گونگی دعا ئیں، مشکل سفر کا زاد راہ

Dua

Dua

تحریر : انجم صحرائی
میری شادی 1980 میں ہوئی اور یہ بات ہے شادی کے ایک برس بعد کی جب ہم چند دوستوں نے انجمن فلاح و بہبو دی مریضان لیہ قائم کی۔ پیشنٹ ویلفئیر سوسا ئٹی کاتا سیسی اجلاس محلہ منظور آباد میں وا قع میر ے ایک کمرے پر مشتمل کرایہ کے مکان میں منعقد ہوا ۔ اس سوسائٹی کے پہلے اجلاس میں ڈاکٹر ملک مظور لودھرا ، محمد سعید خان ،ہیبت خان سیہڑ ، حمید سلیمی ، مزمل ملک ( اسوقت مزمل ملک پروفیسر نہیں بنے تھے ) آصف خان ، چو ہدری محمد ارشاد ( جو بعد میں محکمہ لوکل گورٹمنٹ میں ملازم ہو ئے ) ، قاضی ضیا ء اللہ خان نا صر شریک ہو ئے اتفاق را ئے سے مجھے اس انجمن فلاح و بہبو دی مریضان لیہ کا صدر منتخب کیا گیا بعد میں سید ریاض حسین شاہ ایڈ وو کیٹ ۔ شیخ بشیر احمد ، شیخ محبوب الہی (فا ئنڈر پریذ یڈنٹ انجمن تا جران ) ملک غلام محمد سواگ سا بق ایم پی اے مرحوم ، سر دار جہا نگیر خان سیہڑ سا بق ایم این اے ، شیخ فیض رسول مر حوم ضلع لیہ کے پہلے ڈی سی فیصل تحسین میمن ،ایس او غوری اور شیخ ریاض (ریاض الیکٹرونکس والے )سردار غلام فرید مرا نی ، ملک منظورجو تہ ، شیخ محمد یو سف (جو بعد میں کو نسلر بھی منتخب ہو ئے ) اور چو ہدری سرور پٹواری بھی انجمن فلاح و بہبو دی مریضان لیہ کے ابتدا ئی معا ونین میں سر فہرست رہے۔

اگر میں کہوں کہ انجمن فلاح و بہبو دی مریضان اس دور کی سب سے زیادہ متحرک اور فعال تنظیم تھی تو شا ید غلط نہ ہو گا ۔ قا رئین انجمن فلاح و بہبو دی مریضان فعا لیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اسی زما نے میں کمشنر ڈیرہ غازیخان چو ہدری محمد اشرف گجر لیہ کے دورے پر آ ئے تو انہوں نے ہسپتال کا دورہ بھی کیا ۔ ا س ز ما نے میں ہسپتال ٹی ایچ کیو والی پرا نی بلڈ نگ میں ہی وا قع تھا سا تھ والی نئی بلڈ نگ تو بڑی دیر کے بعد ملک غلام حیدر تھند کے ضلعی نظا مت کے دور میں تعمیر ہو ئی ۔ جب کمشنر صاحب سر جری وارڈ میں آ ئے تو وہاں شا ید چھ سات ان ڈور مریض دا خل تھے جن میں سے غالبا چار کے سر ہا نے دیوار پر زیر علاج انجمن فلاح و بہبو دی مریضانعلاج کی تختیاں لگی تھیں ۔ یہ دیکھتے ہو ئے کمشنر صاحب نے ڈاکٹر ملک منظو لودھرا جو ہسپتال کے ایم ایس تھے سے از راہ تفنن پو چھا کہ یہ ہسپتال پنجاب حکو مت چلا رہی ہے یا انجمن فلاح و بہبو دی مریضان۔

