں کرلینا اور نماز پڑھ لینااسلام نہیں ہے بلکہ دل سے حقیقی تعلیمات پر ایمان لانا اور ان پر عمل کرنے کانام اسلام ہے اوراسی سے اسلام کو تقویت پہنچتی ہے اور مسلمان صحیح مسلمان بنتا ہے۔دیکھیے ڈاکٹر اقبال نے کتنی اچھی بات کہی ہے ۔ خرد نے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل دل ونگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں