شاہکار

Trees

Trees

تحریر:بدر سرحدی

دن کے راہی کا ابھی سفر باقی تھا کہ مغرب کی طرف سے سیاہ بادل اُٹھے اور ساتھ ہی یخ ہوائیں بھی چلنے لگیں اور پھر یکا یک ہر سو تاریکی چھا گئی ہوأ میں نمی اور خنکی بڑہتی جا رہی تھی ۔گو ابھی تک میدانی علاقوں میں موسم خوشگوار تھا ،لیکن یہاں موسم وقت سے پہلے ہی کافی سرد ہو چکا تھا ،درختوں پر چہچہانے والے پرندیبھی خاموہش ہو گئے تھے مال پر سیر کرنے والے لوگ تیز تیز قدموں سے کمین گاہوں کی طرف بڑھ رہے تھے اس وقت ایک نوجوان موسم کے حالات سے بے خبر ہاف کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے تھکے تھکے قدموں سے خراما خراما چل رہا تھا اُس کے بکھرے بال اسکی ذہنی کیفیت کے غماز تھے ،موسم کی شدت کا اس وقت احساس ہوأ جب ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی جو یک دم موسلا دھار بارش میں بدل گئی

ہوأ مزید تیز ہوگئی تھی،چیڑ کے درختوں سے عجیب قسم کی آوازیں پیدا ہونے لگیں ،نوجوان جو ابھی تک اپنے حال میں مست چل رہا تھا آس پاس دیکھتا ہوأ تیز قدم اُٹھانے پر مجبور ہوگیا ۔چند ہی قدم چل کر تیز بارش اور ہوأ نے اس کے قدم روک لئے تو وہ ساتھ ایک کاٹج میںداخل ہو گیا ،چند لمحے برآمدے میں رک کر بارش کا نظارہ کرتا دور خلاؤں میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا ،اور پھر کچھ سوچ کر گنٹی بجائے بغیر ہی دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گیا،کمرے میں ہلکی سی آگ روشن تھی وسیم کتاب لئے مطالع میں مصروف تھا ،جب دروازہ کھلا ،اس نے دروازے کی طرف دیکھا ایک اجنبی چہرہ دکھائی دیا جو وہیں رک گیا ،وسیم نے اسے بغور دیکھا اور پوچھا ،آپ کس سے ملنا چاہتے ہیں ،میں نے پہچانا نہیں نوارد اجنبی !۔۔۔۔میں …..!وہ رک گیا …اور چند لمحے خاموش رہنے کے بعد آنے والا نوجوان خاموشی سے مڑا اور باہر نکل گیا

،وہ کافی بھیگ چکا تھا اور موسم بھی کافی حد تک یخ ہو چکا تھا مگر ……جب وہ خاموشی سے کوئی جواب دئے بغیر نکل گیا تو وسیم کی حالت عجیب سی ہو گئی وہ فورا اُٹھا باہر آیا نگر وہ اجنبی جا چکا تھا اور اب بھی چھاگلو پانی برس رہا تھا رعد کی کڑک اور بجلی کی کوند عجیب خوفناک سماء تھا ،وسیم برآمدے میں کھڑا سوچ رہا تھا ،کہ یہ شخص کون تھا ؟کیوں آیا؟اور کچھ کہے بغیر ہی واپس چلا گیا ،اور اب یہی سوال اسے پریشان کرنے لگا ،وہ کون تھا ؟ کیوں آیا؟اس کی نظروں سے ایسامعلوم ہوتا تھاکہ وہ وقتی پناہ کا متلاشی ہے کوئی خطرناک شخص نہیں ہو سکتا تھا ۔بارش تھم چکی تھی اور وہ قدم قدم چلتا ہوأ سڑک پر آیا ،سڑک پر آمد و رفت رک گئی تھی ہر سو مکمل خاموشی تھی سیر و تفریح کے لئے آئے ہوئے لوگ اپنے اپنے گھروں میں جا چھپے ،وسیم تھوڑی دیر ٹہلنے کے بعد واپس اپنے کمرے میں آگیا اورپھرکتاب کھول کر پڑھنے لگا مگربار بار آنے والے اجنبی شخص کا چہرہ سامنے آجاتا جس سے پانی نچڑ رہا تھا اور وسیم کی حالت عجیب ہو جاتی