ٹی ایچ کیو ہسپتال کا ایک کمرہ میڈ یکل شو شل ویلفیئر آ فیسر کے دفتر کے طور پر مختص تھا ۔ کمرے میں دفتر کا مکمل سا مان بھی تھا اور محکمے والوں نے ایک نا ئب قا صد کی د یو ٹی بھی دفتر میں لگا ئی ہو ئی تھی ۔ کوٹ سلطان کے رہا ئشی میرے کلاس فیلو ملک فقیر محمد منجو ٹھہ اس دفتر کے کرتا دھرتا تھے افسر تھا اسی لئے کام کاج بھی کچھ نہیں تھا فقیر محمد آ تا دفتر کھو لتا اور اونگھ اونگھ کر واپس چلا جا تا ہم نے یہ حالت دیکھ کر اللہ غریق رحمت کرے ایم ایس ڈا کٹر ملک منظور لو دھراسے در خواست کی کہ جب تک کو ئی میڈ یکل آ فیسر نہیں آ تا وہ اس دفتر میں ہمیں بیٹھنے کی اجازت دے دیں ۔ڈاکٹر صاحب کہا کہ مجھے تو کو ئی اعتراض نہیں آپ محکمہ شو شل ویلفئیر والوں سے اجازت لے لیں۔

پر ویز صاحب اس زما نے میں شو شل ویلفئیر آ فیسر تھے سو تھو ڑی سی ردو کد کے بعد انہوں نے بھی انجمن فلاح و بہبو دی مریضان کے لئے اس دفتر کے استعمال کی اجازت دے دی ۔ اور یوں ہم غیر سر کاری ہو تے ہو ئے ایک سر کاری دفتر کے مالک بن بیٹھے اور دفتر کا سر کاری فر نیچر بھی استعمال کر نا شروع کر دیا ۔ اب ہمارے اجلاس اسی دفتر میں ہو تے ہم سب دوست با ری باری اس دفتر میں بیٹھتے اور مستحق امداد مر یضوں کے لئے علاج معالجہ کے لئے خدمات انجام دیتے ۔ کسی کو ادویات ، کسی کو بلڈ غرض جو کچھ ہم سے بن پڑ تا ہم سبھی کچھ کر تے ۔ ہم نے اس زما نے میں انجمن فلاح و بہبو دی مریضان لیہ کے پانچ سو زیا دہ ممبران بنا ئے یہ سب ممبر ہمیں پا نچ روپے ما ہوار چندہ دیتے جس سے ہم یہ سب ا خراجات پو رے کرتے اس زما نے میں ہما رے لئے یہ ایک بڑی رقم تھی۔ ہما رے دو ستوں میں شیخ یو سف مر حوم ، ان کی ایک سسٹر اور میرا بلڈ گروپ او پا زیٹیو تھا ایک اور دوست ہوا کرتے تھے فیضی ان کی جو توں کی دکان ہوا کر تی تھی صدر بازار میں بڑے شا ندار شخصیت کے مالک تھے ان کی آواز بھی بڑی اچھی تھی ان کا گروپ بھی او پا زیٹیو تھا یہ تو سبھی کو علم ہو گا کہ او پا زیٹیو بلڈ کو یو نیورسل ڈونر بھی کہا جا تا ہے یہ بلڈ گروپ ہر مریض کو لگ جا تا ہے خواہ اس کا بلڈ گروپ کو ئی بھی ہو خون کا عطیہ دینے والے میرے ہم عصروں میں مرحوم شیخ یو سف اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت عطا فر ما ئے ہمیشہ ہم سب سے آگے رہے انہوں نے تو شا ئد سینکڑوں بار خون کا عطیہ دیا ہو گا۔

