یہ تھا اپنا وطن اک چمن کی طرح جانے کس کی نظر لگ گئی ہے اسے اک بیاباں کی مانند یہ ہو گیا پھول چھپ کر نہ جانے کہاں کھو گیا پھول کی جگہ کانٹو نے ہتھیائی ہے اور ماحول میں زہر پھیلایا ہے اِس چمن میں محبت کا نام و نشاں ڈھونڈنے سے بھی تم کو نہ مل پائے گا اب شجر ایکتا کے نہ مل پائیں گے نہ ہی خوشیوں کی بیلیں نظر آئیں گی ہاں اہنسا کے بوئے جگہ در جگہ آخری سانس گنتے نظر آئیں گے اب وہ میٹھی کویلیا کی بانی کہاں کھلتی کلیوں کی اب وہ جوانی کہاں اور باغوں میں راتوں کی رانی کہاں اب وہ بارش کی معصوم چھیٹیں کہاں اب وہ موسم کہاں اب وہ گاندھی کہاں، اب وہ گوتم کہاں اب تو دہشت کے بادل ہیں امڈے ہوئے اور دہشت کی آندھی بہت تیز ہے سر اٹھایا ہے نفرت کے غنچوں نے اب اور تشدد کی بیلیں لپٹ آئی ہیں اب یہاں بغض کے سیکڑوں بیج سے گُل ہیں کھلتے فسادات کے آج کل اب نہ کھیتوں میں دوشالا اوڑھے ہوئے وہ ہری من بھری فصل لہرائے ہے اور نہ ڈالوں پہ میٹھی کیولیا کبھی پیار کا وہ مدھر گیت دہرائے ہے نہ ہی جوہی ، نہ چمپا چمبیلی کبھی اب فضا میں وہ خوشبو ہی بکھرائے ہے اور نہ مانند دلہن وہ شرمائی سی لاجونتی ہی خود میں سمٹ پائے ہے اب وہ خوشیوں کی برسات کب آئے گی جوہی چمپا کی برسات کب آئے گی اب ہنسی کی وہ سوغات کب آئے گی اور سنہری وہ پھر رات کب آئے گی چاند جس دم بکھیرے گا پھر چاندنی اور فلک پہ ستارے نظرآئیں گے یا خدا میرے!پھر کب وہ دن آئے گا جبکہ سورج میں ہو پھر سے اتنی کشش بھسم کر دے جو اِس بغض کے بیج کو دفن کر دے فسادات کے پود کو اور بھر دے جو اس ہند کی گود کو پھر سے اک بار ہریالیوں سے خدا تاکہ اپنا چمن پھر سے یہ کھل اُٹھے
Pakistan
تحریر: احمد غیور رابطہ:9304572368 پتہ:Ghayur A Ahmed Nauman Manzil Opposite Allahabad Bank, (PU Branch) Peer Bahore Mahendru,Patna 800006