تحریر : عارف محمود کسانہ دنیا بھر کے مسلمان مضطرب اور غم و غصہ میں مبتلا ہیں کہ بار بار توہین آمیز خاکے کیوں شائع کیے جارہے ہیں۔ اس کے سد باب کے لیے کیا کریں۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ خاکے شائع کرنے والے ممالک کا بائیکاٹ کیا جائے اور اس کے ساتھ گوگل ، یوٹیوب اور انٹرنیٹ کے ان تمام ذرائع کا بھی بائیکاٹ کیا جائے لیکن کیا یہ سب ممکن ہے اور کیا اس سے یہ سلسلہ رک جائے گا؟ امت مسلمہ نے گذشتہ پانچ صدیوں سے سائنسی، علمی اور تحقیق کے میدان میں کچھ نہیں کیا اور آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم کھانے پینے سے لیکر جان بچانے کی ادویات اور روزمرہ زندگی کی ہر قابل استعمال چیز کے لیے دوسروں کے مرہون منت ہیں ان حالات میں ہم ان کا بائیکاٹ کیسے کرسکتے ہیں بلکہ اگر وہ ہمارا بائیکاٹ کردیں تو ہماراگذرا مشکل ہے۔ اسرائیل کے بائیکاٹ بھی مہم بھی چلائی جاتی ہے مگر ہر وہ شخص جس نے سمارٹ فون رکھا ہے وہ اسرائیل کا وائبر استعمال کررہاہے چالیس سے زائد اس کی ایسی ایجادات ہیں جو ہماری روز مرہ کی زندگی کا لازمی حصہ بن چکی ہیں۔ پھر ہم بائیکاٹ کیسے کرسکتے ہیں۔
مذہبی جماعتوں کی جانب سے یہ مطالبہ بھی ہوتا ہے کہ ان ممالک کے سفیروں کو ملک بدر کیا جائے جنہوں نے خاکے شائع کیے ہیں۔کیایہ بھی ممکن ہے؟ فرانس کے میگزین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دنیا بھر کے بہت سے ممالک نے خاکے شائع کیے ہیں کیا سب کے ساتھ تعلقات ختم کردیئے جائیں۔ اُن ممالک کے ساتھ کاروبار اور وہاں مقیم مسلمان کیا کریں۔ کیا وہ تحریک ترک موالات کی پیروی کرتے ہوئے وہاں سے نقل مکانی کرجائیں۔ پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کو تو سیاست چمکانے کا موقع ملنا چاہیے۔ انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ وہ نہ صرف عوام کے مذہبی جذبات کے ساتھ کھیل رہے ہیں بلکہ توہین آمیز خاکوں کی مہم کی تشہیر کررہے ہیں۔ ان مذہبی جماعتوں کی یورپ میں موجودشاخوں اور یہاں رہنے والے ان کے علماء کا رد عمل مختلف کیوں ہے۔ آج تک مظاہروں سے کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمارے مظاہروں سے مخالفین کے مقاصد پورے ہوتے ہیں اور ہم ان کی مقبولیت اور دنیا بھر میں پھیلانے کا باعث بن جاتے ہیں۔ فرانس کے اس میگزین کو چند لوگ جانتے تھے مگر اب کو لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوکر دنیا بھر میں فروخت ہورہا ہے۔تو پھر نقصان کس کا ہوا۔
دنیا میں یہ ہمیشہ سے ہوتا آیاہے کہ ہر ایک نظریہ اور تہذیب اپنے تسلط اور حریف کو مٹانے کے لیے برسر پیکار رہتی ہے۔ جب ہمارے پاس طاقت تھی ہم نے بھی اس کا اظہار کیا اور آج بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ بھی اسی کا حصہ ہے۔ اس مشن کے تحت مسلمانوں میں ایسی جماعتوں کی سرپرستی اور پشت پناہی کی جاتی ہے جو شدت پسند نظریات کو طاقت کے زور پر جبر سے نافذ کررہی ہیں تاکہ اسلام کی بدنامی ہو۔ مسلمان عجیب مشکل سے دوچار ہیں اور ان ناگفتہ بہ حالات میں رہنمائی کے لیے ان کے پاس قیادت بھی موجود نہیں۔عالمی سطح پر ان کی آواز بلند کرنے والی کوئی شخصیت موجود نہیں۔ قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ کوئی دانشور، محقق، فلسفی اور مشکل حالات میں قوم کی درست سمت میں رہنمائی کرنے والا نظر نہیں آتا۔
Holy Quran
