تحریر: مبارک علی شمسی زبان ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے کیونکہ خیالات ، احساسات اور محسوسات کے اظہار کے لیئے زبان اہم ترین ذریعہ ہے۔ زبان کسی بھی قوم کی شناخت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اپنی زبان کو عزیز سمجھتی ہے اور اس کے فروغ کے لیئے مناسب اقدامات کرتی ہے۔ دنیا میں بہت سارے ممالک ایسے بھی ہیں جہاں ایک سے زائد زبانیں بھی بولی جاتیں ہیں۔ براعظم ایشیاء اور براعظم افریقہ کے اکثر ممالک میں بھی کئی کئی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ کسی ایک ملک میں تمام زبانیں اس ملک کی ثقافت کا حصہ ہوتی ہیں۔ البتہ ان میں سے کسی ایک زبان کو قومی رابطے کے لیئے زبان کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اسے قومی زبان کہتے ہیں۔ قومی زبان کے ذریعے مختلف علاقوں کے رہنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے میں مدد ملتی ہے۔ ان میں ہم آھنگی بڑھتی ہے اور قومی اتحاد و یکجہتی کو فروغ ملتا ہے۔
قومی زبان کو ملک کی دوسری زبانوں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب دوسری زبانوں کو نظرانداز کرنا نہیں ۔ یہ تمام زبانیں اپنے اپنے مخصوص علاقوں میں بتدریج پھلتی پھولتی رہتی ہیں۔ یہی زبانیں قوم کا مجموعی ثقافتی سرمایا ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی زبانیں بولی جاتی ہیںان میں سرائیکی، پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی بڑی خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ زیادہ تر اپنے اپنے صوبوں اور اپنے اپنے خطوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ انہیں صوبائی زبانیں بھی کہا جاسکتا ہے۔ مگر اردو پاکستان کی قومی زبان ہے جو لہجے کے معمولی فرق کے ساتھ پاکستان کے تمام تر علاقوںمیں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے واضع اور کھلم کھلا الفاظ میں کہا تھا کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہو گئی اور قائداعظم کے اس جملے کو امر کرنے کے لیئے 1973 ء کے آئین میں اردو کو سرکاری یعنی قومی زبان قرار دے دیا گیا تھا۔ کیونکہ اردو ایک زندہ اور ترقی پذیر زبان ہے۔
Imposition Urdu Conference.
جس کی نمایاں خصوصیات یہ ہے کہ یہ الفاظ اپنے اندر بخوبی جذب کر لیتی ہے۔ عربی، فارسی، ترکی اور جنوبی ایشیاء کی مقامی زبانوں کے مختلف الفاظ کے علاوہ یورپ کی کئی زبانوں کے الفاظات بھی اردو میں رچے بسے ہیں۔ پاکستان میں اردو نے ابتدائی ادوار میں بہت ترقی کی ہے۔ شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ ساتھ فنکاروں اور گلوکاروں نے اپنی اپنی کاوشوں سے اسے بڑی وسعت دی ہے۔ یہ نہ صرف رابطے کی زبان ہے بلکہ وسیلئہ تدریس بھی ہے جدید علوم کو اس زبان میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
متعدد دفتری اصلاحات کا اردو ترجمہ بھی کیا جا چکا ہے اور اردو زبان میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ متعدد اردو اصلاحات کا اردو ترجمہ بھی کیا جا چکا ہے اور اردو زبان کو دفتروں میں بتدریج رائج کرنے کے لیئے حکومت پاکستان نے مقتدرہ قومی زبان نامی ادارہ بھی قائم کر رکھا ہے۔ حکومتی نااہلی اور اس ادارہ کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے ہمارے اوپر انگریزی زبان کو مسلط کرنے کی کوشش زور پکڑتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بیشتر پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں طلباء اور طالبات انگریزی زبان بولنے پر مجبور ہیں۔ انگریزی کے اس ناجائز تسلط کو ختم کرنے کے لیے کئی تنظیمیں بنیں جن میں قابل ذکر اور لائق داد پاکستان قومی زبان تحریک ہے۔
Imposition Urdu Conference,
