تحریر: سید انور محمود آج کی پیپلز پارٹی جو زرداری خاندان کی ملکیت بن چکی ہے اُسکا ذوالفقار علی بھٹو سے کوئی تعلق نہیں۔ پیپلز پارٹی روٹی کپڑااور مکان کا نعرہ لگاکرماضی کے چار انتخابات میں سے دو مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت اور ایک مرتبہ بینظیربھٹو کی شہادت پر عوام کے ووٹ حاصل کرکے اقتدارمیں آچکی ہے، 2013ء کے انتخابات میں مرکز میں اپنی حکومت کھوچکی ہے اورصرف صوبہ سندھ کے علاوہ باقی صوبوں کے عوام نے بھی اُسکو مسترد کردیا، مسترد کرنے کی وجہ تھی بیڈگورنس، کرپشن اور عوام کے مسائل کا حل نہ ہونا ہے۔
اس سے پہلے کے گذشتہ پانچ سالہ 2008ء سے 2013ء کے دور حکمرانی میں پیپلز پارٹی نے جو بدعنوانیوں کے ریکارڈ قائم کیے ہیں اُسکی شاید دنیا میں مثال ملنی مشکل ہے، کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں آصف زرداری یا اُنکے چیلوں نے لوٹ مار نہ کی ہو، جسکا اثر سیدھا سیدھا عوام پر پڑااور پاکستان میں غربت اپنے پاوں پھیلاتی چلی گی۔ آج پاکستان کی65 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے۔عام لوگوں کے پاس کھانے کے لئے روٹی ہے نہ ہی پینے کا صاف پانی اورنہ ہی روزگار، بجلی کے بحران کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ میں بے پناہ اضافہ ہوا، جس کے باعث عوام پریشان اور ملکی معیشت تباہ ہوگی ہے، پیپلز پارٹی کےکرپشن نے ملک کو تباہ برباد کردیا ہے۔ ایوان صدرسے “باعزت” رخصت کے دعوےدار آصف زرداری کے بارئے میں پاکستانی عوام کا کہنا ہے کہ”آصف زرداری پر ایمانداری کا کوئی داغ نہیں ہے”۔
صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت 2008ء سے ابتک قائم ہے اور یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت نہ ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت بنی ہے۔ اسے آپ سندھ کے عوام کی بدقسمتی بھی کہہ سکتے ہیں۔ سید قائم علی شاہ جو گذشتہ ساڑھے چھ سال سے وزیراعلیٰ سندھ کے عہدئے پر فائز ہیں، انہوں نے اوراُنکے چیلوں نے سندھ میں جو کرپشن، بدانتظامی اور لوٹ مار مچائی ہوئی ہے اُس کےلیے صرف تھرپارکر کی بدترین صورتحال دیکھ کرسندھ حکومت کی بدعنوانیوں کا آسانی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ گذشتہ سال 2014ء کا شاید ہی کوئی ایسا دن گذرا ہوگا جب تھرپارکر سے بچوں کی موت کی خبر نہ آئی ہو۔2015ءکےپہلے ہفتے میں ہی 33 بچے لقمہ اجل بن گے تھے جبکہ رواں ماہ میں ابتک 43 بچے موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔
ضلع تھرپارکر کے مٹھی ، ڈیپلو ، چھاچھرو، ننگرپارکر سمیت دیگر چھوٹے بڑے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور عملے کا وجود ہی نہیں ہے جبکہ مختلف اسپتالوں میں زیر علاج مریضوں کا کہنا ہے کہ ان کو ادویات بھی نہیں دی جاتیں ۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے کچھ عرصے پہلے ان مرنے والے بچوں کے بارئے میں کہا تھا کہ ْیہ بچے بھوک سے نہیں، غربت سے مرتے ہیںْ۔ شاید شاہ جی صیح کہہ رہے تھے کیونکہ پیدایش سے پہلے نو ماہ تک جس ماں کی کوکھ میں یہ بچہ رہا ، اُس حاملہ عورت کو اس درمیان میں اچھی خوراک چاہیے ہوتی ہے۔
Poverty
