انسانی حقوق، پنجاب پولیس اور جرائم

United Nations

United Nations

تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ
پاکستان کا آئین انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے منشور میں انسانی حقوق کا خیال رکھتے ہوئے اس کے متن میں انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام کا بار بار اعادہ کیا گیا ہے۔ چاٹر کا آغاز ہی اس توثیق سے ہوتا ہے۔ اقوام عالم کے مابین برابری کے حقوق اور عوام کی خود ارادیت کی بنیاد پر باہمی دوستانہ تعلقات کو فروغ دیا جائے اور اس کے حصول کیلئے بین الاقوامی تعاون کی فضا پیداکی جائے اور ایسا وقت ہو گا جب انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو بلا امتیاز نسل، جنس،زبان اور مذہب فروغ حاصل ہو گا۔اقوام متحدہ کے منشور کے تحت انسان حقوق کے فروغ کی بنیاد ذمہ داری جنرل اسمبلی پر عائد کی گئی ہے جس کیلئے انسانی حقوق کا ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جو انسانی حقوق کے میدان میں یو این کا مرکزی پالیسی آرگن تصور کیا جاتا ہے کمیشن کی سرگرمی زیادہ تر تصوراتی قدر پیمائی اور مشاورتی نوعیت کی ہے۔ یہ سالانہ مجلس عاملہ کے گروپ کا قیام عمل میں لاتا ہے تاکہ مبینہ سنگین انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کی نشان دہی کر کے فارشات پر غور و حوض کر کے انہیں پیش کیا جائے۔انسانی حقوق پر کمیشن نے اقوام متحدہ کی دیگر تنظیمات آئی ایل او اور یونسکو کے ساتھ ملکر حقوق انسانی کے تحفظ کیلئے قوانین بنائے ہیں۔ ان میں سب سے اہم انسانی حقوق کا عالمی ڈیکلریشن سول اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی اور اقتصادی، معاشی اور ثقافتی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ 1976ء کو اجتماعی طور پر انٹرنیشنل بل آف رائٹس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ تینوں قوانین اقوام متحدہ کے منشور کی انسانی حقوق کی شقوں کی تشریح و تعبیر کیلئے بنیادی راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

ویسے تو پورے پاکستان کو پولیس اسٹیٹ بنانے کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے لیکن اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو پنجاب اس میں کافی حد تک خود کفیل نظر آتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس بات کا سراغ لگانے میں قاصر ہیں کہ جب بھی پاکستان کے کسی حصے میں معاشی سرگرمیاں شروع کی گئیں جن سے ملکی معیشت کو سہارامل سکتا تھا تو وہاں حالات کیوںخراب کر دیے گئے؟۔ ایسا عموماً پاکستان کے صنعتی شہروں میں ہوتا آیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی کو پاکستان کی معاشی شہ رگ کا درجہ حاصل تھا جہاں پاکستان کے تمام علاقوں کے رہنے والے بلا تخصیص نسل آکر مزدوری کرتے تھے اور اسے غریبوں کا دبئی بھی کہا جاتا تھا۔ یہ شہر پاکستان میں سب سے زیادہ زر مبادلہ کمانے والا شہر تھاجسے حکمرانوں نے گزشتہ 25برس سے میدان جنگ بنا رکھا ہے۔ اس کی بربادی میں سب سے زیادہ کردار پولیس نے ادا کیاجو ایک لمبے عرصے تک بھتہ خور اور دیگر جرائم پیش گروپوں کی پشت پنا ہی کر کے ان سے اپنا حصہ وصول کرتی رہی۔ دوسر ی طرف یہی پولیس ملازمین اپنے سرپرست سیا ستدانوںاور جاگیر داروں کے ”احکامات”بجا لا کر ان کے مخالفین کو جعلی پولیس مقابلوں میں ”پار” کر کے اپنی نوکریاں پکی کرتے رہے ہیں۔ پرانا تھانہ کلچر تبدیل کرنے، صوبے کوکرائم فر ی اور کرپشن فری بنانے اور عوام میں پولیس کا سافٹ امیج پیدا کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے ماضی میں صوبے میں 100 ماڈل پولیس اسٹیشن بنانے کا منصوبہ بھی بنایا جن کی لاگت64کروڑ روپے تھی۔لاہور کی حدتک روز نامچوں سمیت تھانوں کا ریکارڈ کو کمپیوٹر ائزڈ کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ہر ماڈل تھانے کو ایک لاکھ روپے ماہانہ کی خصوصی گرانٹ کی تجویز صوبائی حکومت کو پہلے ہی دی جا چکی ہے۔موجودہ صوبائی حکومت نے اپنے پہلے دور میں بھی پولیس کو تنخواہ میں اضافے سمیت کافی مراعات دیں لیکن پولیس کارکردگی کے حوالے سے مطلوبہ نتائج ظاہر نہ کر سکی۔ بلکہ جو ں جوں مراعات میں اضافہ ہوتا گیا صوبے میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔سیاسی مقاصد حاصل کرنے اور مخالفین کو ” سبق” سکھانے کے لیے پولیس کو بہترین طاقت تصور کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں مختلف سیاسی جماعتوں نے کئی بار اس سے مستفید ہونے کا ذائقہ چکھا ہے۔

