تحریر : ایم سرور صدیقی ہزاروں کا اجتماع، خوبصورت انداز میں سجا سٹیج ، خاص خاص مہمانوں کے گلے میںتازہ پھولوں کے ہار اورپنڈال میں آویزاں رنگ برنگے پوسٹروںکا اپنا ہی حسن تھا، ٹولیوںکی شکل میں آتے جاتے لوگ رونق بڑھارہے تھے ،بچوںکا اشتیاق دیدنی،عورتیں بھی گھریلوکام کاج چھوڑ چھاڑ کر اوربیشتر فصلوں کے معاملات سے جان چھڑا کر ایسے چل پھررہی تھیں جیسے پکنک پر آئی ہوں چندلڑکیاں اپنی سکھیوںسے بات چیت کرتی نظر آتیں تھیں مردوں کی تعداد زیادہ تھی پنڈال میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے بھی کم نہ تھے اکثروبیشتر ڈرے ڈرے ،سہمے سہمے ایک دوسرے سے خوفزدہ۔۔ ماتھے پہ بہتا پسینہ ،چہرہ چہرہ سوالی۔ اتنے میں سٹیج سے نعرے بازی شروع ہوگئی آتش بازی، پٹاخے اور نعروںکا شور لوگوںنے دیکھا دور ڈھول مٹی اڑاتی کئی پجیرو گاڑیاں ان کی جانب آرہی تھیں۔۔ آنے والوں میں زیادہ سفید کلف لگے کپڑوں میں ملبوس تھے کچھ سوٹڈ بوٹڈ بھی تھے۔آنے والے وڈیرے ، ان کے مہمانوں سے پنڈال میں جمع لوگ جھک جھک کر سلام کررہے تھے۔نعروں کی گونج میںسٹیج پر بیٹھے لوگوںکا تعارف ، حاضرین کو ووٹ دینے کی تلقین اور دھواں دھار تقریریں آخر میں تمام لوگوں کیلئے جوس کے ڈبے اورڈبہ پیک بریانی۔۔کئی بچے حیرت سے یہ سب کچھ زندگی میں پہلی بار دیکھ رہے تھے۔۔۔
یہ ہے پاکستانی جمہوریت کی اندر کی کہانی کس طرح جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں نے سیاست اور جمہوریت کو یرغمال بنا رکھاہے ان کے مزارع اور طفیلی جن کیلئے اپنی مرضی سے ووٹ دینا بھی گناہ سمجھا جاتاہے۔۔۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے تمام حکمران سب کے سب اور موجودہ سیاستدانوں میں بیشتر فوجی اسٹیلشمنٹ کی پیداوارہیں ان کے دل میں جمہوریت کا درد بھی ہے۔۔وہ سدا اقتدارمیں بھی رہنا چاہتے ہیں۔۔وہ یہ بھی چاہتے ہیں ان کے منہ سے نکلے ہر لفظ کو قانون سمجھا جائے۔ ان کی ہاں میں ہاں ملانے والوں کا جھڑمٹ ہو لیکن اختلاف کرنا والا ایک بھی نہ ہو۔۔ان کی دلی خواہش ہے وہ اپنی سیاسی پارٹی کو موروثی لمیٹڈ کمپنی کی طرزپر چلائیں صدر ،وزیر ِ اعظم نسل در نسل ان کے خاندان سے آتے اور جاتے رہیں۔ اور تاقیامت حکمرانی ان کے گھرکی لونڈی بن کررہ جائے ۔۔ ان خواہشات کے مقابل یہ اس سے بھی عجیب تر نہیں پھر دن رات جمہوریت کی شان میں قصیدے پڑھتے رہیں۔۔کسی کواپنی بات سے اختلاف کرنے کا حق بھی نہ دیا جائے۔۔ آپ اپنے ہی ارکان اسمبلی سے ملنا بھی پسند نہ کریں۔۔ کارکنوںکیلئے آپ کے پاس وقت نہ ہو۔۔باربار اقتدار میں آنے کے باوجود عوام کی حالت نہ بدلے۔محرومیاں ہی محرومیاں غربیوںکا مقدر بنی رہیں۔سرکاری نوکریاں اور کاروبار کرنے کے وسائل پر عام آدمی کا کوئی استحقاق نہ ہو، پڑھے لکھے نوجوان بیروزگارپھرتے رہیں اور نااہل لوگ آگے آتے جائیں ۔۔۔ جناب یہ کون سی جمہوریت ہے ؟
کیسے جمہوری تقاضے؟دل نہیں مانتا ،ذہن تسلیم نہیں کرتا کہ سارے وسائل میں عام آدمی کیلئے کچھ بھی نہیں۔۔ لگتاہے موجودہ قومی رہنمائوں میں سے کوئی بھی دل سے موجودہ سسٹم کو تبدیل کرنا نہیں چاہتا سب کی خواہش ہے یہ موج میلہ ایسے ہی ہوتا رہے اب عوام اس نتیجہ پر پہنچی ہے انہیں ایسی جمہوریت۔۔ ایسا نظام ۔۔ ایساایک لیڈر نہیں چاہیے جنہوںنے غربت کو عوام کیلئے بد نصیبی بنا دیاہے اب لوگوں میں یہ بات عام ہوتی جارہی ہے انتخابات کا مروجہ طریقہ ٔ کاردرست نہیں اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں جب تک موجود ہ استحصالی نظام موجود ہے بہتری کی کوئی امید نہیں ۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے سب کے سب حکمران اور موجودہ سیاستدانوں میں بیشتر فوجی اسٹیلشمنٹ کی پیداوار جن کی خواہشات کا نام جمہوریت۔ سیاست جن کیلئے کھیل اور جمہوریت عوام کیلئے سانپ سیڑھی والی گیم جب منزل قریب آنے لگتی ہے سانپ ڈس لیتاہے دھت تیرے کی۔
