خلق خدا کی بھی سنیے۔۔۔۔

Divorce

Divorce

تحریر: فرخ شہباز وڑائچ
اس تیزی کے دور میں لکھے گئے الفاظ کا فیڈ بیک فوراََ آجاتا ہے، یہ فیس بک ٹویٹر کا زمانہ ہے۔ ایک عرصہ تک تو ہم یہی سوچتے رہے کہ ہمارے لکھے گئے الفاظ کا اثر کسی پر تو دور خود ہم پر بھی نہیں ہوتا۔ ہم لاکھ لکھتے رہیں پٹرول کا بحران شروع ہونے والا ہے، لوڈ شیڈنگ کا موسم آیا جاتا ہے، دہشت گردی کی ہوا کو روکئے مجال ہے کسی کے کان پر جوں بھی رینگی ہولاہور سے مبشر احمد کا نامہ موصول ہوا ہے،سچ پوچھیں تو اس خط میں لکھی گئی جیتی جاگتی کہانیاں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ وہ لکھتے ہیں” میں اس امید کے ساتھ آپ کو یہ خط ارسال کر رہا ہوں کہ آپ خوار اور دربدر ہوتی عوام کی آواز اپنے کالم کے ذریعے ارباب اختیار تک پہنچائیں گے۔

عائلی عدالتوں میں خوار ہو تے ہوئے والدین میں سے ہر ایک کی کہانی انتہائی دلخراش ہے۔ کئی ایسے والدین ہیں جوکہ گزشتہ 10، 10 سال سے وہا ں پر دھکے کھا رہے ہیں ۔لیکن مقدمات ہیں کہ ختم ہو نے کو ہی نہیں آتے۔ بات کسی کنا رے نہیں لگتی ۔ 10 سال سے عائلی عدالت آنیوالی خاتون نے بتایا کہ “میں یو نیورسٹی میں پر وفیسر ہو ں اور میری قسمت کی خرابی تب شروع ہو ئی جب میرے خاندان نے مجھے طلاق دے کر گھر سے نکالا اور بچے اپنے پا س رکھ لیے ۔ تقریباً ایک ما ہ تک خاندان کی سطح پر صلح صفائی کی ناکام کوششوں کے بعد مجبوراً ہائیکورٹ میں بچوں کی حصولی کا مقدمہ کیا۔ صد افسوس کہ میرے سابقہ سسرال نے یہ موقف اختیا رکیا کہ میں خود بچوں کو چھوڑ کر چلی گئی تھی اور اُن کو وقت دیا جائے کہ و ہ مجھے منا لیں ۔ اس وقت جج صاحب کے یہ خیال کیے بغیر کہ طلا ق مجھے بھجوائی جا چکی ہے ۔ اور اس کا مطلب یہی ہے کہ اس میں میرا قصور نہیں ہے ۔انہوں نے بچے میرے سسرال کے حوالے کر دئیے۔ اس کے بعد اگلے پانچ سال تک میری ملاقات مختلف تکلیف دہ حیلوں بہا نوں سے روکی گئی۔ حتیٰ کہ ایک مرتبہ میں پو رے دس ما ہ تک اپنے بچوں کی شکل نہ دیکھ سکی۔

اس دوران سسرال والوں کی جانب سے میرے بچوں کو مجھ سے نفرت کا شکار کیا گیا اور پانچ سال بعد بچوں کو مستقل طور پر میرے سابقہ شوہر کے حوالے کر دیا گیا ۔ اس کے بعد عدالتی دبائو کے باوجود بچوں کے باپ نے کبھی بچوں سے میری ملاقات کی ضرورت محسوس نہ کی ۔ کہ میری ملاقاتیں کروائی جائیں ۔ حتیٰ کہ اب گیا رہ سال بعد بھی میں اپنے بچوں سے دور ہو ں ۔ بات یہی ہے کہ عدالتی فیصلے کمزور کو کمزور تر اور طاقتور کو مزید طاقتور بناتے ہیں اور بدلے کے رواج کو فروغ دیتے ہیں ۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ میا ں بیوی کے باہمی تنا زع کو بچوں کی تحویل کے معاملے سے علیحدہ کیا جائے ۔ جیساکہ ترقی یا فتہ ممالک میں ہو تا ہے ۔ علیحدگی کے شروع میں ہی ملاقات کا شیڈول دیا جائے ۔ جس پر سختی سے عمل کروایا جائے ۔ تاکہ مقدمہ کے دوران دونوں والدین اور ان کے خاندانوں سے بچے کا تعلق قائم رہے۔

