تحریر:محمد شاہد محمود پٹرول بحران کو آج 8 روز ہو گئے ، پٹرول پمپوں پر بدستور قطاریں ، وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ روز پٹرول بحران کے ذمے داروں کا تعین کرنے کے لیے اجلاس پر اجلاس کیے لیکن کسی وزیر کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔تحقیقاتی کمیٹی بنا کر جان چھڑا لی گئی جو اب پٹرول بحران کا ذمہ دار ڈھونڈے گی۔ وزیر اعظم اجلاس پر اجلاس وزراء پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس کرتے رہے لیکن معاملہ ہے کہ سلجھنے کے بجائے الجھتا ہی جا رہا ہے۔
حکومت میں شامل وزرا اپنا اپنا موقف پیش کرتے رہے ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پٹرول بحران کو سازش قرار دیا لیکن وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں انہیں اسکا علم نہیں ، وزرا کے اختلافات ان کی پریس کانفرنسز میں بھی نظر آئے۔ وزیر خزانہ نے سازش کا تو بتا دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ سازش کون کر رہا ہے ؟ اسحاق ڈار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وزارت خزانہ نے کسی ادارے کا ایک روپیہ بھی نہیں روکا ، شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں رقوم کی ادائیگی وزارت پانی و بجلی کی ہے لیکن وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک کا کہنا ہے کہ سرکلر ڈیٹ کی وجہ سے بحران پیدا ہوا۔ پی ایس او کو بروقت ادائیگی ہوتی تو مسئلہ نہ بنتا؟
سوال یہ ہے کہ اگر وزارت خزانہ نے کسی کے پیسے نہیں روکے تو پھر سرکلر ڈیٹ کیسے بڑھا؟ پہلے چودھری نثار ،پھر خواجہ سعدرفیق اور عابد شیر علی نے بحران کی ذمہ داری قبول کی اور اب تو وزیر پٹرولیم نے بھی اعتراف کر لیا۔ چار وزرا نے بحران کی ذمہ داری لی پھر کس بات کی تحقیقات کے لئے کمیٹی بنائی گئی۔ بحران پر چار افسر معطل ہو گئے کیا کسی حکومتی وزیر پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ؟ سات روز گزر گئے ابھی تک کسی حکومتی شخصیت کو ذمہ دار کیوں نہیں ٹھہرایا گیا؟وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے نوٹس لئے جانے کے باوجود صوبائی دارالحکومت سمیت پنجاب بھر میں پٹرول کا بحران جوں کا توں ہے ، پٹرول کی قلت پر ساتویں روز بھی قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
موٹر سائیکل سوار، پیدل اور گاڑیوں والے تیل کی تلاش میں ایک سے دوسرے پٹرول پمپ کے درمیان خوار ہوتے رہے۔ اکا دکا کھلے پٹرول پمپ پر عوام کا بے پناہ رش رہا اور ایک لٹر پٹرول کے حصول کیلئے دھکم پیل ہوتی رہی۔ کہیں لوگ پمپ عملے سے لڑتے رہے تو کہیں منتیں کرتے رہے۔ حکومت کی طرف سے سی این جی سٹیشنوں کو کھلا رکھنے کے حکم میں توسیع کی وجہ سے کچھ صارفین کی مشکلات میں وقتی طور پر کمی آئی ہے مگر پریشانی ختم نہ ہوئی۔مختلف شہروں میں پٹرول کی قلت سے لوگوں کی برداشت جواب دے گئی ہے۔ بحران پر بحران سے تنگ عوام نے احتجاج بھی شروع کر دیا ہے۔ لاہور پریس کلب کے باہر تحریک انصاف یوتھ ونگ اور پارٹی کارکنان نے گدھا گاڑیوں پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر کارکنوں نے سٹر ک پر دھرنا دیا اور سینہ کوبی کرتے رہے ،کارکنوں نے نعرے بازی کی۔
لالک چوک میں تحریک انصاف کی ورکرز خواتین نے پٹرول بحران کے خلاف مظاہرہ کیا۔شرکا نے احتجاجاً قریبی پٹرول پمپ تک مارچ بھی کیا۔ پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے کارکنان نے خواجہ ہاوس سے ٹھوکر تک سائیکلوں پر انوکھا احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور علامتی طور پر گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کا مظاہرہ بھی کیا۔ پٹرول بحران حکومت کے خلاف سازش نہیں، حکومت کی نااہلی ہے ،حکومت کے پاس مستقبل کی پلاننگ نہیں ،ان کی سوچ میٹرواورمری سے ہی باہرنہیں نکل رہی ۔ پٹرول کے بحران پروزیرداخلہ اوروزیرپٹرولیم جوبھی کہیں چوہدری نثارنے نااہلی کااعتراف کرلیاہے اگربحران کوئی سازش ہے
تووہ سازش حکومت کے خلاف نہیں دہشتگردی کے خلاف جنگ کوناکام بنانے کیلئیے ہوسکتی ہے ،پٹرول کابحران حکومت کی نااہلی ہے اورحکومت مسائل کوحل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ دنیامیں پٹرول کی قیمتیں کم ہوئی ہیں لیکن پاکستان میں اس کے اثرات نظرنہیں آرہے ہیں یہاں پرکرائے کم ہوئے ہیں ،نہ اشیاء کی قیمتیں گری ہیں ،جبکہ عالمی مارکیٹ میں 50 فیصد قیمتیں کم ہوئی ہیں۔لاہور سمیت پنجاب بھر میں پٹرول کا بحران مزید شدت اختیار کر گیا اور دوسرے ہفتے بھی پٹرول پمپوں پر موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہیں اور کئی مقامات پر پٹرول پمپ انتظامیہ اور شہریوں میں جھگڑوں کا سلسلہ گزشتہ روز بھی جاری رہا جبکہ پٹرول کی بلیک میں فروخت بھی جاری رہی۔ آئندہ دنوں میں شدت میں مزید اضافے کا امکان ہے جبکہ پٹرول کا بحران کراچی پہنچ گیا اور شہر کے 30 فیصد پٹرول پمپ بند کر دیئے گئے۔
