حق خودارادیت چہ معنی وارد؟

Kashmir

Kashmir

تحریر : انجینئر خالد پرویز بٹ
جہالت غلامی کی نشانی ہے کشمیریوں کی جہالت سے بھی زمانے نے کیا کیا فوائد حاصل کیے ہیں اس وقت کشمیر کے لوگ تین حصوں میں بٹے ہوئے ہیں ایک گروہ وہ ہے جو کشمیر کو پاکستان کا حصہ سمجھتا ہے اور آزادی کیلئے بھی پاکستان کی طرف منہ اٹھائے دیکھ رہا ہے دوسرا طبقہ مقبوضہ کشمیر میں ہے اور کسی مجبوری یا کسی وجہ سے کشمیر کو بھارت کا حصہ سمجھتا ہے مگر ایک طبقہ تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ نظریہ رکھتا ہے کہ کشمیرنہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے نہ پاکستان کی جاگیر بلکہ یہ ایک آزاد مملکت ہونی چاہیے یعنی آزادی کا مطالبہ کرنے والا صرف یہی ایک طبقہ ہے۔

اب جہالت کے پردے آہستہ آہستہ کافور ہورہے ہیں اور آزادی کا جذبہ ابھر رہا ہے اس تجزیے کا مقصد یہ ہے کہ کشمیریوں کے “حق خودارادیت ” Right of self determinationکو1948میں ہی تسلیم کر لیا گیا تھا اس حق کو اقوام متحدہ سمیت بھارت اور پاکستان نے بھی تسلیم کیا تھا اس سلسلے میں دونوں ممالک کے متعدد بیانات موجود ہیں پاکستان کیطرف سے سرکاری طور پر ابھی تک حق خودارادیت کی حمایت کی جاتی ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ عمل اس کے بر عکس کیا جاتاہے۔اقوام متحدہ میں آج تک یہ لفظ “حق خودارادیت”جن معنوںمیں استعمال ہو اہے وہ کسی قوم کی مکمل آزادی کیلئے استعمال ہوا ہے چنانچہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کشمیریوں کے “حق خودارادیت “کے تسلیم کرنے کے بعد دونوں ممالک اپنی اپنی افواج واپس بلا لیتے اور کشمیریوں کو آزادانہ فیصلے کا اختیار دیا جاتا مگر ایسا نہ ہوا بلکہ کشمیریوں کی نادانی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان،بھارت اور ان کے کاسہ لیسوں نے حق خودارادیت کی یہ تشریح کی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک ملک کیساتھ الحاق کیا جائے بھارت نے کشمیریوں کی غلامی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر سے نکلنے سے انکار کر دیا جبکہ پاکستان نے کشمیر سے نکلنے کا انکار اس وقت تو نہ کیا مگر اب اقرار کے آثار بھی نظر نہیں آتے۔

Indian Army

Indian Army

کشمیریوں کیلئے یہ کس قدر بد قسمتی کی بات ہے کہ دنیا میں جب کسی دوسری قوم کا حق خودارادیت تسلیم کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قوم اپنی مرضی سے اپنی حیثیت کے بارے میں فیصلے کرے مگر یہی خودارادیت کشمیری عوام کیلئے نہ صرف دو راستوں تک محدود کر دیا جاتا ہے کہ صرف پاکستان یا بھارت سے الحاق ۔حالانکہ سیدھی سی بات ہے کہ حق خودارادیت پر کوئی بھی پابندی لگائی جائے گی تو اسے “حق خودارادیت “نہیں کہا جا سکے گا۔

جب ہم بھارت و پاکستان کے کردار کو دیکھتے ہیں تو ان دونوں ممالک نے اقوام متحدہ کے فیصلے کو تو 1948میں ہی تسلیم کر لیا تھا مگر 1948سے ہی دونوں ممالک کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنانے کیلئے ہلکان ہورہے ہیں بھارت کا واویلا سمجھ میںآنے والاہے مگر پاکستان کا کردار سمجھ سے بالاتر ہے یہ ملک سچائی اور انصاف کے اصولوں کیلئے معرض وجود میں آیا تھا مگر معلوم نہیں کشمیر میںکون سے چاشنی ہے جودونوں ممالک ہر اصول بالائے طاق رکھ کر کشمیر کیلئے لڑ رہے ہیں۔

سابق صدر آزادکشمیر کے۔ایچ خورشید لکھتے ہیں :۔ “پھر ایک بات اور بھی ہے اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ کشمیر آئینی طور پر 1947میں پاکستان حصہ بن گیا تھا تو پھر وہاں حق خودارادیت یا رائے شماری کا سوال ہی پیدا نہیںہونا چاہیے تھا کیونکہ اس صورت میںہمارا نظریہ یہ ہوتا کہ کشمیر بھی ویسا ہی بھارتی مقبوضہ علاقہ ہے جیسے 1971میں شکر گڑھ کے کچھ حصے۔

Indian Army in Kashmir

Indian Army in Kashmir

مگر یہ حقیقت نہیں ہے اور شکر گڑھ کے کچھ حصے یا سندھ میں بھارتی مقبوضہ علاقے کی پوزیشن بالکل مختلف ہے اور ان علاقوں میں رائے شماری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پاکستان کو اس بات کا حق ہے کہ ان علاقوں کو بزور شمشیر حاصل کرلے لیکن کشمیر کو بزور شمشیر حاصل کرلینے سے بھی مسلہ حل نہی ہو گا ایک بار مستقبل کے تعلقات یا ہمسایہ ملکوں سے مراسم کا فیصلہ وہاں کے لوگوں کی خواہشات اور مرضی کیمطابق طے کرنا پڑے گا۔

تحریر : انجینئر خالد پرویز بٹ
صدر کشمیر فریڈم موومنٹ