Punjab Police

Punjab Police

اس وقت پنجاب پولیس کی کل نفری 179921ہے جس میں 09آر پی اوز، 31ڈی پی اوز، 162ایس ڈی پی اوز اور 708ایس ایچ اوز شامل ہیں۔ جبکہ چار بڑے شہروں میں سی پی اوز تعینات ہیں۔پنجاب پولیس کا محکمہ پنجاب کے ان اولین محکموںمیں سے ایک ہے جو انگریز نے اس وقت قائم کیا جب برصغیر کو مکمل طور پر اپنے تحت کر لیا تھا۔ انسان کا کون سا عمل جرم ہے اور کون سا عمل نہ کرنا غیر قانونی اور جرم ہے اسے لارڈ میکالے کی 1860ء میں متعارف کی جانے والی ایک ضخیم کتاب ”Indian penal code ”میں صراحت سے بیان کر دیا گیا ہے جو 511دفعات پر مشتمل ہے۔ اس میں جرائم کو مخصوص دفعات کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور جرم کی سزا بھی ساتھ ہی بیان کر دی گئی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد قانون کی اس کتاب کو ‘ پاکستان پینل کوڈ کا نام دیا گیا۔ اردو میں اسے تعزیرات پاکستان کہا جاتا ہے۔ اس کی کئی دفعات میں ترمیم بھی کی گئی ہے جن میں سابق صدر پاکستان ضیا الحق کی طرف سے ملک میں اسلامی نظام کے نفاز کی کوششوں کے ضمن میں تعزیرات پاکستان کے دو اہم ابواب کی جگہ دو آرڈینینسز شامل کیے گئے۔ ان میں ایک ‘ قصاص دیت آرڈینینس1979ء اور دوسرا حدود قوانین آرڈیننس 1979ء ہیں۔ عدالتوں کو ایک ضابطے کے تحت کام کرنے کے لیے ‘ضابطہ فوجداری ‘ بھی انگریزوں کا تحریر کردہ ہے۔

