بنتے ہو وفا دار وفا کر کے دکھاؤ !

Allah

Allah

تحریر:محمد یاسین صدیق
اللہ تعالیٰ کو دین اسلام باقی تمام ادیان میں سے سب سے زیادہ پسند ہے ۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے:اسی طرح اللہ سبحان و تعالیٰ کو آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ پیارے ہیں ۔دین اسلام کا مرکز و محور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدس ہے ۔اسلام کیا ہے ؟اس بارے میں یہ کہنا کہ دین اسلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال ،اعمال و اقوال کا نام ہے،اس بارے میں دو رائے نہیں ہیں دوسرے لفظوں میں اللہ سبحان و تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسوہ حسنہ قرار دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کو اپنی پیروی قرار دیا ۔دین اسلام کا دارو مدار، مرکز و محور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔

دین اسلام ایک نظریاتی دین ہے جو کہ توحید و رسالت کی بنیاد پر قائم ہے ، توحید و رسالت کے گرددین اسلام کے تمام نظریات، عبادات ، عقائد و معاملات گھومتے ہیں ۔ اس بات میں کسی کو بھی ذرہ بھر شک نہیں ہو نا چاہئے کہ خالص ایمان کی نشانی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے بڑھ کر محبت ہے ۔ آج ہم مسلمان پوری دنیا میں ذلت و رسوائی اٹھا رہے ہیں ، مسلمان امت زوال کا شکار ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جس کیلئے دلیلیں دی جائیں مسلمانوں سے ان کے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے اُن کی عزت و ناموس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے ،68 ملکوں میں مسلمان حکمران ہیں۔

اس کے باوجود ان ممالک کی دنیا میں اتنی بھی وقعت نہیں ہے جتنی ایک یہودی ملک “اسرائیل” کی ہے یا بھارت کی جو کہ ہندو مذہب کا صرف ایک ہی ملک ہے جہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے ۔ یہ پستی ، یہ زوال ، یہ کمزوری ، یہ دنیا میں ۔۔۔۔ مسلمانوں کی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دین اسلا م زوال کا شکار ہے بلکہ اسلام تو دنیا میں پھیلتا ہی جا رہا ہے ،کیو نکہ اس کی سچائی پر کوئی حرف نہیں ہے ۔ مسلمان بھی زوال کا شکار اس لئے ہیں کہ اکثریت نے دین اسلام کی اصل(اس کا ذکر آگے) کو چھوڑا ہوا ہے ۔ مسلمانوں کی موجودہ حالت بہت زیادہ ذلت آمیز ہے لیکن دین اسلام دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔

کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی(ایک ارب نوے کروڑ) عیسائیوں کی ہے دوسرے نمبر پر مسلمان ہیں جن کی آبادی (ایک ارب پچاس کروڑ ہے )لیکن مغرب ا ور اس کے حواری یہ بات جان چکے ہیں کہ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے ۔ بہت سی باتیں اس بات کی دلالت کرتی ہیں۔ یہ بات وہ جانتے ہیں مگر ظاہر اس لئے نہیں کرتے کہ ان کی توہین ہے شیطان اور اس کے چیلے جن میں امریکہ و یورپ ،اسرائیل و بھارت اور فرانس نمایاں ہیں پھر ان کے چمچے جرمن ، ہالینڈ ، ڈنمارک، ناروے ، وغیرہ ہیں اور ان کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی ۔ دین اسلام کو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے تیزی سے بڑھنے والے مذہب کے لحاظ سے فوقیت حاصل ہے ۔ اس کے علاوہ دین اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس پر اس کے ماننے والے کسی نہ کسی شکل میں اس عمل کر رہے ہیں ۔ دین اسلام کی مقدس الہامی کتاب” القران حکیم ”خالص حالت میں بناں کسی تحر یف کے اس وقت دنیا میںسب سے زیادھ پڑھی جانے والی ؛خریدی جانے والی کتاب ہے۔دین اسلام کا اس تیزی سے پھیلنا دشمن اسلام بیرونی قوتوں کو پسند نہیں۔