Court

Court

ایک انتہائی معروف و مصروف سرجن اپنے علیحدہ شدہ بیٹے سے ملنے کیلئے ہر ما ہ کوئٹہ سے ایک طویل فاصلہ طے کرکے لاہور آتے ہیں۔ وہ جیسے آتے ہیں ویسے ہی ما یو س ہو کر واپس لوٹ جاتے ہیں کیونکہ چھے سال تک تمام تر تکالیف سہنے کے باوجود اور عدالتی احکامات ہونے کے باوجود ان کی سابقہ بیوی کی اپنی ضد ہی ان کی بچے سے ملاقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔وہ بچے کو ڈیڑھ گھنٹے کیلئے اپنے گھر سے جو کہ لاہور میں ہی ہے، پانچ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے عدالت لانے سے انکا ری ہے۔ سرجن صاحب کوئٹہ سے عین مقررہ وقت پر بچے سے ملاقات کیلئے گارڈئین کورٹ پہنچ جاتے ہیں لیکن خاتون لاہور میں ہی ہو نے کے باوجود بچے کو عدالت میں نہیں لاتی۔ حال یہ ہے کہ عدالتیں نہ اس والدہ کواپنا حکم ماننے پر مجبور کر تی ہیں ۔نہ ہی ہر ما ہ باپ کا ملاقات پر آنیوالا 30,000روپے خرچ کروانے کو باپ کے ساتھ زیا دتی تسلیم کرتی ہیں ۔ واضح رہے کہ اس خرچ کی رقم میں سائل کے بذریعہ ہوائی جہا ز کوئٹہ سے لاہورآنے کا ائیر ٹکٹ بھی شامل ہے ۔ وہ اپنے بچے کا ماہانہ خرچہ بھی ادا کر رہے ہیں لیکن پھر بھی اپنے بچے کی ایک جھلک دیکھنے سے قاصر ہیں ۔ روپیہ پیسہ سب کچھ ہونے کے باوجود ایک صاحب حیثیت شخص اپنے بچے سے نہیں مل سکتا تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غریب، بے بس ، ناچار لو گوں کا کیا بنتا ہو گا؟

گزشتہ 7سال سے گارڈئین عدالت آنیوالے راشد محمود صاحب نے بتایا کہ علیحدگی کے بعد عدالت نے بچے ما ں کے سپرد کر دئیے تھے ۔ جس کے بعد ان سات سالوں میں آج تک ایک بھی عید ، بقرعید ، شب برات یا کوئی بھی ایسا خوشی کا موقع اپنے بچے کے ساتھ نہیں گزار سکے۔ حتیٰ کہ عدالت نے کبھی بھی ایک رات گزارنے کی اجازت نہیں دی۔ جب میں نے عدالت سے اپنے بچوں سے ملنے کی اجازت ما نگی تو مجھے اپنے بچوں سے ملنے کیلئے 50لاکھ روپے کے بنک کے سیونگ سرٹیفکیٹ اور پاسپورٹ بطور ضمانت جمع کروانے کے احکامات جاری کیے گئے جو کہ ایک باپ پر کس قدر ظلم ہے لیکن میں نے بہت مشکل اٹھانے کے باوجود یہ دونوں چیزیں اور بہت سے لوازمات عدالت میں جمع کروادئیے۔ پھر کہیں جا کر مجھے اپنے بچوں سے ملاقات کی اجازت دی گئی۔ یہ سب کچھ یا تو دوسرے مخالف فریق سے بھی لیا جاتا لیکن اس سے ایسا کچھ طلب نہیں کیا گیا۔ اندازہ کریں کہ مجھے بچوں سے ملنے کیلئے لا ہور سے کراچی جا نے کا عدالتی حکم جا ری کیا گیا تھا۔

ہر دوسرے ہفتے کر اچی جا نا کس قدر اذیت ناک کام ہے۔ روپے پیسے کا خرچ الگ، ذہنی کوفت الگ ، اپنے دفتر سے کام کا حر ج الگ اور پھر ملاقات کے دوران ہمیں مخالف فریق کی طرف سے جس قدر پریشان کیا جاتا تھا وہ ایک الگ لمبی کہانی ہے۔ مجھے اپنے ہی بچوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ میں باپ ہو کر انہیں ٹیلی فون نہیں کرسکتا ۔ نہ ہی میرے بچوں کو مجھ سے بات کر نے کی اجازت دی جا تی ہے ۔ابھی بھی میں گزشتہ7سال سے 7ہزار روپے ما ہانہ خرچ دے رہا ہو ں ۔سات سال کی ادا کی گئی اس رقم کو جمع کریں تو لاکھوں روپے میں رقم بنتی ہے ۔ جو کہ میں اب تک مخالف فریق کو دے چکا ہوں لیکن ابھی بھی حال یہ ہے کہ میر ی اپنے بچوں سے کئی کئی ما ہ تک ملاقات نہیں ہوتی۔ بات ابھی بھی جو ں کی توںہے ۔سارے کا سار امسئلہ گارڈئین اینڈ وارڈز ایکٹ کا ہے جس کے ذریعے تمام کے تمام حقوق اٹھاکر والدین میں سے صرف ایک ہی کی جھولی میں ڈال دئیے گئے ہیں ۔ ان گارڈئین اینڈ وارڈز ایکٹ میں ترامیم ہونا ازحد ضروری ہے تاکہ علیحدگی کے بعد دونوں والدین کو بچے تک پچاس فیصد برابری کی شرح تک رسائی مل سکے ۔یہ ہوش ربا معاشرتی حقیقتیں اپنے کالم میں شامل کرنے کا مقصدتو یہ ہے کہ اس دردناک مسئلے کا کوئی حل نکلے۔ اقتدار اور اختیار والوں سے گزارش ہے !ہو سکے تو کچھ خلق خدا کی بھی سنیے۔۔۔۔

Farrukh Shahbaz Warraich

Farrukh Shahbaz Warraich

تحریر: فرخ شہباز وڑائچ