Pakistan
جمہوریت تو پاکستان میں بادشاہت ہوگئی یاپھر ، ملوکیت کی بدترین شکل ۔۔ دونوں صورتوں میں عوام کا پٹرا اور اشرافیہ کی پانچوں گھی میں۔۔۔ پیپلزپارٹی کی زرداری مارکہ سابقہ حکومت جمہوریت کے لئے زہرِقاتل ثابت ہوئی جس میں پہلی بار مائنس اپوزیشن کا تصور پیش کیا گیا مفاہمت کے نام پر تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں شریک ِ اقتدار۔۔۔ مذہبی جماعتوںنے بھی بہتی گنگا سے اشنان کرنے کو مذہبی فریضہ جان لیا اوریوں اس حمام میں بیشتر ایک جیسے ہوگئے۔ سیاستدان حکومت میں ہوتے ہیں یا اپوزیشن میں یہ مفاہمت کے نام پر حکومت میں بھی ہیں اور اپوزیشن میں بھی ۔۔۔ یہ کتنی بڑی منافقت ہے اس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا یہ تو ایسے ہی ہوا جیسے کوئی مسلمان بھی ہو ااور ہندو بھی۔۔۔ عوام میں اتنا شعورتو پیداہونا چاہیے کہ کسی لیعت و لال کے ایسی سیاست پر چارحرف بھیج سکیں ۔ ظاہر ہے جب تک کچھ قبضہ گروپوں نے سیاست کو یر غمال بنا رکھاہے کوئی حاجی لق لق بھی آجائے کچھ نہیں کرسکتا۔
جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں نے سیاست اور جمہوریت کو یرغمال بنا رکھاہے ان کے مزارع اور طفیلی جو اپنی مرضی سے ووٹ نہیں دے سکتے تبدیلی کیسے لا سکتے ہیں؟ جو لوگ اپنے حقوق کیلئے بھی دوسروںکی طرف دیکھیں وہ جان لیں پھر سسک سسک کرجینا،گھٹ گھٹ کر مرنا ، لقمے لقمے کو ترستے رہنا ان کے مقدرمیں لکھدیا گیاہے ۔ملک میں تبدیلی کا نعرہ دو رہنمائوں نے لگایا ہے جو ایک دوسرے کے حلیف بھی ہیں اور حریف بھی دونوں کی کاز ایک ہے لیکن لگتاہے پرسنیلٹی کلیش بھی موجود ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو عمران خان اور طاہرالقادری کی صورت میں مضبوط اپوزیشن کا سامناہے ایک پارلیمنٹ میں ہے دوسرا پارلیمنٹ سے باہر۔۔۔ تیسرے شیخ رشید ہیں جو بیک وقت دونوں کے ساتھ ہیںسچی بات تو یہ ہے تینوں نے حکومت کی باں باں کرا رکھی ہے ان سے نواز شریف حکومت خوفزدہ بھی لگ رہی ہے۔ ایک سونامی لانا چاہتے ہیں دوسرے کی خواہش انقلاب ہے اب معلوم نہیں دونوںکا مطمع ٔ نظر ایک ہے یا الک الک نقطہ ٔ نظر۔ سونامی اور انقلاب کی تشریح دونوںکی نظر میں ایک یا مختلف ڈیفی نیشن جب تک دونوں رہنمائوں کی سوچ، ترجیحات اورحکمت ِ عملی یکساں نہیں ہوگی بھرپور احتجاج کی کوئی صورت نہیں بن سکتی۔
مسلم لیگ ن کی حکومت کے پاس بھاری مینڈیٹ ہے ۔۔وسائل ہیں،ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ بھی اس لئے اس کے خلاف احتجاجی تحریک کو منظقی انجام تک پہچانا ایک مشکل کام ہے جو لوگ دل سے میاں نوازشریف کے” دشمن ”ہیں وہ تماشا دیکھ کر وقت گذار رہے ہیں وہ تذبذب کا شکارہیں اور تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کے فارمولے پر عمل پیراہیں جو لوگ میاںنوازشریف کو ہٹانے کے متمنی ہیں وہ خوفزدہ ہیں کہ کہیں اس کے نتیجہ میں موجودہ سسٹم ہی زمین بوس نہ ہو جائے اختیارات،عزت، دولت ،شہرت اورملکی وسائل پرقبضہ موجودہ نظام ہی کی بدولت ہے ان کی خواہش، کوشش اور حسرت ہے کہ یہ جوںکا توں اسی طرح سسٹم چلتا رہے کیونکہ موجودہ جمہوری سسٹم کے طوطے میں ان کی جان ہے۔