ان کی لئے پریشانی کا سبب یہ بھی ہے کہ مسلمان پستی کی طرف اور اسلام بلندی کی طرف گامز ن ہے۔وہ جتنا دباتے ہیں ،اس قدر اسلام کے نام لیوا پیدا ہو رہے ہیں ۔ انہیں سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کریں “کھسیانی بلی کھمبا نوچے “وہ اوچھی حرکتوں پر اتر آئے انہوں نے بڑی منصوبہ بندی سے بہت سے حربے استعمال کئے مگر نتیجہ ہمیشہ ان کی سوچ کے کافی حد تک متضاد نکلا ۔ ان میں سے چند ایک کا مختصر ذکر اپنی بات کی وضاحت کیلئے کرنا چاہتا ہوں ۔۔

1 ۔ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر عراق ،افغانستان ، کشمیر اور فلسطین وغیرہ میں خود دہشت گردی کرنا ( جو وہ خود کرتے ہیں کیا وہ دہشت گردی نہیں ہے؟) ۔2۔ مسلمانو ں کا زور توڑنے کیلئے “میڈیا وار”لڑنا اب تو شوشل میڈیا پر انہوں نے باقاعدہ گروپ بنائے ہوئے ہیںبغض اسلام میں جہاں ایک مشن سمجھ کر یہ کام کیا جا رہا ہے ۔ 3۔ منصوبہ بندی جیسے پروگراموں کے ذریعے مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کی کوشش ۔ 4۔ مسلمانوں میں اہم افراد کی مالی مدد کر کے تنظیمی گروہ فرقے بنانا اور ان کی سر پرستی کرنا مثلاًقادیانی اور بہت سے نام نہاد مسلمان اس میں ان کے چیلے ہیں ۔ 5۔ شعاراسلام کا مذاق اڑانا تا کہ مسلما ن دین اسلام کو کم تر سمجھیں مثلاً داڑھی ، حجاب وغیرہ ۔ 6۔ دین اسلام کی حدود کا مذاق اڑانا اور انہیں موجودہ عہد میں نا قابل عمل قرار دینا مثلاًگستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزا ، چوری کی سزا ،حالانکہ دین اسلام صرف سزاوں کا دین تو نہیں ہے اس کا جو اصل دین ہے

اس پر بات ہی نہ کرنا جن میں حقوق العباد ہیں ۔7۔ جدید تعلیم میں غیر اسلامی نظریات کومسلم ممالک کے نصابِ تعلیم میں شامل کرنا مثلاً ڈرون کا نظریہ ارتقاء اور جو اس پر یقین نہ کرے اسے بیک ورڈ کا طعنہ دینا 8۔ مذہب کو سائنس سے الگ قرار دینا اور عصر حاضر میں سائنس کو وقت کی اہم ضرورت قراردینا سائنس وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن دین اسلام سے الگ نہیں ہے بلکہ دین اسلام خود ایک سائنسی مذہب ہے یا ایسے بھی کہا جا سکتا ہے کہ دین اسلام کل ہے اور سائنس اس کی ایک شاخ ۔9۔قرآن پاک کی بے حرمتی چاہے وہ یہودی پادری ذریعے ہو چاہے گوانتاجیل میں اس سے کروڑوں افراد کے جذبات مجروع کرنا ۔10۔ ڈاکٹر عافیہ ،ایمل کانسی، ریمنڈ ڈیوس اور ایبٹ آباد جیسے واقعات بھی ذہین میں رکھیں ان سے بھی کسی نا کسی طرح اسلام کی توہین مقصود ہے۔

١١۔ جرمنی میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاکے بنانے کی عدالتی اجازت لیکن ہولو کاسٹ پر بات کرنے پر پابندی ۔12))اور اب تھوڑے عرصہ پہلے یہودی کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا فلم بنانا۔(13 )اور اب چارلی جیسے ایک تھرڈ کلاس ہف روزہ نے دنیا میں مشہور ہونے کے لیے گستاخانہ خاکے شائع کر دیے ۔اس کے رد عمل میں پہلے کی طرح پوری دنیا میں مسلمانوں کا بھر پور احتجاج، اور پاکستانی میڈیا پھر خاموش۔(یہودی دنیا میں قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود میڈیا کے 90 فیصد مالک ہیں ۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تعداد میں زیادہ ہونا اتنی اہمیت نہیں رکھتا )۔میں نے اس گستاخانہ فلم بنائے جانے پر احتجاج کرنے والوں کے نام پڑھے وہ مسلمان ملک ہوں یا مختلف فرقے ۔جماعتیں۔۔ان سب میں اتحاد نظر آیا۔لیکن صرف احتجاج کرنے میں ۔احتجاج بھی الگ الگ کیا ۔اک دکھ بہت اند ر سے اٹھا ہے۔کیا یہ سب ایک نہیں ہو سکتے۔