اسی دور میں ہم نے دو یاد گار فنکشن کئے یہ دو نوں فنکشن ہسپتال کے سبزہ زار میں ہو ئے پہلے فنکشن کے صدر تقریب فیصل تحسین میمن ڈی سی تھے اور مہمان خصو صی شیخ فیض رسول تھے یہ ایک بھر پور فنکشن تھا جس میں شہر بھر کے تقریبا سبھی طبقات کے نما ئندہ لوگ شریک ہو ئے مہمان خصو صی شیخ فیض رسول نے اپنی مختصر سی تقریر میں انجمن فلاح و بہبو دی مریضان کے لئے ایک ہزار روپے گرا نقدر عطیہ کا اعلان کیا انجمن فلاح و بہبو دی مریضان کی دوسری تقریب خوا تین کی ہو ئی اس تقریب کا مو ضوع “خواتین کے طبی مسا ئل اور صحت کے تقا ضے ” تجویز کیا گیاتقریب کی صدارت مسز شہناز فیصل بیگم ڈی سی نے کی جب کہ تقریب کی مہمانا ن خصو صی بیگم ایس او غوری اور ڈاکٹر یا سمین مظفر اعوان تھیں ۔ ڈاکٹر مظفر یا سمین اور ان کے شو ہر ڈاکٹر مظفر اعوان کی انہی دنوں لیہ ہسپتال میں تقرری ہو ئی تھی یہ فنکشن بھی لیہ کی تا ریخ کا ایک بڑا اور یاد گار فنکشن تھا اس فنکشن میں خواتین کی اتنی زیادہ تعداد شریک ہو ئی کہ بیگم ڈی سی جو تقریب کی صدارت کر رہی تھیں نے اپنے خطاب میں اس بات کا خصو صی ذکر کیا ۔ میں اس تقریب کی کا میابی کا سہرا بلا شبہ ڈاکٹر مظفر یا سمین کو ہی دوں گا جن کی معا ونت سے ہم وہ تقریب منعقد کر سکے تھے ۔ ان دنوں ڈاکٹر مظفر اعوان اور ڈاکٹر مظفر یا سمین نے ہمیں بھر پور حو صلہ دیا وہ ہمارے پرا جیکٹ میں ہمیشہ آ گے آ گے ہو تے تھے مجھے یاد ہے ایک بار ڈاکٹر مظفر اعوان نے اپنی پوری تنخواہ ہمیں عطیہ کی مگر اس کی ادا ئیگی ایسے ہو ئی کہ جب بھی کسی مریض کو ان ادویات کی ضرورت ہو تی جو ہسپتال میں دستیاب نہ ہو تیں ہم اسے داکٹر مظفر اعوان کے پا س بھیج دیتے اور ڈاکٹر صاحب عطیہ کی ہو ئی تنخواہ کی مد میں سے اس مریض کو ادویات خرید دیتے ۔ اور یوں یہ سلسلہ ایک عر صے تک چلتا رہا۔

Wellness

Wellness

ہم اس زما نے میں انجمن فلاح و بہبودی مریضان کی ماہانہ آمدوخرچ رپورٹ بھی شا ئع کیا کرتے تھے اس رپورٹ میں ان لوگوں کے نام بھی شائع ہو تے جو ہمیں اپنا ماہانہ چندہ ادا کرتے اور ان مریضوں کے نام بھی شا ئع کئے جا تے جنہیں امداد مہیا کی جا تی مریضوں کے نام اس لئے شا ئع کئے جا تے تا کہ انجمن فلاح و بہبو دی مریضان کو عطیات دینے والوں کو بھی اپنے دئیے گئے عطیات کے استعمال کا علم ہو سکے ۔ یہ رپورٹ صرف ممبران اور عطیہ دہند گان کو ہی بذ ریعہ ڈاک بھجوا ئی جا تی ۔ ایک دن یوں ہوا کہ میں آ فس میں مو جود تھا اور اس شان سے کہ میڈ یکل آ فیسر صاحب کے دفتر کی بڑی سے میز کے ساتھ رکھی کر سی پر کر سی کو باپ کی جا گیر سمجھ کر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک انتہا ئی نفیس اور خو بصورت صاحب اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ تشریف لا ئے نہ انہوں نے تعارف کرایا اور نہ ہی ہم نے اپنا آپ بتا نے کی ضرورت محسوس کی محترم تا زہ تازہ ایک سر کاری محکمہ سے ریٹا ئرڈ ہو ئے تھے۔