اسی وقت ملازم نے آکر کہا صاحب جی کھانا تیار ہے ،وسیم بھی سیر و تفریح کے لئے گزشتہ دو ہفتوں سے یہاں قیام پذیر تھا کھانا کھاتے ہوئے بھی اجنبی چہرہ اسکے سامنے آتا اور پریشان ہو جاتامگر کیوں ؟کھانے سے فارغ ہوأ تو پھر کتاب کھول لی مگر کتاب پر پھر وہی بھیگا ہوأ چہرہ ہر صفحہ پر موجود تھا اسی طرح کافی رات گزر گئی اور پتہ نہیں کب کروٹیں بدلتے نیند نے اُسے اپنی آغوش میں لے لیا،صبح اُٹھا تو رات کا واقع بھولی بسری داستان تھا ،رفتہ رفتہ یہ واقع اس کے حافظے سے محو ہوتا چلا ،۔اور اگلے دن مو سم سہانا تھا سیر و تفریح کے لئے آنے والے اس سہانی شام کا لطف اٹھانے کے لئے مال پر سیر کے لئے نکلے چہل پہل تھی ،وسیم بھی ٹہلتا ٹہلتا رنگ برنگے منظر دیکھتا ہوأ ایک ریستوران میں داخل ہوأ

دفعتااُس کے قدم رک گئے سامنے ہی کرسی پر بیٹھا ایک نوجوان خلا میں کچھ تلاش کر رہا تھا سامنے پڑے کافی کے کپ سے بھاپ کے آخری مرغولے اُٹھ رہے تھے ،وسیم نے غور سے اُس کی طرف دیکھا اور پہچانتے ہوئے آہستہ آہستہ اُس کے قریب پہنچا ،کرسی پر بیٹھتے ہوئے اُسے مخاطب کیا ،بھائی صاحب!وہ چونکا جیسے گہرے خواب سے جاگا ہو ،اُس نے وسیم کی طرف دیکھا اور خندہ پیشانی سے پوچھا ؛ فرمائے …؟ وسیم نے پھر اُسی انداز میں دیکھا اور وہ مسکرا دیا ؛ جناب آپ کیا جاننا چاہتے ہیں

،لیکن ٹھہرئے ”اس نے ویٹرکو آواز دی اور کہا ایک اور گرم گرم کافی !وسیم نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ‘میں جاننا چاہووںگا کہ آپ …..اس نے وسیم کی بات کاٹے ہوئے کہا،’جی جناب کل شام اچانک زوردار بارش کے باعث میں کافی بھیگ چکا تھا تھوڑی دیرکے لئے بارش کی وجہ س ے ا پ کے کمرے میں پناہ کے لئے پہنچا اور آپ نے یکا یک تین سوال کئے جنکا جواب تو تھا مگر میں فوری طور پر کوئی جواب نہ دے سکا اور …..!”وسیم نے کہا لیکن بھائی کچھ بھی ہو تو شناخت تو ہونا چاہئے …..!دیکھئے صاحب میرا نام نعمان ہے اور…..!وسیم نے جھٹ سے کہا ،میرا نام وسیم ہے” اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے نعمان نے کہا ؛وسیم صاحب ؛کسی انسان کو انسان سے شناخت کرانے اور پہچان کی بھی ضرورت نہیں ،ظاہر ہے بحثیت انسان آپ کے پاس آیا اور وہ بھی مختصر وقت کے لئے آپ دیکھ رہے تھے کے میں بھیک چکا ہوں اور موسم بھی کافی سرد تھا