جس طرح فرانس میں چند افراد کے قتل پر 40 مغربی ممالک نے مل کر احتجاج کیا ۔ کیا 68 مسلمان ممالک مل کر ایسے احتجاج نہیں کر سکتے ؟۔اگر ھو جائیں تو۔کیا پھر کبھی ۔ کسی کو آپ ۖ کی شان میں گستاخی کرنے کی جرات ھو سکتی ھے۔یہ جو خواب ھے ۔ یہ ہی اسلام کی روح ھے۔اصل اسلام ھے یعنی۔۔۔ بھائی چارہ۔دیکھو سب کافر ایک ہوچکے ہیں۔۔اگر اب بھی ھم سب ۔مسلمان ایک نہیں ھوئے تو ۔۔۔پھر ٹیری جونز،تسلیمہ ۔یوسف ،رشدی، اور چارلی پیدا ھوتے رہیں گے ہم اجتجاج کریں گے تھوڑے دن پھر ۔ ان کی اشیا کا بائیکاٹ کریں گے

Islam

Islam

چند دن ۔ان کے خلاف آرٹیکل لکھیں گے دو چار ۔ فیس بک پر پوسٹ و کمنٹ کریں گے ۔ لعنت لعنت کا نعرہ لگا کر ۔۔جیسا کہ ہم نے پہلے کیا ہے اس بات کو بھول جائیں گئے ۔ اور ہمارے وہی صبح شام ہوں گے ۔اس طرح وہ ہم کو تھکا دیں گے۔ان کا مقصد بھی یہ ہی ہے۔ دین اسلام کی دنیا میں مقبولیت سے حسد میں ،اس کو دبانے کے لیے ،اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے کہ دنیا میں اسلام غالب ہو رہا ہے ،دشمن اسلام گروہ نے جو حربے ،طریقے استعمال کیے جن میں سے چند ایک کا اوپر ذکر کیا ہے ۔ دشمن اسلام کے ان حربوں کے چند نتائج مسلمانوں میں درج ذیل دیکھنے میں آئے۔

اول یہ کہ مغربی چکا چونداور ثقافت سے متاثر روشن خیال طبقہ کم علم اور احساس کم تری کے شکار بعض افراد اپنے رہبروں (شیطان اور اس کے چمچے) کے نقش قدم پر خود بھی شریعت اسلامی یا اسلامی سزائیں و قانون، حدود و قیود اور قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو موجودہ عہد میں نا قابل عمل قرار دے رہے ہیں ،سیکولر سوچ پروان چڑھ رہی ہے ۔

دوم یہ کہ بعض مسلمان جیسا کہ بیرونی قوتیں چاہتی تھیں کہ مسلمانوں کی قوت کم ہو وہ ہڑتالیں اور ملکی املاک کی توڑ پھوڑ کر کے خود اپنے ہی وطن کو نقصان پہنچا تے رہیں اور دشمن ان کی بے بسی کو دیکھ کر ہنستے رہیں سوئم یہ کہ بعض افراد نے دین اسلام کا دامن مضبوطی سے تھا م لیا ان کے اس طرز عمل سے ان کے اندر حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چنگاری کو جلاء ملی۔ اس طرح دین اسلام پر عمل کرنے والوں کی تعداد مزید بڑھنے لگی ہے ۔

چہارم یہ کہ کچھ نے دہشت گردی کو جہاد سمجھ لیا ۔اور کچھ نے جہاد کو ۔۔۔۔۔چوڑ دیا ۔یہ دو نوں طرز عمل غلط ہیں ۔ان میں شدت ہے اسلام تو اعتدال کا دین ہے ۔بعض پر موت کا خوف اتنا طاری ہے کہ جہاد کے ہی منکر ہو چکے ہیں ،مجاہدین کو بھی دہشت گرد کہتے ہیں اور بعض نے دہشت گردی کو ہی جہاد سمجھ رکھا ہے ۔دین اسلام جو کہ میانہ روی ،اعتدال کا دین ہے۔

