تحریر: لقمان اسد الیکشن 2013 میں ہونے والی دھاندلی کا بدترین جرم بھی ہمیشہ راز ہی رہتا اگر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اس مبہم الیکشن کے خلاف عوام کو شاہراہوں پر لیکر نہ آتے ابتدائی طور پر عمران خان نے چار حلقوں میں تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا عمران خان نے جب یہ معاملہ اسمبلی فورم پر اُٹھایا تو جواب میں نواز شریف کے جانثار چوہدری نثار نے مدلل انداز میں دھاندلی کو تصدیقی سرٹیفیکیٹ عطا کرنے کی غرض سے اسمبلی فورم پر ایک زور دار اور گرجدار تقریر کی اُنہوں نے ایوان کو بتایا جب عام انتخابات کا نعقاد کیا گیا۔
تب ن لیگ کی حکومت نہ تھی بلکہ یہ الیکشن نگران حکومت کی زیر نگرانی ہوئے الیکشن 2013ن لیگ نے یا ہماری موجودہ حکومت نے نہیں کرائے تھے وزیر داخلہ نے باکمال انداز میں فرمایا کہ ہم تو پچاس حلقوں میں اس حوالے سے تحقیقات کا حکم دینے اور پچاس حلقے کھلوانے کیلئے تیار ہیں ساتھ یہ بھی اُنہوں نے ارشاد فرمایا کہ یہ سب کچھ مگر ناممکن ہے اس لئے کہ نادرا سے تحقیقات میں مشکلات درپیش ہیں نادرا سے تحقیقات کو ناممکن جب وہ قرار دے رہے تھے تو اس ضمن میں اُن کا موقف یہ تھا کہ جس سیاہی کا استعمال 2013کے عام انتخابات میں کیا گیا وہ سیاہی اس قابل نہیں کہ اُس سے نادراکا تحقیقاتی عمل ممکن قرار پائے اُنہوں نے یہ بھی اپنی تقریر میں کہا نگران حکومت نے چونکہ انتخابات کرائے اس لئے اس کی ذمہ داری بھی نگران حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے پنجاب کا جب اُنہوں نے ذکر کیا تو کہا نجم سیٹھی کا نام پاکستان پیپلز پارٹی نے تجویز کیا تھا اور نجم سیٹھی نے نگران وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد پورے صوبہ میں بڑے پیمانے پر افسران کے تبادلے اور ٹرانسفر اس غرض سے کئے کہ عام انتخابات کے عمل کو شفاف رکھا جائے۔
چوہدری نثار علی خان کا موقف ،اُن کی اس حوالے سے مدلل تقریر اور جارحانہ انداز خطابت اپنی جگہ درست اور بجا مگر عوام یہ سوچتے ہیں کہ اگر نجم سیٹھی سے منسوب 35پنکچرز والی کہانی کا کوئی وجود نہ تھا ۔یہ اگر نجم سیٹھی پر محض ایک تہمت تھی اور اس حوالہ سے گھڑی گئی کہانیاں محض جھوٹ کا پلندہ تھیں تو پھر عدالت نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدہ سے اُنہیں متعدد بار اپنا حکم جاری کرکے الگ کردیا تو پھر ن لیگی حکومت کس صلہ کے عوض عدالتی فیصلہ کے برعکس اور خلاف بار بار اُن کی اسی عہدہ پر تقرری کا نوٹیفیکیشن جاری کرتی رہی ؟نجم سیٹھی کے علاوہ عمران خان جس دوسری شخصیت کو الیکشن 2013میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر براہ راست ذمہ دار قرار دیتے ہیں وہ شخصیت سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہیں ۔ افتخار محمد چوہدری کے فرزند جو ماضی میں بھی ایک متنازعہ کردار کے طور زیر بحث آتے رہے کہ جب سابق صدر جنرل مشرف نے افتخار محمد چوہدری کے خلاف ریفرنس بھیج کر اُنہیں اُن کے عہدہ سے برطرف کر دیا تھا تو اس ریفرنس میں سب سے بڑا ایلیگیشن اُن پر اپنے صاحبزادے ارسلان افتخار چوہدری کے حوالے سے ہی تھا اسی ارسلان افتخار چوہدری کو میرٹ سے ہٹ کر بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ میں ایک بڑے عہدہ پر بٹھا دیا گیا جب اس حکومتی فیصلہ پر ہر طرف سے آوازے کسے جانے لگے اور تنقید کا ایک لامتناعی سلسلہ چل نکلا تو مجبوراًحکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ارسلان افتخار کو اپنے عہدہ سے الگ ہونا پڑا قوم اس غیر آئینی اور میرٹ سے ہٹ کر کی گئی تقرری کو بھی الیکشن میں افتخار محمد چوہدری کی طرف سے ن لیگ کو نوازنے کا صلہ تصور کرتے ہیں اُدھر الیکشن کمیشن کی صورت حال کا اندازہ کیجیئے کہ جب ڈی چوک کے دھرنے میں ایک شام اپنے خطاب میں عمران خان نے الیکشن کمیشن پر یہ الزام عائد کیا کہ الیکشن کمیشن نے دھاندلی کے اپنے منصوبے کو حتمی شکل دینے کی خاطر 55لاکھ سے زائد بیلٹ پیپرز چھپوائے تو جواب میں الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ وضاحت سامنے آئی کہ عمران خان اس ضمن میں سچ بیان نہیں کر رہے بلکہ زائد بیلٹ پیپرز کی تعداد صرف آٹھ لاکھ ہے لیکن ہر گزرتے روز کے ساتھ الیکشن کمیشن کے موقف میں تبدیلی آتی گئی۔