،اس وقت مجھے بارش سے بچنے کے لئے وقتی پناہ کی ضروت تھی اور میں آپ کے پاس گیا آپ کو شناخت کی ضرورت تھی جو سر دست میں شناخت کرانے سے قاصر تھا اور ……..!!وسیم مگر ایسے میں ایک دم کچھ کہے سنے بغیر واپس ہونا بھی….!نعمان؛ درست ہوگا مگر میرے پاس کچھ بھی نہ تھا کہ میں اپنی شناخت کراتا میری شناخت میرا انسان ہونا ہی کافی تھااور پھر….!وسیم؛ یہ بھی درست مگر اجنبیت میں کسی نہ کسی حوالے سے پہچان کرانا بھی ضروری ہوتا ہے ،یہ پتہ نہیں آپ کس دور کا حوالہ دے رہے ہیں میرے نوجوان دوست ؛۔تاہم میں اپنے اس روئے پر نادم ہوں ،میں اُسی وقت اُٹھ کر باہر آیا کہ آپ کو بلاؤں مگر گویا آپ تو ہوأ کے دوش غائب ہو چکے تھے ؛۔ نعمان ،میں نے عرض کیا ناں کہ میں طالب علم ہوں اور کچھ دنوں کے لئے یہاں دامن کوہ میں مناظر فطرت کی نقاشی کے لئے یہاں ٹھہرا ہوں ،میں اِن حُسین تتلیوں کو جو شام کو مال پر اُڑتی دکھائی دیتی ہیں

Season

Season

دیکھ اور پڑھ رہا تھا کہ اچانک موسم بدلا اور پھر …. !وسیم ؛تو آپ ،مصور ہیں ‘۔نعمان ،مصور تو ابھی نہیں بن پایا البتہ مصور بننے کی شدید خواہش کے پیش نظر کوشش کر رہا ہوں ؛۔اِس وقت تک موسم کافی سرد ہو چکا تھا اور ریستوران بھی خالی ہو چکا تھا کہ ویٹر نے آکر اُنہیں احساس دلایا کہ جناب ١٢ بج چکے ہیں ۔ وسیم نے مسکراتے ہوئے نعمان کی طرف دیکھا اور کہا بڑی خوشگوار ملاقات تھی ،ایسا معلوم ہوتا ہے ہم برسوں کے دوست ہیں ۔؛ جب ریستوران سے باہر نکلے تب پتہ چلا رات حد درجہ سرد ہو چکی ہے اس لئے رات کا باقی حصہ میرے ساتھ ہی ٹھہر جانا ،چنانچہ نعمان اور وسیم دونوں ساتھ ساتھ چلتے باتیں کرتے کاٹج پہنچے ،اور پھر بستر پڑے بھی باتیں ہوتی رہیں اور پھر نیند کی آغوش میں چلے گئے ،اگلی صبح ٩ بجے کے قریب اُٹھے ،مل کر ناشتہ کیا ”نعمان نے اُٹھتے ہوئے کہا اچھا دوست پھر ملیں گے

وااسلام اور چلا گیا ،اگلے دن جب نعمان نہ آیا ،تو پھر وسیم اُسکے بتائے ہوئے پتہ پر وہاں پہنچا نعمان نے جب قدموں کی چاپ سُنی تو دیکھے بغیر ہی خوش آمدید کہا اور بدستور کینوس پر برش چلاتا رہا ۔وسیم نے کمرے کا جائزہ لیا کچھ مکمل خاکے جو دیواروں کے ساتھ آویزاں تھے ،کچھ نا مکمل اور کچھ ادھر اُدھر بکھرے پڑے تھے مگر جس چیز نے وسیم کو ششدر کیا ؛وہ تھا اس فنکا ر کی عورت کے خلاف شدید نفرت اور انتقام اُس کی تمام مکمل اور نا مکمل تصاویر میں ایک ہی بات واضح تھی کہ اُس نے عورت کو جس بھی زاویہ سے پیش کیا اس میں اُس کی تذلیل کا عنصر نمایاں تھا،اگر یہ کہا جائے کہ وہ نوک برش سے عورت سے کوئی بڑا انتقام لے رہا ہے تو یہی درست ہوگا ،اسی حیرانگی سے وسیم نے کہنا شروع کیا ،نعمان ؛یار تم کتنے اچھے فنکار ہو مگر تم نے اپنے اس عظیم فن کو کس سمت چلایا ہے