پنجاب ایک ایسا صوبہ ہے جس کے وزیر اعلیٰ پولیس کو خاص اہمیت دیتے ہیں اور ان کے ہر دور میں پولیس کو مراعات سے نوازا گیا۔ خادم اعلیٰ میاں محمد شہبازشریف قانون پر اور میرٹ کے حوالے سے ایک خاص پہچان رکھتے ہیں اس کے باوجود پے در پے ایسے واقعات کا رونما ہونا پولیس کی روایتی ہٹ دھرمی اور بے حسی کا ثبوت ہیں۔پولیس میں سپاہی سے لے کر اعلیٰ افسران کو بھرتی کے بعد کرائے جانے والے پہلے کورس یا ٹریننگ میں تعزیرات پاکستان پڑھائی جاتی ہے۔ عدالتیں بھی تعزیرات پاکستان کے تحت، جرم ثابت ہونے پر، مجرموں کو سزا دیتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں دیگر قوانین کی طرح اس قانون کی قانون نافذ کرنے والوں کے ہاتھوں خلاف ورزی کی خبریں آئے روز میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔جنوری 2008 سے دسمبر 2014تک وزیراعلیٰ پنجا ب شکایات سیل ، آئی جی پنجاب سمیت اعلیٰ احکام کی طرف سے جاری ہونے والے 5لاکھ ں سے4لاکھ کے قریب احکامات پر عمل درآمد نہ ہو سکا بلکہ متاثرین بہت سی پریشانیوں بھی سامنا کرنا پڑا ہے جن پولیس ملازمین کیخلاف قبضہ گروپ،ڈکیت گینگ وغیرہ کی سرپرستی کا الزام درخواستں دی گئی ہیں ۔ ان کیخلاف انکوائریوں کی بجائے ان ملازمین کو سیاسی سفارشوںپر ترقیوں سے نواز اگیا۔متاثرین سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگوں کو مختلف طریقوں سے خوف زدہ کرکے پنجاب کو پولیس اسٹیٹ بنارہے ہیں۔ پولیس ملازمین کا ایک طریقہ یہ ہے کہ قبضہ کروانے کے بعد کہتے ہیں کہ اگریہ آپ کا حق ہے تو عدالت جائیں یہ ہماراکام نہیں عدالت اور محکمہ مال کا ہے۔ آج کے بعد تھانے کے قریب نظرآنا ورنہ اس انجام براہوگا۔ سادہ لوح مختلف چکرلگالگااپنے حق محروم ہوتے جا رہے ہیں۔

سانحہ پشاور کے بعد آئی جی پنجاب، مشتاق احمد سکھیرا کا دعویٰ ہے کہ پنجاب پولیس دہشت گردی کے خاتمے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کے مطابق دن رات کام کر رہی ہے اور سی ٹی ڈی کے شعبے کو مزید بہتر کرنے کے لئے جدید ترین ٹریننگ حاصل کرنے والا پہلا بیچ اسی ماہ پاس آئوٹ ہو رہا ہے۔ جو صوبے بھر میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے معاون ثابت ہو گا،ملک اس وقت ایک بڑے نازک دورسے گزر ہا ہے اور اس میں کسی بھی پولیس افسر کی کامیابی کا دارومدار اس کی دیانت داری اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر منحصر ہے۔ محکمہ پولیس میں تفتیشی نظام کی بہتری ،تھانہ کلچر کی تبدیلی، کرپشن کے خاتمے اور فورس کی استداد کار بڑھانے کے لئے مختلف اقدامات کیے جار ہے ہیں۔

