کراچی (جیوڈیسک) پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ رواں مالی سال کے اختتام تک منافع بخش ادارہ بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ حکومت کی جانب سے 18 ارب 50 کروڑ روپے کے مالیاتی پیکیج کی بدولت پاکستان اسٹیل کی پیداواریت میں نہ صرف روز افزوں اضافہ ہورہا ہے بلکہ موجودہ مالی سال 2014-15 کی تیسری سہ ماہی یعنی اپریل 2015 تک پاکستان اسٹیل کئی برسوں بعد بریک ایون کا سنگ میل عبور کرنے میں کامیاب ہو گا۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر پاکستان اسٹیل میجر جنرل (ریٹائرڈ) ظہیر احمد خان، ہلال امتیاز (ملٹری) کی 7 اپریل 2014 تعیناتی کے وقت پاکستان اسٹیل کی پیداواری استعداد1.4 فیصد کی سطح تک گر چکی تھی، لیکن موجودہ سی ای او کی سربراہی میں پاکستان اسٹیل کے ملازمین کی شب روز محنت کی بدولت کارخانوں سے 40 سے 45 فیصد پیداوار حاصل کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ منظور شدہ مالیاتی پیکیج کی آخری قسط کے 3 ارب روپے گزشتہ دنوں ہی موصول ہوئے ہیں جس سے خام مال (آئرن اوور/ کوئلہ) درآمد کرنے کیلیے ایل سی کھولی جارہی ہیں ، جبکہ مئی 2014 سے اکتوبر 2014 یعنی 7 ماہ کے دوران 15 ارب 50 کروڑ روپے میں سے پاکستان اسٹیل کی موجودہ انتظامیہ نے ضرورت کے مطابق خام مال (آئرن اوور/ کوئلہ) درآمد کیا اور ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ پانی، بجلی اور گیس کے بلز کے علاوہ گریجویٹی اور پی ایف کی مد میں بھی ادائیگیاں کی گئیں۔
واضح رہے کہ مالیاتی پیکیج میں 9 ارب روپے خام مال کی درآمد کے لیے مختص کیے گئے تھے۔ پاکستان اسٹیل کے اسٹاک یارڈ میں نہ صرف کوئلہ اور خام لوہے کے وافر ذخائر موجودہ ہیں بلکہ مزید 55/55 ہزار میٹرک ٹن کوئلے کے 2 جہاز رواں ماہ کے آخر اور فروری 2015 کے شروع میں پورٹ قاسم پر پہنچ رہے ہیں اور ایک 50 ہزار میٹرک ٹن کا خام لوہے کا جہاز 31 جنوری کو پہنچ رہا ہے جس سے خام مال کے ذخائر کی صورتحال مزید بہتر ہوجائے گی۔ فروری اور مارچ 2015 کے لیے کوئلے اور خام لوہے کے 2/2 جہازوں کے لیے ایل سی کھولی جارہی ہیں، جبکہ وافر اسٹیل پروڈکٹس مارکیٹ میں فروخت کے لیے موجود ہیں۔
پاکستان اسٹیل کے مختلف کارخانے جو گزشتہ کئی برسوں سے عدم توجہی کا شکار تھے ان کو گزشتہ 9 ماہ کے دوران زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے قابل بنادیا گیا ہے۔ موجودہ انتظامیہ نے اس دوران بلاسٹ فرنس نمبر 1 جو اپنی پیداواری مدت پوری کرچکا اور میٹل رساؤ کا شکار تھا اس کو ضروری مرمت اور دیکھ بھال کے بعد نہ صرف فعال کیا گیا بلکہ مسلسل پیداوار بھی حاصل کی جارہی ہے جبکہ 15 مہینوں سے بند بلاسٹ نمبر 2 کو بھی وسیع پیمانے پر ریپیئر کرکے فعال بنادیا گیا ہے۔
ماہرین کا خیال تھا کہ اس کام پرکم از کم 90 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی اوراس کی مرمت میں 10 سے 12 ماہ بھی درکار ہوں گے، لیکن پاکستان اسٹیل نے اندورنِ خانہ وسائل کو استعمال کرکے 4 ماہ میں اسے قابل استعمال بنادیا۔ اسی طرح کنورٹر کے 2 بوائلرز جو گزشتہ 3 سال سے بڑے پیمانے پر رساؤ (لیکج) کا شکار تھے اور تقریبا غیر فعال ہوچکے تھے جس کے باعث اسٹیل کی پیداواربند ہونے کا خدشہ تھا ان پر دن رات کام کرکے اپنے محدود وسائل کو استعمال کرکے دوبارہ کھڑا کردیا گیا ہے جو معمول کی پیداوار میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اسٹیل میکنگ ڈپارٹمنٹ کے 4 سال سے بند ہاٹ میٹل مکسر کو بھی فعال بنادیا گیا ہے جبکہ تھر مل پاور پلانٹ جس سے بجلی پیدا کرنا تقریباً محال ہوگیا تھا، اس کے بوائلرز کی ازسر نو ریپئر اینڈ مینٹی نینس بھی اپنے وسائل سے کی گئی جس سے بجلی کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا ہے اور بجلی کی امپورٹ میں خرچ ہونے والی رقم کی بھی بچت ممکن ہوسکی۔ موجودہ انتظامیہ نے پاکستان اسٹیل کے دیگر کارخانوں کو بحال کرنے کیلیے دوررس اقدامات کیے ہیں جس کی بدولت ہاٹ رولنگ مل اور کولڈ رولنگ مل کے شعبہ جات کو فعال کیا گیا ہے۔
اس مدت میں بلوم کاسٹر، بلٹ کاسٹر، بلٹ مل اور گیلوانائزنگ یونٹ کو بھی پیداوار کے لیے تیار کرلیا گیا ہے لیکن فی الوقت ان پلانٹس پر پیداواری عمل حکمت عملی کے تحت شروع نہیں کیا جارہا ہے جو کہ ضرورت کے مطابق جلد شروع کر دیا جائیگا۔ مذکورہ کارخانوں کی اپنے وسائل سے بحالی اور پیداوار میں اضافے کی کامیابیوں کا سہرا پاکستان اسٹیل کی موجودہ انتظامیہ اورپرجوش ملازمین کو جاتا ہے جس کو ہر سطح پر سراہا جارہا ہے۔