تحریر: لقمان اسد ہردن نیا وعدہ، ہر روز نئی منطق اور روزانہ کی بنیاد پر نیا ایک جھوٹ تراش کر قوم کے سامنے ہمارے حکمران رکھ دیتے ہیں کیا عہد سیاست میں انہیں محض یہی کچھ سیکھنے، بولنے اور کرنے کو میسر آسکا ہے؟ سچائی سے دور دور تک جنہیں ہرگز واسطہ نہیں کہ ان کے نذدیک سچ بولنا، کہنا اور بتانا شاید ایک جرم عظیم اور گناہ کبیرہ ہے۔قوم سے ہمدردی ان کا وطیرہ نہیں اور نہ ہی وہ قوم کے ممنون ہیں کہ قوم کے ووٹ سے تو وہ منتخب ہوکر نہیں آئے۔
دھاندلی اور پیسے کا کھیل سیاست کو انہوں نے بنارکھا ہے اس لیے کم ہی قومی مسائل پر توجہ متمکن کرپاتے ہیں سرکاری وسائل اور قومی خزانے کا بے دریغ استعمال اپنے ذاتی کاروبار اور مفادات پر وہ صرف کرتے ہیں کیونکہ دولت سمیٹنا،مال بنانا ہی ان کا محبوب مشغلہ ٹھہرا ہے جب کہ اپنی بقاء کا حتمی تصور اسی راز میں وہ مضمر پاتے اور اسی عمل کو ہی اپنی کامیابی اور کامرانی سے تعبیر کرتے ہیں۔یہی وہ فلسفہ سیاست ہے کہ جمہوریت کی آڑ میں جس پر آصف علی زرداری،میاں محمد نواز شریف اور ہمارے ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں کے قائدین کاربند ہیں۔
Pakistan
الیکشن 2013 منعقد ہوئے تو جس دن یہ الیکشن ہورہے تھے اسی شام کوئی تقریباًسوادس کے قریب میاں محمد نوازشریف ٹیلی ویژن پر نمودار ہوتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم دوسری سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے ساتھ حکومت بنائیں گے اور انتقام پر ہرگز نہ اتریں گے انہیں کہا ںسے یہ الہامی یا غیب کی خبریں حاصل ہوپائیں کہ کل کے تمام نتائج ان کو معلوم ہوچکے اور وہ اپنی فتح وکامرانی کا اعلان سرشام ہی کرنے پر بضد تھے؟ اس خوف سے کہ دھاندلی کا بنایا گیا منصوبہ صبح تک کہیں بے نقاب نہ ہوجائے اس لیے کسی تبدیلی کی صورت میں وہ شور واویلا یا ہنگامہ کھڑا کرسکیں کہ ہمیں تو کامیابی کا ادراک رزلٹ آنے سے قبل ہوچکا تھا،ہمیں تو کامل یقین تھا ہم ہی نے یہ معرکہ سر کرنا اور انتخابات جیت جانے ہیں تو آج صبح ہوتے ہی ہمارے خواب ایک سازش کے تحت ہی چکنا چور کردیے گئے اور ہمیں شکست کی ذلت سے دوچار کیا گیا ہے۔
پاکستان میں یہ پہلا موقع تھا کیونکہ انتخابی نتائج الیکشن کے روز اتنے وقت تک کبھی مکمل نہیں ہوپاتے کہ جس وقت مسلم لیگ ن کے قائد جناب میاں محمد نواز شریف اپنی انتخابی کامیابی کا اعلان کردینے کے بعد اپنے آئندہ کے لائحہ عمل سے متعلق ملک وقوم کو آگاہی دے رہے تھے۔
جب اس انتخابی عمل اور مسلم لیگ ن کی حکومت بن جانے کا مرحلہ مکمل ہوچکا تو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جو الیکشن مہم میں ایک جلسہ کے دوران سٹیج سے گر کر زخمی ہوگئے تھے اپنی صحت یابی کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہنچے تو انہوں نے ن لیگی حکومت کو اسمبلی فلور پر تجویز دی اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ملک میں جمہوری عمل کے تسلسل کو جاری رکھنے کی خواہش کے سبب تحریک انصاف نے الیکشن کے نتائج قبول کیے ہیں وگرنہ تحریک انصاف کا موقف گزشتہ انتخابات کے حوالے سے بڑا واضح ہے کہ الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی،بے ضابطگیاں اور ریگنگ ہوئی ہے اس لیے میں یہ مطالبہ حکومت کے سامنے رکھتا ہوں کہ وہ چار حلقوں میں تحقیقات کا حکم جاری کرے اور اس عمل کا جلد آغاز ہونا چاہیے۔
حکومت نے مگران کی ایک نہ سنی وہ بار بار اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری سے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے رہے مگر وہاں بھی انہیں لفٹ نہ کرائی گئی تب انہوں نے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔ (جاری ہے )