وہ ہم سے فضول کی باتوں پہ بس لڑا نہ کرے ہزار زہر ہو دل میں ، بیزار ہوا نہ کر ے کہاں کی جیت ؟ قصہ ّ ہے فقظ ذاتوں کا شکست یار کو، لفظوں میں بھی بیاں نہ کرے میں اُس کی یاد کی یادوں سے ہمکلام رہوں گھری ہوں بھیڑ میں بھی تو،مجھے تنہا نہ کرے ایک عالم کو تم نے دیوانہ بنا رکھا ہے بار بار یہ شکوہ ہم سے کیا نہ کرے میرے خیال پہ تسلط ہے اک زمانے کا وفائے زیست کو بے وفا کہا نہ کرے زندگی باندھ رکھی ہے بس ایک وعدہ فردا سے یہ اور بات کہ زندگی و فانہ کر ے