Petrol
صوبائی دارالحکومت کے 90 فیصد پمپوں پر پٹرول کی سیل بدستور مکمل بند ہو گئی۔ جس پر شہری خوار ہوتے رہے۔ پی ایس او کی جانب سے تمام پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی میں نمایاں کمی کرنے سے ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ پی ایس او کی جانب سے بار بار درخواست کے باوجود حکومت کی جانب سے بڑی رقم ادا نہ کئے جانے پر پی ایس او شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ پی ایس او کے حکومتی اداروں کی جانب 230 ارب روپے واجب الادا ہیں لیکن ادائیگی نہیں کی جا رہی ہے۔ پی ایس او کے پاس صرف 63 ہزار ٹن ذخیرہ رہ گیا ہے
جو صرف ایک دن کے لئے کافی ہے اس کے بعد ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کا شدید بحران پیدا ہو جائے گا۔ لاہور کے جن پمپوں پر سیل جاری رہی وہاں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی طویل قطاریں لگی رہیں۔ پٹرول کی قلت کے باعث بچوں کو سکول اور دفاتر جانے والے افراد کو اپنی ملازمتوں پر پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ پٹرول کی عدم دستیابی کی وجہ سے عوام کی نہ صرف گھریلو سر گرمیاں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ کاروبار بھی تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ دیگر شہروں کی طرح وفاقی دارالحکومت میں بھی پٹرول کی نایابی برقرار ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قلت سے شہریوں کو درپیش مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ وزیراعظم محمد نوازشریف کی زیرصدارت پٹرول کی قلت سے متعلق ہنگامی اجلاس کے دو دور ہوئے۔
پہلے اجلاس میں وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی اور دیگر حکام شریک ہوئے اس موقع پر وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا کہ گزشتہ چند روز سے عوام کو پٹرول کے حصول میں جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ہے اس پر کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ اجلاس کے دوسرے دور میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف، وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی اور وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے پٹرول کے بحران پر حکام پر شدید برہمی ظاہر کی، وزیر پٹرولیم سمیت دیگر حکام سے بازپرس کی۔ وزارت پٹرولیم نے پٹرول کی قلت کی وجوہات بیان کیں جن میں بتایا گیا کہ پٹرول کی شدید طلب محسوس کرتے ہوئے وزارت اور پی ایس او دونوں نے تیل کی اضافی درآمد کی تجویز دی تھی تاہم مالی وسائل موجود نہیں تھے۔
وزارت پٹرولیم نے بروقت فنڈز کے عدم اجرا کی ذمہ داری وزارت خزانہ پر ڈال دی تاہم وزارت خزانہ نے اس مئوقف کو مسترد کیا اور مئوقف اختیار کیا کہ پٹرول پر سبسڈی نہیں جس کی رقم واجب الادا ہو، پٹرولیم کے ادارے اپنے بلز وصول نہیں کر پاتے اور وزارت خزانہ کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کو عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات کے بارے میں بھی بتایا گیا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ 15600ٹن پٹرول ملک بھر میں سپلائی کے لئے لایا گیا ہے۔ آئندہ ماہ سے اضافی پٹرول سپلائی کیا جائے گا۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ وزارت پانی و بجلی لائن لاسز میں کمی کے لئے اقدامات کرے۔ 500بلین روپے کے بقایا جات وصول کرے تاکہ پی ایس او کو رقم مل سکے۔ اجلاس میں وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے پٹرول کے بحران کا ذمہ دار وزارت خزانہ کو ٹھہرایا اور وزیراعظم کو بتایا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے بروقت ادائیگیوں میں تاخیر پر پٹرول کا بحران شدید ہوا۔ وزیراعظم نے وزیر پٹرولیم کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتنا بڑا بحران نااہلی کا ثبوت ہے۔ پٹرول کا بحران آئندہ چند دنوںمیںمزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔
ملک میں پٹرول کا سٹاک صرف دو دن کا باقی رہ گیا ہے، روزانہ کی بنیاد پر سپلائی کیا جانے والا پٹرول ریفائنریوں کی طرف سے سپلائی کیا جارہا ہے،جس کی مقدار طلب کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ ملک میں پٹرول کی ماہانہ طلب سی این جی اسٹیشنز بند ہونے کی وجہ سے ساڑھے 4لاکھ ٹن تک پہنچ چکی ہے، ملکی ریفائنریز کی ماہانہ پیداواری صلاحیت کہیں کم ہے جس کی وجہ سے پٹرول کی باقی ضروریات درآمد کرکے پوری کی جاتیں ہیں۔