پنجم کچھ میرے جیسے اپنی ذات کے خول میں بند غم دنیا کی الجھنوں میں پھنسے ہوئے رومانی شاعری ، عشقیہ کہانیوں کے دلدادا افراد نے حب رسول ۖ کی آگ سینے میںلگا کر جہاد بالقلم کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ۔ میں فقط خاک ہوں مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے نسبت میری یہی ایک رشتہ ہے جو میری اوقات بدل دیتا ہے ڈنمارک ،ناروے، جرمنی ،فرانس ،یورپ،امریکہ،اسرائیل،بھارت وغیر ہ میں ایسے گرو ہ پائے جاتے ہیں جو مسلمانوں کے خلا ف شدت پسندانہ رحجان رکھتے ہیں۔مسلمانوں کے لیے کھبی اسکارف پر پابندی (اگر ننگے بدن رہیں تو جائز)،کھبی داڑھی رکھنے پر ملازمت سے برطرفی(یہودی سکھ داڑھی رکھے تو جائز)۔ مسلمانوں کے زوال کی ذمہ داری دشمن اسلام قوتوں پرہے اتنے ہی ذمہ دار مسلمان خود بھی ہیں۔

فر قہ بندی ہے کہیں ذاتین ھیں۔ مسلمانوں کے قلوب سے حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتمے کیلئے انہوں نے توہین رسالت کو اپنا مشن بنایا توہین رسالت کو اس طرح با ر بار دہرایا جائے کہ مسلمان اس کے عادی ہو جائیں ، ان کیلئے یہ معمول کی بات بن جائے ۔ جب مسلمان اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کے عادی ہو جائیں گے تو وہ صرف نام کے مسلمان رہ جائیں گے پھر دشمن اسلام بیرونی قوتوں کو ان سے کوئی خطرہ نہیں رہے گا ۔ یہ قوتیں جانتی ہیں کہ انسانی نفسیات ہے کہ اگر کسی انسان کی نا پسندیدہ حرکت ، کام ، عمل وغیرہ کو اس کے سامنے جب پہلی دفعہ کیا جائے تو اس کا رد عمل بہت شدید ہوتا ہے مثلاً اس کے نظریات کے خلاف کوئی بات۔ اگر یہی بات با ر بار دہرائی جائے تو وہ رفتہ رفتہ اس کا عادی ہو جائے گا اوریہ بات اس کے لئے قابل قبول بن جائے گی ۔ ان کا ماٹو ہے کہ جھوٹ کو اتنی بار بولو کہ و ہ سچ سمجھا جانے لگے۔

اس بات کی وضاحت کیلئے مثالیں بہت سی ہیں مگر چند ایک اس بات کی وضاحت کیلئے ۔ “فحاشی “کی اسلام میں اجازت نہیں لیکن دشمنان اسلام نے کبھی “روشن خیالی”کے نام پر تو کبھی ثقافت کے نام پر ہم مسلمانوں کو اس کا عادی بنایا ۔ ہمارا ٹی وی ، انٹرنیٹ ، کیبل ، ڈرامے ،فلمیں وغیرہ اس بات کی منہ بولتے ثبوت ہیں ۔ دہشت گردی کا الزام مجاہدین پر لگایا گیا ( میرا مقصد ان کی حمایت نہیں بلکہ یہ ہے کہ ایک بات کی تکرار سے الفاظ کے معنی بدل جاتے ہیں) اب ہمارے ٹی وی چینل اور عا م انسان بھی ان سب کیلئے یہی الفاظ ا ستعمال کرتا ہے۔ قحط کو غذائی قلت قرار دینا ۔اپنی ذمہ داری پوری نہ ہو تو لفظ سازش استعمال کرنا وغیرہ ۔اس طرح کافروں نے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسلمانوں کو عادی بنانے کے لئے تکرار کا ہتھیار استعمال کیا۔