Election Commission
نئے الیکشن کمشنر جناب جسٹس ریٹائرڈ رضا خاں کی تقرری سے قبل تک الیکشن کمیشن کی وضاحت اس حوالہ سے یہ تھی کہ ایک کروڑ کچھ لاکھ تک عام انتخابات میں زائد بیلٹ پیپرز چھپوائے گئے اس آخری وضاحت پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی الیکشن کمیشن کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن کو اس پر حساب دینا ہوگا کہ اس قدر زائد تعداد میںس اضافی بیلٹ پیپرز چھپوانے کا مقصد آخر کیا تھا اور کس مجبوری کے تحت ایسا کیا گیا ؟اسی اثنا میں سانحہ پشاور نے سیاسی فضا یکسر بدل دی پوری قوم ایک سوگ کی کیفیت میں چلی گئی ایک ایسا ظلم جس نے وطن عزیز کے ہر محب وطن فرد کے دل میں ایک آگ لگا دی اور کہرام سا اک بپا کر دیا اس لمناک سانحہ کے سبب عمران خان نے بھی ن لیگی حکومت کے خلاف اپنا طویل دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا کل جماعتی کانفرنس اور پھر فوجی عدالتوں کے قیام پر اتفاق رائے کے بعد اب دوبارہ عمران خان نے حکومت سے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے اُنہوں نے یہ عندیہ بھی دیا کہ جلد اگر حکومت جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں نہیں لاتی تو پھر وہ ایسے حالات پیدا کر دیں گے کہ ن لیگ کیلئے حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا عمران خان کے اس اعلان کے بعد سنجیدہ حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کیلئے پھر سے مشکل وقت آنے والا ہے مگر حکومت ہے کہ وہ اب تک الیکشن میں ہونے والے بے ضابطگیوں کو ایک معمول کا حصہ تصور کر کے وقت کو دھکا دینے اور اپنی مدت حکومت پوری کرنے کے فلسفہ پر قائم ہے عمران خان نے جن چار حلقوں کو کھولنے اور تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا اُن میں سپیکر قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 122 سر فہرست تھا جس پر ایاز صادق نے ایک حکم امتناعی بھی لے رکھا تھا کہ اس حلقہ کو کھولنے کی بجائے بند ہی رکھا جائے کاظم علی ملک جو ایک ایماندار منصف کے طور پر ملک بھر میں جانے جاتے ہیں وہ اس حلقہ میں ہونے والی بے ضاببطگیوں کے خلاف بنائے جانے والے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ مقرر ہوئے ابھی اُن کی طرف سے کوئی حتمی رپورٹ جاری نہ ہوئی تھی کہ ھسب سابق وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے میڈیا پر آکر اپنے سپیکر سردار ایاز صادق کو فاتح قرار دے دیا۔
وہ جب ایاز صادق کی فتح کا اعلان کر رہے تھے وہ یہ بھول رہے تھے کہ اس حوالے سے تحقیقاتی کمیشن کی حتمی رپورٹ کا آنا ابھی باقی ہے جبکہ اگلے ہی روز کاظم علی ملک کی سر براہی میں کام کرنے والے تحقیقاتی کمیشن کی طرف سے جو حتمی رپورٹ سامنے آئی اُس نے جھوٹ کا پول کھول دیا کمیشن کی 42صفحات کی رپورٹ کے مطابق این اے 122کے پولنگ اسٹیشن 284 کے بیلٹ پیپرز ،فارم 14اور 15سمیت وسیع دھاندلی کے ثبوت سامنے آئے اسی رپورٹ کے مطابق پولنگ اسٹیشنز پر تعینات بیشتر سرکاری عملے نے لاپراوہی کا مظاہرہ کیا 4پولنگ اسٹیشنز کے تھیلوں کی سیلیں ٹوٹی ہوئی تھیں 17ہزار سے زائد بیلٹ پیپرز پر سرکاری عملے کی مہر ثبت تھی اور نہ ہی دستخط جبکہ 25ہزار سے زائد بیلٹ پیپرز کی کائنٹر فائل پر بھی مہر اور دستخط نہ تھے ایاز صادق کی فتح کا اعلان کرنے والے وزیر اطلاعات کے علم میں یہ بات شاید نہیں کہ اس رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے الیکشن ٹربیونل کے ججز نے اسی رپورٹ کی روشنی میں ابھی اپنا حتمی فیصلہ جاری کرنا ہے اور ایاز صادق کی قسمت کا فیصلہ میڈیا پر آکر کسی حکومتی وزیر کے سنانے کا مقصد عدالتوں پر اثر انداز ہونے کے ماسوا کچھ نہیں اگر اسقدر بھی کسی حلقہ میں ہونے والی بے ضابطگی کے باوجود اور الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ آنے سے قبل کوئی اپنے آپ کو فاتح اور الیکشن 2013کو شفاف تصور کرتا ہے تو یہ ملک کے 18کروڑ کے عوام کی انکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہی ہے۔