اولپنڈی (جیوڈیسک) سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹوکے قتل کیس میں2 اہم ترین گواہان نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کے سابق سربراہ بریگیڈیئر(ر) جاوید اقبال چیمہ اور بینظیر بھٹو جنرل اسپتال کے اس وقت کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر حبیب احمد نے بیانات ریکارڈ کرا دیے ہیں اور وکلائے صفائی نے جرح بھی مکمل کرلی ہے۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر ایک کے جج پرویز اسماعیل جوئیہ نے اڈیالہ جیل میں قائم خصوصی عدالت میں سماعت کی۔
بریگیڈیئر(ر) جاوید اقبال چیمہ نے اپنے بیان میں کہا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے دوسرے دن صبح کو اس وقت کے سیکرٹری داخلہ سیدکمال شاہ نے فون کرکے اپنے دفتر بلایا اورکہا کہ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز میں اہم اجلاس میں ہم دونوں نے جانا ہے جس میں بینظیر بھٹوکے قتل بارے بریفنگ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم وہاں پہنچے تو اس وقت کے آئی ایس آئی سے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج، ڈی جی آئی بی بریگیڈیئر(ر) سید اعجاز شاہ، ڈائریکٹر جنرل (سی) میجر جنرل نصرت نعیم اور آئی ایس آئی کے کاؤنٹر ٹیررازم سیل کے انچارج بریگیڈیئر شریک تھے۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے شرکاء کو بتایا کہ صدارتی کیمپ آفس آرمی ہاؤس راولپنڈی میں اس وقت کے صدر(پرویز مشرف) کی زیر صدارت میٹنگ ہوئی ہے جس میں انہوں نے بینظیر بھٹوکے قتل کے حوالے سے بتایا۔ ڈی جی نے بتایا کہ صدر مملکت نے ہدایت کی ہے کہ اس قتل کے حوالے سے حالات نارمل کرنے اور عوامی غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے فوری پریس کانفرنس کی جائے، یہ پریس کانفرنس میرے (بریگیڈیئر چیمہ) ذمہ لگائی گئی۔ دراصل اس وقت کے صدر یہ چاہتے تھے کہ اس پریس کانفرنس کے ذریعے انہیں عوام کی طرف سے یہ کلین چٹ مل سکے کہ وہ یا ان کی حکومت بینظیر بھٹوکے قتل میں ملوث نہیں ہے، بریگیڈیئر(ر)چیمہ نے بتایا اس پریس کانفرنس سے متعلق مجھے بریفنگ دی گئی، اجلاس میں قتل کی ویڈیو فوٹیج دکھائی گئی اور یہ ویڈیوفوٹیج میڈیا سے شیئر کرنے کیلئے مجھے دی گئی، بینظیر بھٹوکے قتل کی میڈیکل رپورٹ اور ایکسرے بھی دیئے گئے کہ بینظیر بھٹوکی موت گولی سے نہیں ہوئی۔
ان کی رائے تھی کہ بینظیر بھٹوگولی سے نہیں بلکہ گاڑی کا لیور لگنے سے مری ہیں، ان کا سر دھماکے کے خوف سے زورکے ساتھ اس لیور سے ٹکرایا، ایک آڈیوکیسٹ مجھے دی گئی جو ایجنسیوں نے ٹریس کی تھی۔ اس آڈیوکیسٹ میں طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود اس قتل کے بعد مولوی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’کام ہوگیا‘‘ (job well done)، پشتو زبان کی اس آڈیوکیسٹ کا اردو اور انگریزی ترجمہ بھی دیا گیا، اس وقت کے صدر پرویز مشرف کی اس ہدایت پر عمل کیلئے میٹنگ کے بعد میں اور سیکرٹری داخلہ، وفاقی وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) حامد نواز کے پاس گئے اور انہیں اس بابت مفصل بریفنگ دی، یہ پریس کانفرنس قتل کے دوسرے دن 28 دسمبر 2007 کو 5 بجے کی گئی، اس پریس کانفرنس میں جو بھی میڈیا کے ساتھ شیئرکیا وہ سب مجھے بریف کیا گیا تھا، میں نے اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کی۔
یہ میں نے صرف ری پرڈیوس (پیش) کیا۔ سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل الیاس صدیقی نے سوال کیا کہ جوکال پکڑی گئی تھی اس میں ایسی کوئی ہدایت تھی کہ کسی کو قتل کیا جائے؟ بریگیڈیئرچیمہ نے جواب میں کہا ایسی کوئی بات نہیں تھی، مولوی صاحب صرف مبارک باد دیتے ہیں کہ کام ہوگیا ہے۔ بینظیربھٹوکوحملے کے بعد جس ہسپتال لے جایاگیا اس( بینظیر بھٹو) ہسپتال کے اس وقت کے ایم ایس ڈاکٹر حبیب احمد نے بینظیر بھٹوکی میڈیکل رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ بینظیر بھٹوکی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا جائے، چونکہ پوسٹ مارٹم صرف ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال میں ہوتا اس لئے ان کے ہسپتال میں پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا جبکہ پولیس پوسٹ مارٹم کے بجائے ڈیڈ باڈی چکلالہ ایئر بیس لے گئی تھی۔
سرکاری پراسیکیوٹر چوہدری اظہر نے2 گواہان لیڈی ڈاکٹر سعدہ اور لیڈی ڈاکٹر قدسیہ کی گواہی ترک کر دی ہے ۔اہم ترین گواہان کے بیانات کے آغاز سے یہ کیس بھی حتمی مرحلے میں داخل ہوگیا ہے، ملزمان ڈی آئی جی سعود عزیز،ایس پی خرم شہزاد،اعتزاز شاہ، شیر زمان، رفاقت، حسنین، عبدالرشید بھی عدالت میں موجود تھے۔عدالت نے پیر 19جنوری کواگلی سماعت پر4 مزید اہم گواہان کو طلب کرلیا ہے۔