کاش تمام مذہبی “سیاسی”، “غیر سیاسی “، “مذہبی اور غیر سیاسی “،” مذہبی اور سیاسی ” جماعتیں اور تمام مسالک توہین رسالت کے معاملہ میں متحد ہو جاتے تو دشمنان اسلام کے اتنے حوصلے بلند نہ ہوتے اور مسلمان بھی زوال پذیر ہونے سے یقینا بچ جاتے ۔ اس وقت وقت کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ مسلمان متحد ہو جائیں اللہ کی “رسی “کو تھام لیں تفرقوں میں نہ پڑیں ۔ یہ فرقہ پرست مسلمانوں کو اتنی بھی سمجھ نہیں ہے کہ ا پ چاہے جس بھی فرقے سے ہوں غیر مسلموں کی نظر میں اپ مسلمان ہیں اس لیے کیا ہی اچھا ہوتا جو ہوتے مسلمان بھی ایک۔

بڑے دکھ کی بات یہ ہے کہ تمام دشمن اسلام قوتوں کا مسلمانوں کے خلاف اتحا د ہے اور ہمارا نا اتفاقی پر اتفاق ہے ۔قرآن پاک کی آیت اور ایک حدیث پاک کا مفہوم یہ کہ :اس وقت تک کوئی خالص مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کو تمام چیزوں مثلاً اولاد مال ، ماں باپ غرضیکہ ہر چیز سے بڑھ کر محبت رسول گرامی قدر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے نہیں ہو جاتی محترم قارئین آئیں غور کریں ، سوچیں ، منصوبہ بنائیں ، عمل کریں اور متحد ہو جائیں ہم کو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کا بدلہ کس سے لینا ہے اور کیسے لینا ہے ؟ یہ ہماری وفا، محبت ، غلامی کاا متحان ہے کسی شاعر نے کتنے اچھے انداز میں اس بات کی وضاحت کی ہے ۔
بنتے ہو وفا دار وفا کر کے دکھاؤ
کہنے کی وفا اور ہے ، کرنیکی وفا اور

اب وقت آ گیا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھرسے دیا جائے۔ اول ۔ہم کو اب سڑکوں پر احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے احساسات ،جذبات پر زخم لگانے چاییے۔اس کا طریقہ آسان ہے ۔ کیا مسلمانوں میں ایسے ماہر فن نہیں پائے جاتے جو ان یہودی ،عیسائی، ہندو، شخصیات کے خاکے بنائیںجن کا وہ بہت احترام کرتے ہوں۔لیکن پیغمروں کے نہیں کیونکہ مسلمان سب پیغمبروں کو مانتے ہیں ۔پھر ان کو پتہ چلے گا کہ ۔۔۔اظہار آزادی رائے ۔۔۔اور فن ۔۔کسے کہتے ہیں۔اس کے لیے میڈیا پر کام کیا جائے ۔
دوم ۔آج سوشل میڈیا بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔ہم کو فیس بک آئی ڈی پر مہر نبوت لگا کر احتجاج کو بھی جاری رکھنا چاہیے ۔جیسا کہ میں نے پہلے لکھا ہے کہ فیس بک پر سینکڑوں کی تعداد میں گروپ ہیں جہاں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک مشن سمجھ کر کیا جا رہا ہے ۔وہ بہت غیر محسوس طریقے سے مسلمانوں اور اسلام کی تعلیمات کا مذاق اڑاتے ہیں کہ اس کا علم بھی نہیں ہوتا اس بات کی وضاحت کے ایک کالم کی الگ سے ضرورت ہے ۔

پھر فیس بک میں ہر مذہب و قوم کے افراد ہیں ۔ایسا ہے کہ سب عیسائی ،ہندو،یہودی ،مسلمانوں سے نفرت نہیں کرتے ،سب توہین رسالت نہیں کر رہے جس طرح ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا ۔ہمارا یہ معنی خیز احتجاج دو فائدے دے گا جو شدت پسند نہیں ہیںان کو اپنی طرف متوجہ کرے گا اور ان کے لیے دکھ ،پریشانی ،کا سبب بنے گا جو شدت پسند ہیں ۔جب وہ ہر طرف مہر نبوت کی پروفائل آئی ڈی دیکھیں گئے تو ان کے لیے ناقابل برداشت ہو گا ۔اس پر میں نے فیس بک پر کافی کام کیا، سینکڑوں نے اس پر عمل کیا ۔دراصل ہم میں مستقل مزاجی نہیں ہے ۔اگر شوشل میڈیا پر اس پروفائل آئی ڈی کو ہر ماہ پابندی سے صرف ایک ہفتے تک ہی لگایا جائے تو وہ کام ہو سکتا ہے ۔جو نفرت سے نہیں ہو سکتا ۔اس لیے اس کالم کے ساتھ میں وہ آئی ڈی بھی سینڈ کروں گا۔