اپنے خیال اور برش سے قوم کی سہی سمت راہنمائی کرو ….؛نعمان ،اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا بھائی تھوڑی دیر کے لئے …..؛بابا!اِس نے اپنے ملازم کو آواز دی ،یہ ہمارے دوست وسیم تشریف لائے ہیں اِن کی تواضیع کریں ،میرا خیال ہے چائے ہی بنا لاؤ اور ساتھ میں کچھ کھانے کو بھی …نعمان نے برش رکھ دیا اور بیٹھ گیا ،وسیم نے پھر بات شروع کی کہ تُم نے اپنے فن سے …..نعمان نے پھر بات کاٹ دی اور کھانے پینے چائے کی طرف موڑ دی ،کیو نکہ وہ وسیم کے سوال کا جواب دینا نیں چاہتا تھا ،مگر وسیم کے ذہن میں تو اِس وقت یہی ایک سوال تھا جو اُسے پریشان کر رہا تھا ؛مگر اُس نے بار بار روکنے کی کوشش کی اور آخر نعمان نے کہا دیکھئے وسیم بھائی کسی مناسب وقت پر آپ کے سوال کا جواب دونگا ،جبکہ عورت کے ساتھ میری کوئی زاتی رنجش نہیں کوئی بغض بھی نہیں رکھتا جبکہ عورت ہی قدرت کا ظیم ترین عطیہ ہے

رنگ کائنات اس سے حُسین سے حُسین تر ہوتے ہیں یہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں یہ ارد گرد کے ماحول کا اثر ہے اور جو کچھ فنکار دبیکھ رہا ہوتا ہے اسے ہی اپنے قلم سے کاغذ اور کینوس پر منتقل کر دیتا ہے…خیر چھوڑواور کوئی بات کرو…..” دیر تک یہی موضوع زیربحث رہا ،تب وسیم رخصت ہوگیا ،اگلے دو تین دن نعمان نہ ملا تو وسیم ایک بار پھر اُسے دیکھنے کے لئے آیا کہ وسیم بھی اب واپس جانے کے لئے تیاری کر رہا تھا ۔جب وسیم وہاں پہنچا تو نعمان سے خالی گھر نے استقبال کیا ملازم سے معلوم کیا یہ نعمان کہاں گیا،بابا جو یہاں کا مستقل رہائشی تھا نے بتایا بابو جی نعمان بڑا زندہ دل انسان ہے گزشتہ دو برسوں سے مسلسل یہاں آرا ہے ،مگر آج صبح ہی اچانک سامان باندھ کر آئندہ کے لئے کچھ بتائے بغیر چلا گیا ….وسیم چند ثانئیے خلا میں گھورتا رہا اور پھر بوجھل قدموں سے واپس مُڑا اب اس کا دل بھی اچاٹ تھا نہ جانے یوں نعمان کے چلے جانے کو محسوس کر رہا تھا گویا برسوں کا عظیم دوست بچھڑ گیا ہے

وسیم نے بھی اگلے دن واپسی کا سفر شروع کیا ،گو کہ وسیم کاروباری شخص تھا تو بھی وہ ایک سیلانی روح تھی اور سیر و سیاحت کے لئے وقت نکال لیتا تھا حالانکہ کاروباری لوگوں کے پاس وقت کی بہت کمی ہوتی ہے تاہم وسیم نے اپنے اور دیگر شہرونں میں نعمان کی تلاش جاری رکھی مگر دوبارا اُس سے ملاقات نہ ہو سکی پھر نعمان کے ساتھ ملاقات اک خواب بن گئی ،اگرچہ اِس ملاقات کو دو برس سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا تھا مگر نعمان اور وسیم کا کہیں آمنا سامنا نہ ہوأ ،اور رفتہ رفتہ نعمان کی یاد اور تصور وسیم کے ذہن سے محو ہوتی چلی گئی ،چونکہ وسیم سیاحت کا شوقین تھا ،کئی برسوں کے بعد اس مرتبہ اس نے چند دنوں کے لئے یورپ جانے کا پروگرام بنایا ،اور اسطرح اگلے چند دنوں میں پروگرام کے مطابق سویٹرزلینڈ پہنچ گیا

