پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کا توہین رسالت کے حوالے سے عالمی رہنمائوں کے نام کھلا خط

Dr. Tahir-ul-qadri

Dr. Tahir-ul-qadri

پاکستان (انجم بلوچستانی) گذشتہ دنوں فرانس میں اسلام کے خلاف توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ اشاعت پر پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے سخت احتجاج کرتے ہوئے امریکی صدر اوباما، سکریٹری جنرل اقوام متحدہ بانکی مون،او آئی سی کے سکریٹری جنرل ایاد امین مدنی اور برطانوی و زیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کوایک خط تحریر کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ” اقوام متحدہ، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن اور یورپی یونین توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے معاملہ کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کی وجہ سے انتشار اور تصادم کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا آزادی اظہار صرف کسی مخصوص طبقہ یا چنی گئی قوم کا ہی حق ہے ؟ کیا آزادیء اظہار کے بے لگام گھوڑے کواس طرح کھلا چھوڑا جا سکتا ہے ؟ایک دین کے پیروکاروں کیلئے حد سے زیادہ بڑھی ہوئی آزادی رائے،اسکے اظہار کے حق کی مکمل پشت پناہی اور اسی مسئلہ پر دوسروں کیلئے قدغن دوہرا معیار ہے ۔جس کی کسی طرح بھی حمایت نہیں کی جا سکتی۔”

انہوں نے لکھا کہ” مسلمانوں اور اسلام کے خلاف دشنام طرازی اور غیر اخلاقی مواد کی اشاعت پر کئی مواقع پر مسلمانوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا تا کہ عالمی امن قائم رہے ۔اس رویہ کی روشنی میں عالمی امن کے قیام کا تقاضہ ہے کہ اقوام متحدہ فوری طور پراس ضمن میں واشگاف قوانین مرتب کرے،کسی مذہب کی توہین اوراسکی مقدس ہستیوں کے خلاف کسی بھی قسم کے قابل اعتراض مواد کی اشاعت کو قابل تعذیر جرم ٹھہرائے اور اسے حقیقی معنوں میں نافذ کرے۔”

ڈاکٹر طاہر القادری نے یورپین ممالک کے آئین اور قوانین کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ”بعض ممالک میں عیسائیت کے خلاف بات کرنا جرم ہے ۔اگر دنیا نے اس انتہائی اہم اور نازک مسئلے پر ذمہ داری نہ دکھائی تو تہذیبوں کے تصادم سے بچنا ممکن نہیں رہ سکے گا۔

دنیا کو تہذیبوں کے تصادم سے بچانے کیلئے آزادی اظہار کی نئی تعریف ضروری ہو گئی ہے۔توہین رسالت آزادیء اظہار نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے بنیادی حق سے انحراف ہے،ان کے عقیدہ،انکی سوچ، انکیجذبات کی سراسر توہین ہے۔”

انہوں نے مغربی دنیا کے سامنے سوال اٹھاتے ہوئے اپنے خط میں لکھا ہے کہ” یورپ کے بعض ممالک میں ہولو کاسٹ کا انکار جرم ہے۔ کیا یہ آزادیء اظہار کے خلاف نہیں؟ہمیں دنیا کو دہرے معیار سے نکالنا ہوگا،یہی وقت کا تقاضا ہے۔”