کوئی اقبال میسر نہیں جو ان کے مردہ دلوں کو گرماتے ہوئے پھر سے امید کا پیغام دے۔ کوئی سرسید نہیں جو زوال کا شکار قوم کو پس ماندگی سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے۔ کوئی جناح نہیں جو ان کا مقدمہ لڑ کرکامیابی دلا دسکے۔ کوئی احمد بن بیلا اور غازی کمال پاشا نہیں جو انہیں منظم کرسکے۔ کوئی ایسا دیدہ ور نظر نہیں آتا جو دور حاضر کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے فلاح اور کامیابی کی جانب لے جائے۔ لیکن مایوسیوں کے ان گٹاٹوپ اندھیروں میں بھی مینارہ نور بن کر رہنمائی موجود ہے اور وہ ہے سیرت رسول عربیﷺ اور اﷲ کی آخری کتاب ۔ ان سے رہنمائی لیتے ہوئے ملت کا ہر فرد اس کے مقدر کا ستارہ بن سکتا ہے اور قیادت کا خلا بھی پُر ہو تاجائے گا۔ یہ ایک مسلمہ اور بنیادی حقوق انسانی میں ہے کہ دوسرے کے جذبات کا احترام کیا جائے اور آزادی رائے کا مطلب دوسروں کے مذہب اور نظریات کی توہین نہیں۔ ایک حقیقت ہمیں یہ بھی پیش ننظر رکھنی چاہیے کہ اہل مغرب کا انداز اور طرز زندگی ہم سے بہت مختلف ہے۔
یہ اپنے مذہبی رہنماؤں اور اکابر کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ جو کچھ یہاں حضرت آدم، حضرت عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کے بارے میں لکھا اورخاکے بنائے جاتے ہیں ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔اس رو میں بہہ کر وہ ہمارے رسول پاک کے بارے میں بھی ویسا کرگذرتے ہیں۔ اس صورت حال کا حل جذبات کی بجائے حکمت عملی میں ہے۔ جو حالات آج ہمیں درپیش ہیں قرآن حکیم ہماری یہاں بھی رہنمائی کرتا ہے۔ توہین آمیز خاکے ہوں یا اسلام دشنوں کا کوئی اور دشنام طرازی قرآن مجید کی سورہ نساء کی آیت ۱۴۰ میں وہ رہنما اصول بتا دیا گیا ہے کہ جذباتی ہونے اور قتل و غارت کی بجائے ایسے عمل سے کنارہ کشی کرلی جائے اور اپنے آپ کو اس سے دور رکھا جائے۔سورہ فرقان میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ جاہلوں سے نہ الجھا جائے۔جب اس طرح کی حرکات پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جائے گی تو رفتہ رفتہ یہ عوامی نظروں سے اوجھل ہوجائے گی۔ دوسرا حل سفارتی اور قانونی محاذ میں ہے۔ اسلامی ممالک کے سفیر مشترکہ حکمت عملی کے تحت سفارت کاری کے میدان میں اپنا کردار داد کرسکتے ہیں جن سے بہتر مثبت نتائج نکل سکتے ہیں اور اس کی ایک مثال بھی موجود ہے جند سال قبل جب ڈنمارک کے ایک اخبار نے توہین آمیز خاکے شائع کیے اور بعد میں سویڈن کے کچھ اخبارات نے انٹر نیٹ پر بھی شائع کرنے کا منصوبہ بنایا تو سٹاک ہوم میں موجود مسلم ممالک کے سفیروں نے اس وقت کی سویڈش وزیرخارجہ سے ملاقات کرکے اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا اور سویڈش حکومت سے اپنا کردار ادا کرنے کو کہا۔ جس پر سویڈش حکومت نے ان اخبارات کے انٹر نیٹ سرور کو بند کرکے اس مہم کو ناکام بنا دیا۔ ایسی ہی سفارت کاری بروئے کار لانا ہوگی۔
اسلام دشمنوں کے ایک طبقہ کو یہ اچھی طرح سے علم ہے کہ مسلمان ایک جذباتی قوم ہیں اورجب بھی ان کے مذہب کے بارے میں باتکیجائے تو وہ بھڑک اٹھتے ہیں اس لیے وہ ہمیں مشعل کرتے ہیں اور ہم ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے مذموم مقاصد پورا ہونے پر اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں اس لیے بہترین حل یہی ہے کہ اس طرح کی حرکات کو بالکل نظر انداز کردیا جائے اور کوئی اہمیت ہی نہ دی جائے تو وہ اپنی موت آپ مرجائے گی۔ ہمارے ہاں ضرب المثل بھی ہے کہ کتے بھونکتے رہتے ہیں اور گذرنے والے اپنے راستہ پر چلتے رہتے ہیں۔ یورپ کے بے شمار اہل دانش اورصاحبان علم وحکمت نے حضورﷺ کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے اور آپ کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہے جس سے سب آگاہ ہیں اس لیے آپ کے نام نامی کو کوئی بھی میلا نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی مہم سے بھی آپ کی سیرت مطہرہ پر کوئی حرف نہیں آسکتا بلکہ یہ ہمارے لیے موقع ہے کہ ہم اخلاق اور چھے طرز عمل سے یورپی عوام کو اسلام کی حقانیت اور بنی رحمت ؐ کی سیرت طیبہ سے روشناس کروائیں ممکن ہے کہ انہی میں ایسے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں جو اس خطہ میں اسلام کی سربلندی کے کے لیے معاون ہوں اور پاسباں مل جائیں کعبہ کو صنم خانے سے۔