اس حاملہ کو اچھی خوراک تو دور کی بات ہے شاہ جی کے زمانے میں جو گندم اُس عورت کو ملی اس میں مٹی کی مقدار اور گندم کی مقداربرابر برابرتھیں۔ صاف پانی کی ہزاروں بوتلیں بغیر تقسیم کیے گوداموں کی زینت بنی رہیں مگر تھرواسیوں کونصیب نہ ہویں۔ اچھی خوراک کی جگہ اُس حاملہ عورت کو ایک چیز ہرروز نصیب ہوتی ہے ورزش، تین میل دور جاکر اپنا گھڑا ناقص پانی سے بھرنا، اسے سر پر اٹھانا اور واپس گھر آکر اپنے اور اپنے بچوں کے لیے مٹی ملی گندم کی روٹیاں بنانا ہی اُسکی ورزش ہوتی ہے۔ واقعی شاہ جی کی بات صیح ہے کہ تھر میں مرنے وال بچے بھوک سے نہیں غربت سے مرتے ہیں اوراس غربت کے اصل زمہ دار قائم علی شاہ ، سندھ کے وزرا اور سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ سرکاری افسران کی سنگدلی، بے حسی، بدانتظامی، کرپشن اور نا اہلی ہے۔
صحرائے تھر کول اور نگرپارکرکی پہاڑیوں میں مدفن معدنیات سے مالا مال ہے۔ جو نہ صرف تھر بلکہ صوبہ سندھ اور پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق صحرائے تھر میں نو ہزار ایک سو مربع کلو میٹر پر مشتمل کوئلہ کی کھدائی کے لئے دوبلاکس میں کام شروع کر دیا گیا ہے۔ کام کرنے والی کمپنیوں نے مقامی نوجوانوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔سیکورٹی گارڈ، ڈرائیور، باورچی، سول انجینئر ، ایڈمن وغیر ہ کی نشستوں پر بھی غیر مقامی افراد کی تعیناتی کی جا چکی ہے جس کی وجہ سے اسلام کوٹ،نگرپارکر ،مٹھی،چھاچھرو،ڈیپلو ،ڈاہلی تحصیلوں کے سیکڑوں گریجو یٹ، ماسٹرز کیے ہوئے نوجوان بیروزگار ہیں اور مناسب روزگار کے لیے پریشان ہیں اور کمپنیوں کے آفیسراُن کی سی وی لینے کے لیے بھی تیار نہیں۔
تھر پارکر کے بیروزگارنوجوانوں کا کہنا ہے کہ دیگر اضلاع اور صوبو ں کے نوجوانوں کو بغیر کسی پالیسی کے بھرتی کیا جا رہا ہے جو ہمارے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔دوسری جانب تھر پارکر کے منتخب قومی و صوبائی حکومت کے نمائندگان نے بھی تھری نوجوانوں کو روزگار دلانے اور کمپنیوں سے بات چیت کرنے کے بجائے مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اب ان تھری نوجوانوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت بغیر مک مکاہ کے کچھ نہیں کرتی اور یہ جو قومی و صوبائی حکومت کے نمائندگان خاموش ہیں وہ شاہ جی کی قیادت میں مک مکاہ کرچکے ہونگے۔
صحرائے تھر میں ذمہ داران ،افسران اور سیاسی شخصیات کے آپس کے گٹھ جوڑ کی بنا پر حکومت کی طرف سے مختلف اکاونٹ میں آنے والی رقوم ہڑپ کرلی گیں۔ تھر کی چھ تحصیلوں کے اندر صحت کی سہولتوں کا بدترین فقدان ہے ۔حکومت سندھ کی جانب سے ادویات کی خریداری کے لئے مختص جو 50 ملین روپے دیئے گئے اس میں سے 21.4ملین روپے کا ادویات کی بجائے فرنیچر خریدا گیا، جس کی جانچ پڑتال ہورہی ہے۔پانچ موبائل ڈسپنسریز کی عوامی خدمات میں کارکردگی کی بجائے ڈپٹی کمشنر تھراسے ذاتی اے ۔سی کار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ ان چھ تحصیلوں میں مختلف محکمہ جات کی افسران اور ملازمین کی تعداد دس ہزار سے بھی زائد ہے۔ جو پاکستان کے غریب ترین ضلع کی مالیات پر بھاری بوجھ ثابت ہورہے ہیں کیونکہ ان کی بے حسی اور غیر انسانی طرزِ عمل نے عوام کو محرومیوں کے سوا کچھ نہیں دیا ۔