اور وہ سمجھے کہ ہم بھی شا ید ایک سر کا ری افسر ہیں انجمن فلاح و بہبو دی مریضان بارے چھپی رپورٹ میز پر پڑی تھی رپورٹ پر ہماری تصویر بھی شا ئع ہو ئی تھی حمید سلیمی صاحب کے ساتھ ۔ مگر شا ئع ہو ئی وہ تصویر ہماری اصلی تصویر تھی سر پر خا صے بڑے گھنگھریالے الجھے بال اور بے تحا شا بڑھی ہو ئی داڑھی ، ما ننے کی بات تھی کہ رپورٹ پر چھپی تصویر اور کرسی پر بیٹھے “صاحب ” میںوا قعی زمیں آسمان کا فرق تھا خیر صاحب ہما رے معزز مہمان نے ہماری تصویر سے مزین رپورٹ اٹھا ئی دیکھا اور ایک مو ٹی سی گا لی دے کر کہنے لگے یہ انجم صحرائی ہے بڑا ۔۔۔ ہم ہکا بکا مغلظات سن کر ایسا لگا جیسے کسی نے گرم تنور میں پھینک دیا ہو خا صے ضبط او حو صلہ کے بعد عرض کیا صاحب !کیا آپ اس تصویریر والے بندے کو جا نتے ہیں فر ما نے لگے کیوں نہیں ابھی پھا ٹک پر ملا تھا اور اپنے ساتھی کی طرف اپنا سر گھما یا اور پو چھا “کیوں اوئے ہنیں ملا ہا ئی نا پھا ٹک تے ” سا تھی نے بھی اپنا تر بوز نما سر اتنی زور سے اوپر نیچے ہلا یا کہ میں ہا تھ ملتا رہ گیا ۔ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ مجھے بھی انجم صحرائی کہتے ہیں جواب ملا “تے شا ئد او کو ئی بیہا انجم صحرا ئی ہو سی ملا تے ہا ئی ہنے پھا ٹک تے سا کوں۔۔

خوا تین کے فنکشن سے انجمن فلاح و بہبو دی مریضاں کے ہسپتال میں دا خل ان ڈور مریضوں کو بہت فا ئد ہ ہوا ایسے مریض جو باہر دور دراز سے آئے ہو ئے ہو تے تھے بعض گھروں سے ان کے لئے نا شتہ اور کھا نا آ نا شروع ہو گیا ۔ بعض گھروں سے مریضوں کو دودھ بھی فراہم کیا جا تا بہت ایسے مستحق مریض جنہیں بستروں کی ضرورت تھی انہیں انجمن فلاح و بہبو دی مریضان کے بعض دو ستوں کے گھروں سے بستر بھی مہیا کئے گئے اسی زما نے میں ایک منصب نا می ٹی بی کے مریض نے علاج کے لئے ہم سے را بطہ کیا مریض کا گھر برلب لیہ ما ئینر ملک منظور جو تہ کے گھر سے تھوڑا آ گے تھا ، ایک کچے کمرے پر مشتمل اس مکان میں وہ با با اپنی گو نگی بیوی کے ساتھ رہتا تھا اسے کھا نسی اور دمے کی تکلیف ہو ئی تو ڈاکڑز نے اسے ٹی بی قرار دے دیا اور ٹی بی بھی آخری سٹیج والی ۔۔ اس نے علاج معالجے کے لئے ہمارے سا تھ رابطہ کیا میں اسے سا تھ لے کر ایم ایس سے ملا اور اسے ہسپتال میں داخل کر نے کی در خواست کی ایم ایس کہنے لگے کہ ہم اسے ادویات تو فراہم کر سکتے ہیں مگر چو نکہ ہما رے ہسپتال میں ٹی بی وارڈ نہیں اس لئے ہم ٹی بی کے کسی مریض کو ہسپتال میں دا خل نہیں کر سکتے ٹی بی ایک مہلک بیماری ہے علاج کا تسلل اور اچھی غذا سے ہی مریض کی صحت یا بی ممکن ہے ہم نے ایم ایس سے عرض کیا کہ مریض کی حالت خا صی خراب ہے کمزوری بھی ہے گھر میں تو اس کے لئے علاج کا تسلسل ممکن نہیں ہو گا آپ اجا زت دیں تو ہم اس مریض کا بستر ہسپتال کے با ہر با ئونڈری وال کے اندر لگا دیتے ہیں۔

