تحریر:علی عمران شاہین ونسٹن چرچل عالمی شہرت یافتہ شخصیات میں شامل ایک نام ہے۔ وہ 30دسمبر 1874ء کو پیدا ہوئے۔ انہیں دو مرتبہ برطانیہ کے وزیراعظم بننے کا اعزاز ملا۔ پہلی بار 1940ء سے لیکر1945ء اور دوسری بار 1951ء سے لیکر 1955ء تک۔ ونسٹن چرچل کو 20 ویں صدی کا سب سے بڑا انگریز اور عظیم ترین فاتح جنگی رہنما سمجھا جاتا ہے۔ چرچل نے تینوں برطانوی افواج میں بطور اعلیٰ افسر اور پھر تینوں مسلح افواج کے وزیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنی کو شکست دینے میں ونسٹن چرچل کی مدبرانہ سوچ کا کردار بنیادی تھا، اسی لئے آج بھی بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اگر چرچل دنیا میں نہ ہوتا تو یقینا دنیا کی موجودہ تاریخ اور منظر نامہ بالکل مختلف ہوتا۔
چرچل نے جرمنی کی شکست اور دوسری جنگ عظیم میں اتحادی فتح کے بعد اپنی اتحادی مغربی طاقتوں کو سوویت یونین کو ختم کرنے پر بھی اکسایا لیکن اس وقت کے امریکی صدر روز ویلٹ نے عالمی رائے عامہ کے اپنے خلاف ہونے کے خوف سے اس کی سخت مخالفت کی۔ چرچل نے کئی کتابیں بھی لکھیں۔ 1953ء میں چرچل کو ادب کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ “V” یعنی دو انگلیوں سے بنایا جانے والا ”نشان فتح” بھی چرچل کی ہی دین ہے۔ سال 2014ء کے اختتام پر 28 دسمبر کو برطانوی اخبار انڈی پینڈنٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بتایا کہ ونسٹن چرچل اسلام سے بہت متاثر تھے اور وہ اسلام قبول کرنا چاہتے تھے کہ ان کی بھاوج کو اس بات کا علم ہو گیا۔ اس پر ان کی بھاوج نے انہیں 1907ء میں ایک خصوصی خط لکھا تھا جس میں اس نے چرچل پر اس حوالے سے زور دیا تھا کہ وہ اسلام قبول نہ کریں۔
تاریخ پر تحقیق کرنے والے کیمبرج یونیورسٹی کے ایک ریسرچ فیلو وارن ڈاکٹر نے یہ خط دریافت کیا ہے اور بتایا ہے کہ چرچل کے بھائی جیک سے شادی کرنے والی خاتون لیڈی گونیڈولین برنائی نے خط میں لکھا تھا:مہربانی فرما کر اسلام قبول نہ کریں، میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ آپ میں مشرقی طرز کو قبول کرنے اور پاشا طرز سے متاثر ہونے کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ اگر آپ کا اسلام سے رابطہ ہوتا ہے تو شاید آپ کی مذہب کی تبدیلی اس سے کہیں زیادہ متاثر ہو جتنا کہ آپ نے گمان کر لیا ہے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں، اس لئے اسلام کے خلاف لڑیے۔”
چرچل کی بھاوج کو یہ فکر اس لئے لاحق ہوئی تھی کہ اسی زمانے میں چرچل نے لیڈی لٹن کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ ”میں ایک پاشا بننے کا خواہاں ہوں۔” یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ”پاشا ”ترکی میں مسلمانوں کی سب سے طویل خلافت عثمانیہ کا سب سے بڑا اعزاز تھا اور بڑے بڑے ترک وزراء اور سپہ سالار ”پاشا” کہلاتے تھے۔ آخری دور میں ترک خلافت تیزی سے روبہ زوال تھی لیکن چرچل اس سے متاثر تھے۔ چرچل کو عربوں کے رہن سہن کے طریقوں سے بھی لگائو تھا اور انہوں نے کئی بار عربی لباس پہنا تھا۔
Islam
چرچل نے 1899ء میں سوڈان سے متعلق اپنی تحریر ”دریا کی جنگ” میں لکھا ہے کہ محمڈن ازم اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک جنگجو اور معتقد بنانے والا نظریہ ہے۔ چرچل اسلام تو قبول نہ کر سکا لیکن اللہ کی مشیت دیکھئے کہ جس زمانے میں چرچل کو اس کی بھاوج نے اسلام قبول کرنے سے روکنے کے لئے خط لکھا تھا اسی زمانے میں سارے برطانیہ بلکہ سارے شمالی یورپ میں مسلمانوں کی صرف ایک مسجد تھی جو 1889ء میں بنی تھی۔ اس مسجد کا نام ”شاہ جہاں مسجد” ہے۔ اس وقت یہاں مسلمان بھی انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے، لیکن لگ بھگ ایک سو سال کے عرصہ میں اب اسی برطانیہ میں مساجد کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور مسلمان کئی ملین ہو چکے ہیں۔