سوئم ۔ہم نے دنیا تک محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام پہنچانا ہے۔اس کے لیے ہم کو خود اسلام پر ،اسوہ حسنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرنا ہو گا ۔یاد رہے دین اسلام کسی فیشن (لباس)کسی علاقہ کی مخصوص رسم ورواج کا نام نہیں ہے ۔دین اسلام ک روح کیا ہے اس پر عمل کر کے ہی ہم دنیا میں اسلام پھیلا سکتے ہیں ۔اس کی مثال اولیاء اللہ (محبت)،ڈاکٹر ذاکر نائیک ،(علم)ہیں ۔جھوٹ سے پرہیز کرنا اور ہمیشہ سچ بولنا ۔ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور ان کو دکھ نہ دینا ۔۔ غیبت سے پرہیز کرنا۔ کسی کو ذلیل نہ کرنا ۔ جھوٹا الزام نہ لگانا۔

بد گمانی سے پرہیز کرنا۔ غصہ نہ کرنا۔ دوسروں کے قصور کو معاف کر دینا۔ خوش اخلاق کا مظاہرہ کرنا۔ ہر حال میں انصاف کرنا۔ بیوی ،بچوں کے ساتھ رحم والا سلوک کرنا اور اسکو دکھ نہ دینا۔ملاوٹ نہ کرنا،رشوت نہ لینا اور نہ دینا۔ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرنا۔ مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ دوسروں کے لیے وہی پسند کرنا جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں ، ضرورت سے زائد مال اللہ کی راہ میں دے دینا ، اور سادگی کے ساتھ زندگی گزارنااور .۔ اللہ کے رسول کی اطاعت کرنا ،خود برائی سے رکنا اور دوسروں کو روکنے کے لیے جہاد(کوشش )کرنا،یہ سارے احکامات ، انسانی زندگی کے معاملات سے تعلق رکھتے ہیں ، اور دین اسلام کی بنیاد ہیں۔میں نے پڑھا تھا کہ اگر دین اسلام کو اک لفظ میں بیان کرنا ہو تو وہ لفظ ہے۔۔ محبت ۔۔۔ہم کو محبت کا پیغام عام کرنا ہو گا ۔جو ہم سے نفرت کرتے ہیں ان تک دین اسلام کی اصل روح کا علم تو پہنچا ہی نہیں ہے ۔اس لیے بقول شاعر اس کا حل یہ بھی ہے کہ ۔
طاقت کی یہاں کوئی ضرورت ہی نہیں ہے
نفرت کا درندہ ہے محبت سے گرے گا

چہارم ۔اگر سب مسلمان ممالک اتحاد کر لیں کہ وہ ان ممالک کی مصنوعات استعمال نہیں کریں گئے جو توہین رسالت میں ملوث ہیں ۔ ۔یہ بائیکاٹ کی مہم مذہبی جماعتیں چلا سکتی ہیں ۔اس کے علاوہ ان ممالک کے سفیروں کو ملک سے نکال دیا جائے ۔اور اقوام متحدہ میں تمام نبیوں کی حرمت کے قانون کے لیے عالمی عدالت میں کیس دائر کیا جائے مسلمان ممالک ے وکلا کا پینل بنایا جائے ۔ڈاکٹر طاہر القادری یہ کیس لڑنے کیے لیے تیار ہیں ۔

یہ سب ہم کو اس وقت تک جب تک بین الا قوامی طور پر ایسا قانون بن جائے جس میںسب کو اپنی اپنی حدود میں رہنے کا کہا جائے۔اور آزادی اظہار رائے کے دہرے معیار کو ختم نہیں کر دیا جاتا ۔دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ہر چوتھا آدمی مسلمان ہے اس لیے دنیا کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچا کر خود سکون سے رہ سکیں۔

Mohammad Yaseen Siddiq

Mohammad Yaseen Siddiq

تحریر:محمد یاسین صدیق