تحریر: فیصل اظفر علوی وطن عزیز پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت کا برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے وقت سے ہی پاکستان کے اندرونی مسائل میں ٹانگ اڑانے کا ریکارڈ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ بر اعظم ایشیاء کے امن کو ہمیشہ خطرات لاحق رہے ہیں جس کا ذمہ دار عالمی برادری پاکستان کو ٹہراتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت روز اول سے ہی پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں کلیدی کردار ادا کرتا نظر آیا ہے، بھارتی حکومت نے روز اول سے ہی پاکستان کے قیام اور پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے سراسر انکار کیا ہے جو کہ ایک بہت بڑی حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے، روز اول سے ہی نو منتخب بھارتی حکومتیں اپنی سیاسی پالیسیوں میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کو سر فہرست رکھتی آئی ہیں جس کی وجہ سے برصغیر اور عالمی دنیا میں اس خطے کی جگ ہنسائی ہوتی رہی ہے۔
یہاں اس بات سے انکار بھی قطعی طور ممکن نہیں کہ پاکستان کی حکومتوں نے ہمسایہ ملک بھارت کو کبھی اس کے الزامات کا منہ توڑ جواب نہیں دیا اور نہ خارجہ پالیسی کو اتنا مضبوط کیا کہ کوئی بھی دشمن پاکستان وطن عزیز پر گھنائونے الزامات لگانے سے قبل سوچنے پر مجبور ہو، پاکستان اس خطے میں اپنی نوعیت کا واحد ملک ہے جسے عالمی برادری اور ہمسایہ ملکوں کی تنقید اور الزامات کا تواتر سے سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں ہماری خارجہ پالیسی کا کمزور ہونا اور حکومتوں کا غیر سنجیدہ ہونا سب سے بڑی وجوہات ہیں ، عالمی امن کے حوالے سے پاکستان اور پاکستانی قوم کا موقف ہمیشہ دو ٹوک رہا ہے ، پاکستان نے کبھی بھی عالمی امن و عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی لیکن بھارت کی ہمیشہ سے یہی روش رہی ہے جس کی مثال مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے، عالمی برادی کی طرف سے اسلحے کی دوڑ کو روکنے کیلئے بنائے جانے والے قوانین کی پاسداری کو ہمیشہ پاکستان نے مقدم رکھا ہے لیکن خود عالمی برادری اور عالمی امن کے نام نہاد ٹھیکیداران جن میں امریکہ اور بھارت سر فہرست ہیں انہوں نے اپنے ہی بنائے جانے والے عالمی قوانین کی خلاف ورزی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ہے۔
اب حالات یہ ہیں کہ اگر دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی سانحہ /واقعہ رو نما ہو جائے تو اس کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق پاکستان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، پاکستان خود طویل عرصے سے دہشت گردی کے عذاب میں مبتلا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنی قربانیاں پاکستان نے دی ہیں اتنی کسی بھی ملک نے نہیں دی لیکن اس کے باوجود پوری دنیا میں ہونے والی کسی بھی شدت پسندانہ کارروائی کا تعلق کسی نہ کسی طرح پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، پاکستان کی سلامتی کی ضامن انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی پر ہر دو ماہ گزرنے کے بعد الزامات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے کہ آئی ایس آئی دہشت گردوں کو تربیت دے رہی ہے اور انہیںمعاونت فراہم کر رہی ہے جو کہ انتہائی قابل مذمت بات ہے، جبکہ حقیقت یہ کہ بھارت اور بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کی شر انگیزیوں سے اس کا کوئی بھی ہمسایہ ملک محفوظ نہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھارت نے کبھی بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش نہیں کی ، بھارت کے اس رویے کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی مکمل آشیر باد حاصل ہے جو پاکستان کا برائے نام ساتھ دینے اور پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔
Barack Obama
امریکی صدر باراک اوباما کا حالیہ دورہ بھارت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جسے پاکستانی حکومت سنجیدگی کے ساتھ نہیں لے رہی ، پاکستان کی موجودہ حکومت ایک طرف تو سعودی فرمانروا کے انتقال پر ایک روزہ سرکاری یوم سوگ کا اعلان کر رہی ہے اور دوسری طرف آنحضرت ۖ کی توہین کے مرتکب گستاخانہ خاکے شائع کرنے والوں کے خلاف سرکاری طور پر مذمت کرنے سے کترا رہی ہے، حالانکہ پاکستان کو اس سلسلے میں فرانسیسی سفیر کی طلبی کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنا چاہئے تھا لیکن شاید پاکستان کے نام نہاد مسلمان حکمرانوں کے نزدیک توہین رسالت ۖ اتنا بڑا جرم نہیں جس کی وہ باقاعدہ شدید مذمت کر سکیں ۔
امریکی صدر باراک اوباما نے دوہرا معیار اپناتے ہوئے بھارت کے حالیہ دورے میں کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ہرگز قبول نہیں، نائن الیون اور ممبئی واقعات کے بعد امریکہ اور بھارت دفاع اور سلامتی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں، موصوف امریکی صدرنے ماضی کی طرح ممبئی حملوں کی ذمہ داری ایک بار پھر پاکستان پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ممبئی حملوں کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے گویا ان کے نزدیک پاکستان جو کہ خود دہشت گردی کی عفریت سے چھٹکارا پانے کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کر رہا ہے وہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کر رہا ، جب کہ دوسری طرف موصوف امریکی صدر خود ہی بیان دے رہے ہیں کہ انہوں نے پاکستان اور افغانستان سے القاعدہ اور دہشت گردوں کا مکمل صفایا کر دیا ہے، امریکی صدر نے افغانستان کے امن کیلئے پاکستانی کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے بھارتی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کیلئے بھارتی کردار کے شکر گزار ہیں ، حالانکہ عالمی برادری اچھی طرح جانتی ہے کہ بھارت اور بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” افغانستان کے راستے پاکستان میں در اندازی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، عالمی امن و امان اور خطے کی سلامتی کیلئے عالمی برادری اور خاص طور پر امریکہ کو اپنا دوہرا معیار ترک کرنا ہوگا ۔
پاکستان کی موجودہ حکومت کو عالمی سیاسی ماحول کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی خارجہ پالیسی کو فوری طور پر تبدیل کرنا چاہئے اور سخت موقف اپناتے ہوئے دوٹوک انداز میں الزامات کا بھرپور جواب دینا چاہئے، خارجہ پالیسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں پاکستان کی سلامتی، دفاع اور قیام کیلئے اشد ضروری ہیں، یہ بات بھی درست ہے کہ ہم کسی بھی ملک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بگاڑ نہیں سکتے لیکن اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے دشمن اور دوست کو پہچانتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل ضرور مرتب کر سکتے ہیں، امریکہ اور بھارت کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کو اپنے دیرینہ دوست چین کے ساتھ تعلقات کو اور مضبوط کرنا چاہئے اور قائد اعظم کے فرمان کے مطابق روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا چاہئے۔