سی سی پی اولاہور کیپٹن (ر) امین وینس اورڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف کے حکم پر ممکنہ دہشت گردی کے پیش نظر شہر بھر میںآپریشنزوِنگ نے جنرل ہولڈاَپ کیا۔ جنرل ہولڈاَپ کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروںکی نگرانی میں ہزاروںمشکوک گاڑیوں کی چیکنگ کی گئی جن میں بغیر کاغذات گاڑیاںبند کی گئیں۔مشکوک موٹر سائیکلوں کی چیکنگ کی گئی جن میں بغیر کاغذات،بغیر نمبر پلیٹ اور غیر نمونہ نمبر پلیٹ والی موٹرسائیکلیں بند کیں گئیں اسی طرح جنرل ہولڈ اَپ کے دوران یرقانونی اسلحہ برآمدکر کے مقدمات درج کیے گئے۔جنرل ہولڈاَپ شہر کی تمام اہم شاہرائوں سمیت اہم مارکیٹوں اور شاپنگ سنٹرز پرکیاگیا۔ پشاور ورسک روڈپر واقع آرمی پبلک سکول پر حملہ اورپاک فوج کے شمالی وزیرستان میں ضرب عضب آپریشن کے اثرات پورے ملک میں آسکتے ہیںاور دہشت گرد ملک کے کسی بھی حصہ میں دہشتگردی کر سکتے ہیں۔ پشاور دہشتگردی کے واقعہ کے بعد پورے شہر میں حفاظتی انتظامات مزید سخت کر دیئے گئے ہیں۔پورے شہر میں ناکہ بندی کی جارہی ہے اور شہر کے داخلی وخارجی راستوں پر نفری بڑھا دی گئی ہے اور وہاں ہر شخص اور گاڑی کو مکمل چیکنگ کے بعدجانے کی اجازت دیں۔ شہر میں موجود تمام حساس عمارات اور مقامات پر حفاظتی انتظامات کو سخت کر دیا گیا ہے۔شہر میں ناکہ بندی روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی۔ ڈکیتی، چوری اور دیگرجرائم کی وارداتوں کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز اورڈی آئی جی انویسٹی گیشن کو ان وارداتوں میںملوث ڈاکوئوں، چوروں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کو گرفتارکرنے کاحکم دیا۔ جس کے تحت انویسٹی گیشن اورآپریشنز ونگ کی سپیشل پولیس ٹیمیں دن رات جرائم پیشہ افراد کے خلاف سر گرم عمل ہیں۔کاررائیوں کے دوران چوری کی گئی موٹر سائیکلیں، ،موبائل فونز، نقدی،دیگر قیمتی اشیاء اور ناجائز اسلحہ برآمد ہواہے ۔ ایک اندازے مطابق صرف پنجاب روزانہ ہر5منٹ بعد ایک واردات ہوتی ہے۔اور 10لوگ جان کی بازی ہارجاتے ہیں۔لیکن پنجاب پولیس سب اچھا کی رپورٹ جاری کرتی ہے،آخرکب تک۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اپنی قانونی حدود میں رہتے ہوئے برائی کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں کبھی فساد فی الارض پیدا نہیں ہوا۔ ایسا ضرور ہوا ہے کہ برائی کے علمبرداروں نے اس کے خلاف اٹھنے والی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش ضرور کی ہے، جس پر نیکی کی تلقین کرنے والوں نے مظلومانہ جدوجہد کی وہ تاریخ رقم کی ہے، جس کی مثالیں آج بھی ہمارے لئے روشنی کا مینار ہیں۔افسوس کہ اس صریح منصفانہ اور معقول قاعدے کو بھی، جو کسی انسان کا گھڑا ہوا نہیں بلکہ رب کائنات کا مقرر کردہ ہے، ہم پامال ہوئے دیکھ رہے ہیں۔گویا اب تفتیش جرائم کے لئے یہ بھی جائز ہو گیا کہ مظالم پر دباؤ ڈالا جائے۔ یہ سخت شرمناک کردارکی انتہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آئے روز چوری، ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلحہ کے زور پر نہتے اور غریب عوام کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد جمع پونجی سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ عوام کا نہتا ہونا اور جرائم پیشہ افراد کا اسلحہ سے لیس ہونا ہے۔ جرائم پیشہ افراد سفارش اور رشوت کے بل بوتے پر اسلحہ لائسنس آسانی سے حاصل کر لیتے ہیں، جبکہ عام شہری کے لئے لائسنس حاصل کرنا مشکل ہی نہیں، نا ممکن ہے۔ اگر جرائم پیشہ افراد کے پاس اسلحہ نہ ہو تو وہ کبھی سر عام واردات کرنے کی جرات نہ کریں۔ چونکہ جرائم پیشہ افراد کے پاس اسلحہ ہوتا ہے، اس لئے کوئی شخص مزاحمت کرے تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اگر اسلحہ لائسنس ختم کر کے صرف فورسز کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جائے تو انشاء اللہ وارداتوں میں یقیناً کمی ہو گی۔ یا پھر اسلحہ لائسنس ختم کر کے ہر شخص کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جائے اور کھلے عام فروخت کیا جائے تاکہ جرائم پیشہ افراد اور عام آدمی کے پاس اسلحہ ہو اور جرائم پیشہ افراد کا مقابلہ کیا جا سکے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ سیالکوٹ میں کراچی جسی صورت حال پیدا کی جارہی ہے اس کے ذمہ دار کون ہیں۔کیا حکمران پنجاب کو پولیس اسٹیٹ بنانے سے بچا پائیں گئے یا نہیں؟ یا شہرقائدا کے بعد اب پنجاب کو بھی میدان جنگ بنادیا جائے گا؟

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