ڈاکٹرز بھی روز دیکھ لیا کریں گے اور دوائی کا بھی نا غہ نہیں ہو گا ۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے آپ اس مریض کا بستر با ہر لگا دیں مجھے کو ئی اعتراض نہیں ڈاکٹر اور سٹاف اس کی خبر گیری کرتے رہیں گے ، اس وقت نہ تو ہسپتال میں مسجد تعمیر ہو ئی تھی اور نہ ہی نر سنگ سکول بنا تھا ہسپتال کے شمالی گیٹ سے ایک کچہ را ستہ تھا جو ہسپتال کا لو نی میں جا نے کے لئے استعمال ہو تا تھا اس پگڈنڈی پر شیشم کے درخت ہوا کرتے تھے گر میوں کے دن تھے اجازت ملتے ہی ہم نے اس کا بستر شیشم کے درخت کی چھا ئوںتلے لگا دیا ڈاکٹر صاحب فر ما نے لگے کہ علاج کے لئے صرف دوائی کا فی نہیں اسے اچھی خوراک بھی چا ہئیے ۔کم ازکم آ دھا کلو دودھ ، دو انڈے اور چھو ٹے گو شت کا سالن اور فروٹ اس کے علا وہ۔

خا صا بڑا چیلنج تھا میں نے زبیر شفیع کے توسط ان کی والدہ محترمہ بیگم ایس ڈی او سے را بطہ کیا میری ساری کتھا سن کر کہنے لگیں کہ کیوں نہیں دودھ اور انڈے بھی ہمارے ذمے،نا شتہ اور کھا نا بھی گھر سے جا یا کرے گا ۔ ایسا مسئلہ حل ہوا کہ چند ہی ہفتوں کے بعد ٹی بی کا یہ مریض مکمل صحت یاب ہو کر ایک بار پھر مزدوری کر نے کے قا بل ہو گیا ۔ یہاں ایک اور بات بتا تا چلوں میں صبح شام اسے دیکھنے اور ملنے ہسپتال جا تا میں جب بھی جا تا اس کے پا س فروٹ وافر مقدار میں مو جود ہو تے کئی دنوں تک مجھے سمجھ نہیں آ ئی کہ یہ فروٹ کہاں سے آتا ہے پھر ایک دن پتہ چلا کہ اس پرا ئیویٹ مریض کو فروٹ ہسپتال کی میڈیم نسیم سرور ،دیگر نر سز اور سٹاف مہیا کر تے ہیں صحت یا بی کے بعد منصب کئی برس زندہ رہا جب بھی ملتا دعا ئوں کے ٹو کرے مجھے دیتا اس کی بیوی گو نگی تھی وہ بھی ایک عرصے تک میرے گھر آ تی رہی جب بھی آ تی نہ سمجھ آ نے والی زبان میں چیخ چیخ کر ہاتھ ا ٹھا کر اتنی دعا ئیں دیتی کہ دعا ئیں دیتے دیتے بسا اوقات اس کی آ نکھوں میں آ نسو آ جا تے میرا ما تھا چو متی میرے بچوں کا ما تھا چو متی ۔ شا ئد یہ وہی گو نگی دعا ئیں ہی ہیںجو زند گی کے اس مشکل سفر میں میرا زاد راہ بنی ہیں۔

Anjum Sehrai

Anjum Sehrai

تحریر : انجم صحرائی