خوبصورت ماحول ،قدرتی مناظر اور دیگر تفریحات میں خوب مشغول رہا ،ایک صبح وہ ناشتہ کی میز پر بیٹھا ساتھ ہی اخبار بھی دیکھ رہا تھا ،کہ اچانک وہ چونکا لا شعور کے کسی گوشے سے نعمان کا تصور نکل کر اخبار کے صفحہ پر پھیل گیا ،خبر تھی کی اسی شام کو ایک تصویری نمائش ہورہی ہے جس میںنعمان کی بنائی پینٹنگ کی نمائش ہوگی اشتہار کے نیچے نعمان کا پتہ بھی درج تھا وسیم مارے خوشی کے اچھل پڑا ناشتہ وہیں میز پر چھوڑا اخبار ہاتھ میں پکڑے لکھے ہوئے پتے کی طرف چل دیا جب ٹیکسی بتائے پتے کے میں گیٹ پر رکی تو وسیم اتر کر گیٹ کی طرف بڑھا تو سامنے ہی نیم عریاں خاتون کیاریوں کو پانی دے رہی تھی ،اُس نے جب ایک اجنبی شخص کو دروازے پر کھڑے دیکھا تو بلا کسی ہچکچاہٹ کے خندہ پیشانی سے سوال کیا ‘آپ کس سے ملنا چاہیں گے ۔’وسیم نے اس کے سراپے پر نظر ڈالی اور چند ثانیہ کے توقف کے کہا میں…..میں نعمان سے ملنا چاہتا ہوں ”۔خاتون نے مسکراتے ہوئے کہا یہ نعمان ہی کا گھر ہے

میں بیگم نعمان ہو ں ،آپ تشریف لائیں وہ ابھی آتے ہیں اور وسیم اس گہری سوچ میں تھا جس شخص کا ذہن پاکستان کی سرزمین پر غلط اور غلیظ تخلیقات کرتا تھا اس کی یہاں کیا حالت ہوگی جبکہ اسکی رفیق حیات خود نیم عریاں ہے ایک نا محرم شخص کو بھی مسکرا کر خوش آمدید کہہ رہی ہے وہ اپنے خیالات میں ڈوبا شکریہ کہہ کر مڑاابھی چند ہی قدم اُٹھائے تھے کہ سامنے سے نعمان نمودار ہوأاُس نے وسیم کو پہچانتے ہی خوشی و مسرت کا نعرہ لگایا پھر وسیم سے بغلگیر ہو گیا اور بغیر کسی تمہید کے کہا ‘جب تم دروازے تک پہنچ ہی گئے ہوتو پھر کچھ کہے نغیر ہی واپس کیوں ہوئے کیا تمہیں بیٹھنے کے لئے نہیں کہا گیا ‘گو وسیم کا دل عجیب کیفیت میں تھا ،اُس نے کہا اپکی مسزنے نہائت خندہ پیشانی سے مجھے خوش آمدید کہا اور انتظار کرنے کو بھی کہا ،مگر میں نے اپ کی نیم عریاں بیوی کو دیکھا اور پھر تمہاری مصوری کے چند خاکے تصور میں آئے جن میں عورت سے انتقام لیا گیاتھا تو میرے لئے اب مزید ٹھہرنا بے سود تھا کہ جب تم پاکستان میں عورت کو ہر ہر زاویہ سے عریاں پیش کر رہے تھے

یہاں جبکہ تمہاری جیتی جاگتی بیوی ہی نیم عریاں ہے یہاں تمہارا فن کس مقام پر ہو گا لہذا مزید کچھ دیکھنے ،کہنے یا سننے کی حسرت باقی نہیں …نعمان خاموشی سے اُس کی تقریر سنتا رہا اور جب وسیم خاموش ہوأ ،تو نعمان نے اُسے کلائی سے پکڑا اور زبردستی کھینچتا ہوأ اندر لے آیا ،جہاں مسزنعمان پہلے ہی سے منتظر تھی ۔ڈرائنگ روم میں دونوں بیٹھ گئے اور تھوڑی دیر کے لئے ماضی کے دھندلکوں میں کھو گئے کہ مسز نعمان نے کہا نعمان ناشتہ تیا رہے ،نعمان نے وسیم کی طرف دیکھا جس کے ہاتھ میں ابھی تک صبح کا اخبار تھا وسیم اُٹھو چلو ناشتہ کر لو !پھر آج تمہارے سوال کا جواب بھی دونگا ،،وسیم نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا یار نعمان میں ناشتہ کرکے آیا ہوں ”نعمان نے اُس کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا میں مصور ہوں میں نے تمہارا چہرہ بھی پڑھ لیا ہے اور ہاتھ میں پکڑااخبار بتا رہا ہے کہ تم ناشتہ میز پر چھوڑ کے آئے ہو اور یہی سچ ہے ،اور پھر نعمان نے وسیم کو کلائی سے پکڑا زبردستی کھانے کے کمرے میں لے گیا جہاں میز پر صبح کا ناشتہ چنا تھا ،وسیم ناشتہ کرتے ہوئے بار بار نعمان اور اسکی مسز کی طرف دیکھتا جبکہ انہوں نے بہت پہلے ہی ناشتہ کر لیا تھا اور اب وہ وسیم کی حرکات و سکنات کو دیکھ کر محفوظ ہو رہے تھے