جو پرفیسر اشتیاق احمد کی سربراہی میں 2014 میں قائم ہوئی اور یکم جون 2014 کو اس تحریک کے زیراہتمام ہمدرد مرکز لاہور میں نفاذ اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جو انتہائی کامیابی کے ساتھ اختتام پزیر ہوا، اس کانفرنس کی کامیابی کے بعد لاہور کے متعدد لوگوں ، عوامی وسماجی، علمی و ابی حلقوں کی طرف سے ایسی مزید تقریبات کے انعقاد کا پرزور اصرار کیا جانے لگا تاکہ تحریک کا پیغام ارباب اختیار سمیت زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے، منتظمین اسی وقت سے اس کانفرنس کے انعقاد کے لیئے کوشاں رہے اور اس دوران انہوں نے مختلف اہم شخصیات سے اس کانفرنس کے حوالے سے مشاورت بھی جاری رکھی کیونکہ اس کانفرنس کی جگہ کا انتخاب اور مناسب وقت کا تعین ان کے لیئے بہت بڑا چیلنج تھا اور مہنگائی کے اس پر آشوب دور میں کانفرنس کے اخراجات کے لیئے رقم کی فراہمی بھی مسئلہ تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی کانفرنسوں کے انعقاد کے لیئے رقم ہی عام طور پر سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ہوا کرتی ہے۔
آخر کار پاکستان قومی زبان تحریک کے ممبران کی محنت رنگ لائی اور سب معاملات طے پا گئے مقررین کے تعین کے ساتھ ساتھ تاریخ بھی طے کر لی گئی۔ جہاں تک مقررین کا تعلق تھا یہ بات منتظمین کے لیئے بہت اہم صورت اختیار کر گئی۔ کیونکہ 16 دسمبر کے بعد (سانحہ پشاور) حالات نے ایک ایسی کروٹ بدلی جس میں پوری قوم کی طرح سب منتظمین بھی ایک عجیب قسم کی بے بسی اور بے چارگی کا شکار ہو گئے بعض لوگوں کا تو یہ خیال تھا کہ یہ کانفرنس فلاپ ہو جائے گی یا پھر موجودہ سیکورٹی خدشات کے پیش نظر حکومت پابندی عائد کر دے گی ۔ بالآخر29 دسمبر2014 کے روز نظریہ پاکستان ٹرسٹ لاہور میں اس کانفرنس کا انعقاد ہوا، اس روز کی سردی اور صبح کے وقت کی دھند کی شدت بے مثال تھی۔ کانفرنس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیااور شرکاء کے دلوں کو منور کرنے کے لیے گل ھائے عقیدت بحضور سرور کائنات نچھاور کئے گے۔
Urdu Conference
اس تقریب میں ممتاز دانشور، سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر شیخ رفیق احمد نے صدرات کے فرائض سرانجام دیئے جبکہ عزیز ظفر آزاد نقیب محفل تھے اور مہمان خصوصی محمود بشیر ورک رکن قومی اسمبلی ، ڈاکٹر وسیم اختر پارلیمانی لیڈر پنجاب اسمبلی تھے، لیفٹنٹ جنرل (ر) حمید گل ، اوریا مقبول جان، پروفیسر فتح محمد ملک، پروفیسر ڈاکٹر جاوید منظر، پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال ، اعجاز چوہدری، ڈاکٹر اجمل نیازی، پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری، اجمل قادری اور مولانا عبدالرحمان مکی مہمان اعزاز تھے۔ اور یوتھ اسمبلی کے صدر حنان علی عباسی نے نفاذ اردو کے حوالے سے نوجوانوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ ڈاکٹر وسیم اختر نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قومی زبان دم توڑتی جا رہی ہے اور انگریزی مسلط ہوتی جا رہی ہے ہم اس کو مسلط نہیں ہونے دیں گے۔ جنرل حمید گل کی تقریر ایک مدبر اور جہاں دیدہ شخص کے جذبات کی ترجمانی تھی، مقبول جان اور یا نے اپنی تقریر کی روانی ، دلائل کی فراوانی اور تجربہ کاری سے ماحول گرما دیا۔ ڈاکٹر اردو کے حوالے سے تاریخی اور سیاسی معاملات کو اجاگر کیا جبکہ عبدالرحمان مکی کی تقریر حالات کا معروضی تجربہ پیش کرنے کی صلاحیت کا شاہکار تھی بانی پاکستان قائداعظم کے پاکستان کی آزادی کی تکمیل اس روز ہو گی جس دن اس ملک خداداد میں ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر اردونافظ ہو گی۔
یہی وہ دن ہو گا جب وطن عزیز ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو گا اور یہی وہ ساعت ہو گی جب ہم حقیقی معنوں میں آزاد ہونگے اور ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔ اور اس ملک کی ترقی کی رفتار بھلا کیا ہو گی ماضی میں اسکی کہیں بھی کوئی مثال نہیں ملے ۔ ہاں اگر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات ہو گی تو پاکستان کا نام سر فہرست ہو گا اور لوگ اس کی مثال پاکستان سے دیا کریں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہمارے حکمران اس ملک کو کب ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا عمل شروع کرتے ہیں۔
Mubarak Shamsi
تحریر: مبارک علی شمسی ای میل۔۔۔۔۔mubarakshamsi@gmail.com