توہین رسالت اور مغرب کا اصلی چہرہ (قسط 2)

Charlie Abdo Attack

Charlie Abdo Attack

تحریر: لقمان اسد
فرانسیسی شہری اور حکمران اگر فرانسیسی ہفت روزہ اخبار چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے کو مسلمانوں کا ایک غلط اقدام تصور کرتے ہیں تو کیا اُنہیں اس مذکورہ اخبار کی طرف سے مسلمانوں کے ایک عظیم المرتبت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرنے جیسے اقدام کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیئے دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام مسلم ممالک میں سے کسی ایک مسلم ملک کے سربراہ ِ مملکت نے اخبار پر حملہ کرنے والے افراد کی قطعاً کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی مگر اس کے برعکس امریکہ کے صدر باراک اوبامہ اور انگلینڈ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے علی الاعلان اس جریدے کی ناپاک جسارت کو آزادی اظہار کانام دیکر اُس کے اس ناپاک جرم کی مذمت کی بجائے یا حوصلہ شکنی کی بجائے تائید اور حوصلہ افزائی کی اور مذکورہ دونوں صیہونی ریاستوں کے سربراہوں کے رویئے نے مسلم دنیا مین اس تاثر کو مضبوط کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کااصل ہدف مسلم ریاستیں اور مسلمان ہیں وہ جریدہ جس کی معمول کے مطابق اشاعت 60ہزار تھی۔

مگر جس دن سے اُنہوں نے یہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا تو اُس کی تعداد نصف کروڑ کے لگ بھگ کر دی گئی یہاں تک بس نہیں اب کی بار ایک آسٹریلوی ہفت روزہ نے بھی اس ناپاک جسارت میں حصہ لیا اور دعاکرو کے نام سے گستاخانہ خاکے شائع کرکے اپنانام آزادی اظہار کی اس نئی منطق اور شرمناک، بدبودار اصطلاح میں شامل کیا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی میں ایسی حرکات کا ارتکاب کرنے والے فرانسیسی جریدے چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملہ ہوتا ہے تو اُس کے رد عمل کے طور پر فرانس میں 40لاکھ لوگ ہی محض احتجاج ریکارڈ کرانے کی خاطر اپنے گھروں سے نہیں نکلتے بلکہ چالیس ممالک کے سربراہان بھی اُن کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے جمع ہوتے ہیں لیکن جناب بنی کریم ۖ کی ذات ا قدس کی عزت و ناموس پر حملہ کرنے والے ان رسائل اور جن ممالک سے یہ شائع ہوتے ہیں۔

ان کے خلاف مسلمان ممالک کے سربراہان کا رد عمل اب کیا ہونا چاہیئے ؟اول اور اصولاً تو مسلم حکمرانوں کو طیب اردگان کی پیروی کرنی چاہیئے کہ جنہوں نے فرانس سے احتجاج کرتے ہوئے اس حد تک کہا کہ جب تک فرانس اپنے اخبار کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر پوری مسلم دنیا سے معافی نہیں مانگتا تب تک وہ اپنے سفیر اپنے پاس ہی رکھے ترکی میں اُن کیلئے کوئی جگہ نہیں دوئم او آئی سی کے پلیٹ فارم کو متحرک کیا جائے جو اب تک سوئے ہوئے کسی بد مست ہاتھی کی مانند خوا ب غفلت میں ہے اب اُسے بھی بروئے کار آنا چاہیئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ کیلئے عالمی سطح پر ایسی قانون سازی کا عمل وجود میں لایا جانا ضروری ہے کہ جس کے باعث آئندہ کیلئے ایسی قبیح حرکات کا باب ہی ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے اس حوالے سے یقینا مغرب کے حکمرانوں پر بھی ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ایک مہذب معا شر تی رویہ اختیار کرنے کی روش پر چلنے کو ہی وہ اپنا مقصد اور اولین ترجیح شمار کریں وہ ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کریں۔

کہ جن کے سبب پوری دنیا میں مذہبی تصادم کا خطرہ لاحق ہو اُنہیں اس بات کا لازمی احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہیئے کہ اُن کی طرف سے ایسے اقدامات کو تسلسل سے فروغ دینے کے عمل سے مسلم دنیا میں عوامی سطح پر ایک بڑا طوفان اُٹھنے کے واضح خدشات اور امکانات کا اندیشہ اس طور اُبھر سکتا ہے کہ پھر جنہیں روکنا عالمی سطح کی طاقتوں کیلئے انتہائی مشکل ٹھہرے اور ایسی لہر پوری دنیا کیلئے مذہب کے نام پر ہونے والی ایک عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے اگر ایسا نہ بھی ہو تو فرانس سمیت اُن ممالک میں کہ جہاں جن ممالک کے جرائد میں ایسی حرکات جاری ہیں۔

Extremists

Extremists

وہاں کی مسلم آبادی کے اندر بے چینی کا پایا جانا تو حقیقتاً ایک لازمی امر ہے ایک نفرت آمیز جنگ اُن ممالک میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان بھی چھڑ سکتی ہے ایک اہم پہلو اس حوالے سے یہ بھی ہے اہل مغرب اور مریکہ جو ہر وقت اُٹھتے بیٹھتے یہ رٹ لگاتے رہتے ہیں کہ دنیا کے امن کو شدت پسندوں اور شدت پسندی کی سوچ رکھنے والے عناصر سے خطرات لاحق ہیں تو کیا اُن کی نظر میں ایسے غیر اخلاقی واقعات کا ایک عرصہ سے تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہونا اور پھر مکمل حکومتی سر پرستی میں ایسے افسوس ناک واقعات کا جنم لینا کیا دنیا بھر میں شدت پسندی کی سوچ کو مزید فروغ دینے۔

پھلنے پھولنے اور بڑھائے جانے کا از خود جواز فراہم نہیں کرتا ؟گو فرانس میں اس تناظر میں 12افراد کو حملہ کرکے موت کے گھاٹ اُتارا گیا مگر وہ تنظیمیں جنہوں نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کی تو کیا کوئی بھی مسلم ملک دور حاضر میں ایسا ہے جو ان تنظیموں کی باقاعدہ سرپرستی کی ذمہ داری اُٹھاتا ہو یا کسی بھی سطح پر اُن کے مددگار ہونے کا دم بھرتا ہو ؟دہشت گردی کے خلاف جنگ جوکہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد سے لڑی جارہی ہے پوری مسلم دنیا اس جنگ میں غیر مسلم دنیا کے شانہ بشانہ ہے وطن عزیز میں ہونے والا سانحہ پشاور جیسا المناک انسانی المیہ نائن الیون کے بعد لڑی جانے والے امریکی جنگ کا ہی نتیجہ ہے مگر اس کے باوجود بھی اہل مغرب یا غیر مسلم طاقتیں مسلم دنیا کے جذبات کے ساتھ اس انداز میں دانستہ طور پر یہ رویہ روا رکھتے ہیں تو پھر اُن کا یہ عمل اسلام اور مسلم دشمنی کی وا ضح اور بدترین مثال کے مترادف ہے جبکہ اُن کے اس معتصبانہ نظریہ سے اُن کے اصل چہرہ سے نقاب اُترتا دکھائی دیتا ہے

Luqman Asad

Luqman Asad

تحریر: لقمان اسد