آخر نعمان نے کہا ؛وسیم! تم پریشان کیو ںہو ناشتہ ختم کرو ،ہم دیر سے منتظر ہیں،اور تمہارے تمام وسوسے ابھی دور کئے دیتا ہوں ،”نعمان بھائی ایسی کوئی بات نہیں اِس شہر کو اِس کی تہذیب اور لوگوں کو جی بھر کے دیکھا ہے اور پھر سب بڑھ کر تمہاری رفیق حیات کو دیکھا اب کوئی وسوسہ یا خلش باقی نہیں رہی ۔وطن سے دور بہت دور تمہیں خوش و خرم پا کر خوشی محسوس کر رہا ہوں ؛نعمان یہ تو سب ٹھیک ہے مگر یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ میں نے مصوری کی اعلےٰ تعلیم حاصل کی ہے اور مصور نہ صرف برش ہی سے اظہار خیال کرتا ہے بلکہ فطرت کی نقاشی کو بھی پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اِس وقت تمہارے چہرے کو پڑھنے میں مجھے کوئی دقت نہیں ہو رہی اور یہ تحریر بڑی آسانی سے پڑھی جا رہی ہے”وسیم اس دوران خلا میں گھورتا رہا اور اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا ناشتہ ختم ہوأ تو سب اُٹھ کھڑے ہوئے ؛ نعمان نے وسیم سے کہا ایک تو تمہارے سوال کا جواب جو برسوں پہلے تم نے پوچھا تھا

اِس کا جواب اور دوسرا آج یہ خواہش بھی ہو گی کہ تصویر بھی تم دیکھو جو نمائش میں پیش کرنے والا ہوں ! وسیم اپنی ذہنی کیفیت پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا یا ر نعمان میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے تمہاری بیوی اور ارد گرد کے ماحول کو دیکھ کر اب تمہاری پینٹنگ دیکھنے کی تمنا نہیں رہی کیوں کہ ….. ” نعمان نے وسیم کی بات کاٹتے ہوئے کہا ؛نہیں وسیم ،تمہیں وہ شاہکار دیکھناہی ہو گا ،وہ صرف ایک تصویر ہی نہیں بلکہ تمہارے سوال کا مکمل جواب بھی ہے ۔اور وہ باتیں کرتے ہوئے پھر ڈرائنگ روم میں آگئے جہاں ایک بڑی الماری تھی وسیم کرسی پر بیٹھ گیا اور نعمان نے باتیں کرتے ہوئے الماری کے دونوں پٹ کھول دئے ،اور اسی وقت وسیم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا گویا وہ اس شاہ کار کو دیکھنا نہیں چاہتا ،نعمان نے وسیم کے دونوں ہاتھ اسکے چہرے سے ہٹا دئے اور کہا وسیم دیکھو!پھر وسیم نے آہستہ آہستہ ڈرتے ڈرتے الماری کی طرف دیکھا اور پھر اپنی آنکھیں ملنے لگا وہ کبھی تصویر کو کبھی نعمان کو اور پھر مسز نعمان کو باری باری دیکھتا اور پھر نظریں تصویر پر آکر رُک جاتیں ،جو نعمان کا عظیم شاہکار تھا اور پھر اُسے دیکھتا ہی چلا گیا اور شاہکار تصویر بھی ایک عورت ہی کی تھی ……جو ہاتھ دُعا کے لئے اُٹھائے دوزانوہے روشنی کا ہالہ اُس کے سر کے گرد پھیلا ہوأ کہ اُس سے پاکیزگی اور تقدس جھلک رہا تھا

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر:بدر سرحدی