واشنگٹن (جیوڈیسک) گوانتا ناموبے کے سابق قیدی نے اپنی یاداشتوں پر مبنی ایک کتاب شائع کی ہے۔ اس کتاب میں اس نے تفتیش کے ان طریقوں سے پردہ اٹھایا ہے جن کی مثال نہیں ملتی۔
محمدو اولد صلاحی کی کتاب گوانتانامو ڈائری دراصل اس کی گرفتاری سے لے کر بعد کے ان تمام واقعات پر مبنی ہے جو اسے گوانتانامو بے میں دوران قید پیش آئے۔ ٹارچر کے اِن طریقوں میں غیر معمولی اذیت، مار پیٹ، نیند سے محرومی، زبردستی کھلانے پلانے سے لے کر یہ مایوسی پیدا کرنے کی کوشش بھی شامل تھی کہ وہ کبھی بھی جیل سے باہر نہیں نکل سکے گا۔
اس کتاب کی اشاعت کے لئے ایک برس تک لڑی جانے والی قانونی جنگ کے بعد گوانتامو ڈائری امریکا اور متعدد یورپی ملکوں میں پیش کی گئی ہے۔ تاہم اس کتاب کا حتمی مسودہ بھی امریکی فوج کے ہاتھوں سنسر سے محفوظ نہیں رہا۔ صلاحی کے مطابق گوانتانامو بے میں امریکی تفتیشکاروں کی طرف سے دوران تفتیش ایسے ایسے طریقے اختیار کیے گئے جو انتہائی شرمناک اور تکلیف دہ تھے۔
ایسے ہی ایک واقعے کا وہ اپنی ایک کتاب میں ذکر کرتے لکھتے ہیں کہ انہیں تکلیف پہنچانے کے لئے انہیں زبردستی جنسی عمل پر بھی مجبور کیا گیا۔ ان کی کتاب میں درج ایک واقعے کے مطابق دو خواتین ان کے سامنے بے لباس ہو کر انہیں جنسی عمل کے لئے اکساتی رہیں اور عریاں فلموں میں دکھائے جانے والے مناظر کی طرح ان کے ساتھ سلوک کرتی رہیں۔
صلاحی جو اب 44 برس کے ہو چکے ہیں ان پر کبھی کوئی جرم عائد نہیں کیا گیا۔ امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج جیمز رابرٹسن کے حکم پر انہیں 2010ء میں گوانتانامو بے سے رہائی ملی۔ عدالت کے سامنے حکومت ایک بھی ایسا ثبوت پیش نہ کر سکی کہ گرفتاری کے وقت صلاحی کا القاعدہ سے کوئی تعلق تھا۔
یہاں تک کہ فوجی استغاثہ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ صلاحی پر کوئی جرم عائد نہیں کیا گیا تھا۔ ایک ملٹری استغاثہ نے تو ان کے خلاف اس وقت پیش ہونے سے انکار کر دیا جب اسے معلوم ہوا کہ صلاحی سے لیا گیا بیان دراصل تشدد کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا۔ صلاحی 1990ء کی دہائی میں افغانستان کی جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ صلاحی انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ کینیڈا میں بھی رہ چکے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا امریکا میں ہونے والے نائن الیون حملوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ صلاحی کو 2001ء میں موریطانیہ سے گرفتار کیا گیا جس کے بعد ان سے اردن میں تفتیش کی گئی اور انہیں آٹھ ماہ تک جبر وزیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا جس کے بعد انہیں افغانستان میں قائم بگرام جیل بھیج دیا گیا اور پھر وہاں سے گوانتانامو بے کے لئے روانہ کیا گیا۔ 2009ء میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں صالحی پر روا رکھے جانے والے تشدد کی تفصیل بیان کی گئی تھی۔
اس رپورٹ کے مطابق صلاحی کو کئی ماہ تک قیدِ تنہائی میں رکھا گیا، سرد قید خانے میں بھی مقید کیا گیا، فرش پر جکڑا کر رکھا گیا، خوراک سے محرومی، نمک والا پانی پینے پر مجبور کرنا، کمرے میں زبردستی کھڑا رکھنا، تیز روشنیوں اور ہیوی میٹل موسیقی کئی گھنٹوں تک تیز آواز کے ساتھ سنوانے جیسی تکلیفوں کے علاوہ انہیں نماز پڑھنے کی اجازت نہ دینے کے ساتھ ساتھ مار پیٹ وغیرہ کا سامنا رہا۔ انہیں یہ جھوٹی خبر بھی دی گئی کہ ان کی والدہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور انہیں گوانتانامو بھیجا جا رہا ہے۔