پاکستان کو ایک غریب ملک سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے چاروں صوبوں کی باگ دوڑ کروڑ پتی وزرائے اعلیٰ کے ہاتھوں میں ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ کی کل کائنات ایک کروڑ93 لاکھ روپے ہے اور اُن کے پاس ذاتی گاڑی بھی نہیں ہے۔ وزیراعلی سندھ جس بیچارئے کے پاس اپنی کار بھی نہیں ہےمیڈیا کے شور مچانے پر بارہ نومبر 2014ء کو جب سندھ کابینہ کے ارکان کے ہمراہ تھر پہنچے تو اُنکے قافلے اتنے طویل تھے کہ تھر والے گاڑیاں ہی گنتے رہ گئے۔ بھوکوں پیاسوں کا دیس تھر، مجبوریوں، محرومیوں کا دیس تھر اور اس پسماندہ تھر میں وزیر اعلیٰ سندھ کے جاہ و جلال نے محل شہنشاہوں کے ٹھاٹ باٹ کی یاد دلادی تھی۔ 30 پولیس موبائل، چالیس لینڈ کروزرز اور ڈبل کیبن گاڑیوں سمیت 92 گاڑیوں کا شاہانہ قافلہ کروفر کے ساتھ دربار ہال مٹھی پہنچا، جہاں ایئر کنڈیشنڈ ہال کے بند دروازوں کے پیچھے بھوکے عوام کی قسمت کے فیصلے کیے گئے اور عوام اسی ہال کے دروازے پر پانی پانی پکارتے رہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اجلاس میں شرکت کے لیے آنے جانے والی گاڑیوں کے پیٹرول پر جتنی رقم خرچ ہوئی اس سے سیکڑوں بھوکے خاندانوں کی قسمت بدلی جاسکتی تھی۔ مقامی افراد کی اس بات کو مان لیا جاتا تو پھر شاہ جی کو جاہ و جلال دکھانے کا موقعہ کیسے ملتا۔
سات جنوری کوسابق صدر آصف زرداری نے تھر پارکر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی میں ایشیا کے سب سے بڑے صاف میٹھے پانی کے سولر آر او پلانٹ کا افتتاح کردیا۔ 94کروڑ 20لاکھ کی لاگت سے تیار ہونے والے آر او پلانٹ منصوبے سے ڈیڑھ لاکھ افراد کو فائدہ ہوگا۔ جب آصف زرداری اس پلانٹ کا افتتاح کرنے پہنچے تو مٹھی میں آصف زرداری کے شاہی قافلے نے دھاک بٹھا دی۔ 36 گاڑیوں کے جلوس میں آنے والے سابق صدر 52 گاڑیوں کے ہجوم میں واپس ہیلی پیڈ گئے مگر اسپتال میں مرنے والے بچوں کے لواحقین ان کی راہ تکتے رہے۔پولیس الرٹ،انتظامیہ الرٹ،ہوشیار ،خبردار ،شاہی سواری آ رہی ہے،جی ہاں تھر میں قحط سالی کے مارے مکینوں نے ایک مرتبہ پھر شاہی جلوہ دیکھا۔پی پی پی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زردای تھر میں ایشیا کے سب سے بڑے واٹر فلٹر پلانٹ کا افتتاح کرنے پہنچے تو قافلہ کیسے چھوٹا ہو سکتا ہے، ہیلی ہیڈ سے پلانٹ تک 36گاڑیوں کے جلوے میں آئے اور واپسی میں ان کی روانگی 52گاڑیوں کے جلوس میں ہوئی، امید یہ بھی تھی کہ وہ سول اسپتال میں غذائی قلت سے سسکتے بچوں کی عیادت بھی کریں گے، تنگیٔ وقت سے یہ تو نہ ہوا مگر اسپتال کی قسمت ضرور بدل گئی۔ صفائی کا عملہ نا صرف اسپتال کے فرش بلکہ دیواروں پہ جمی سالوں کی گرد رگڑ رگڑ کر اتارتا رہا اور گلی محلوں کی صفائی بھی ہوتی رہی۔
افسوس کہ صحرائے تھر کی موجودہ صورتحال پر گورننس کے نقطہ نظر سے ابتک کسی نے بھی نہیں سوچا کہ اس علاقے کی سسکتی ہوئی زندگی کو موت کے منہ میں جانے والی جانوں اور افلاس کی بنا پر عبرت ناک انجام تک پہنچنے والے انسانوں کو کس طرح بہتر معیار زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ جہاں حکمراں خود کرپٹ ہوں وہاں عوام کو کبھی بھی یہ امید نہیں رکھنی چاہیئے کہ کرپٹ حکمرانوں کے ہوتے ہوئے اُن کے مسائل ختم ہوجاینگے۔ بلاول زرداری ٹھیک کہتا ہےکہ”سندھ نہ ڈیسوں” کیونکہ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کےلیے اب تو اپنی لوٹ مار کےلیے صرف سندھ بچاہے، لہذا سندھ کے عوام کی مصیبتیں کم از کم جبتک تو برقرار رہنی ہیں جب تک پیپلزپارٹی گدھ بنکر سندھ پر مسلط ہے۔