یہاں کی اکثر و بیشتر مساجد وہ ہیں جو نیلامی کیلئے پیش کردہ پرانے چرچ خرید کر ان میں بنائی گئی ہیں۔ صرف برطانیہ ہی نہیں سارے یورپ اور امریکہ میں چرچوں کی نیلامی عام اور معمول کے کاروبار کاحصہ ہے۔ برطانیہ اور یورپ کے اکثر پراپرٹی ڈیلرز کی ویب سائٹ پر چرچوں کی خریدوفروخت کے اشتہارات نظر آتے ہیں اور لوگ انہیں خرید خرید کر اپنے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ انہی چرچوں کو خرید کر مسلمانوں نے مساجد بنا ڈالی ہیں اور آج اسی برطانیہ میں اس ملک کے اپنے میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق سالانہ 50ہزار تک لوگ مسلمان ہو رہے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کی بھاری اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کی ہے جو یورپ کے استحصالی سماجی نظام اور معاشرت سے اکتا کر اسلام کے سایہ رحمت میں پناہ لے رہی ہیں۔ اس وقت تازہ ترین صورتحال یہ ہے
یورپ اور امریکہ میں کہیں کوئی نیا چرچ بنتا نظر نہیں آتا کیونکہ یہاں کے لوگوں کی بھاری اکثریت دین کے نظریے سے ہی دور ہو چکی ہے۔ اب ان میں دو ہی طبقات نظر آتے ہیں۔ ایک اسلام قبول کرتے ہیں یا دوسرے اسلام کے خلاف جنگ کرتے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے کہ جس انداز اور طرز سے اسلام ان کے ملکوں اور معاشروں میں داخل ہو چکا ہے وہ دن دور نہیں جب ان کے ملک اسلامی ریاستوں میں بدل جائیں گے۔ برطانیہ کے حوالے سے اس کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چند سال پہلے برطانوی پارلیمان میں مسلمان اراکین سرے سے نہیں تھے۔ ہمارے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور وہ پہلے مسلمان رکن پارلیمنٹ تھے جنہوں نے قرآن پر حلف اٹھایا تھا لیکن اب اس برطانوی پارلیمان میں مسلم اراکین کی تعداد 9ہے، اسی لئے اب برطانیہ میں کہا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ چند برسوں میں برطانوی اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت مسلمان ہو۔
آج کل یورپ کے ایک سب سے زیادہ مہذب اور پرامن سمجھے جانے والے ملک سویڈن میں ایک محدود طبقے میں اسلام مخالف جذبات عروج پر ہیں اور وہاں گزشتہ ایک ہفتے میں دو مسجدیں جلا دی گئیں اور ایک میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ یہ وہی سویڈن ہے جہاں چند سال پہلے کوئی مسجد نہیں تھی اور مسلمان خال خال ہی دیکھنے کو ملتے تھے۔ اس کے ساتھ واقع ملک ناروے اور ڈنمارک میں بھی یہی صورتحال تھی لیکن اب وہاں کے بھی حالات بدل چکے ہیں اور مساجد کی تعداد اور مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وہ صورتحال ہے جس نے یورپ کے اس قدامت پسند طبقے کو شدید پریشانی سے دوچار کیا ہے جو دنیا بھر میں مسلمانوں اور اسلام کے خاتمے کے خواب دیکھ رہے تھے اور وہ اس سلسلے میں مصروف عمل تھے۔ اب وہ پریشان ہیں کہ وہ تو اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے کچھ اور سوچ رہے تھے لیکن معاملات کسی اور سمت نکل پڑے ہیں۔
ساری ترقی یافتہ دنیا بشمول جاپان، سنگاپور، کوریا، روس اوریورپ کے سبھی ممالک کا اس وقت سب سے بڑا بحران نئی نسل کا انتہائی کم پیدا ہونا ہے۔ ان سبھی ممالک نے ترقی کیلئے بچوں کی پیدائش کم سے کم کرنے کا فارمولا سو سال پہلے اپنایا تھا حالانکہ اس وقت بھی وہ ترقی کے عروج پرتھے، لیکن اس کا دوسرا خطرناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کی اپنی آبادی ختم ہو رہی ہے تو اس کی جگہ سب سے زیادہ دیگر خطوں سے آنے والے تارکین وطن مسلمان لے رہے ہیں کیونکہ ان کی شرح پیدائش اسلام دشمن طاقتوں کی تمام تر سازشوں کے باوجود نسبتاً زیادہ ہے۔
اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنی قوم سے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی بار بار اپیل کی ہے اور وہ خاندانی منصوبہ بندی کو سازش اور دشمنی قرار دیتے ہیں۔ اسی ترکی کے مسلم لوگ یورپ کے ملکوں کا نظام سنبھال رہے ہیں۔ ونسٹن چرچل نور اسلام قبول نہ کر سکا لیکن اسلام کے پیغام نے اس کی سرزمین میں ہی نہیں سارے خطے کا منظر ہی بدلنا شروع کر رکھا ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جس نے یورپ کو دوہری پریشانی سے دوچار کر دیا ہے کہ وہ اسلام کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے لیکن اسلام ان کے گھر میں داخل ہو گیا کیونکہ غالب تو بہرحال اسلام کو ہی آنا تھا اور آنا ہے۔