سری نگر (جیوڈیسک) جنوبی کشمیر کے قصبے ترال میں بھارتی فوج سے جھڑپ میں شہید ہونے والے دو مقامی مجاہد کمانڈروں کو سپرد خاک کر دیا گیا نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
تفصیلات کے مطابق ترال کے مصافاتی علاقے ہندوارہ میں حزب المجاہدین سے وابستہ دو مقامی عسکریت پسند شیراز ڈار اور عابد خان شہید ہو گئے تھے۔پولیس کے مطابق ایک مقامی عسکریت پسند کمانڈرعابدکے گھر پر چھاپہ ڈالنے کے غرض سے گئے۔
عابد اپنے بھائی عبید اور والدہ کی عیادت کرنے کی غرض سے گھر آیا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا ساتھی شیراز بھی تھا۔ جونہی دونوں عسکریت پسند گھر میں پہنچے تو فوج اور پولیس نے محاصرہ کر لیا۔ پولیس نے قانونی لوازمات پورے کرنے کے بعد شہدا کی میتوں کو لواحقین کے حوالے کیا جس کے ساتھ ہی علاقے میں مکمل ہڑتال ہوئی اسلام اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے گئے۔
شام دیر گئے دونوں کو سپرد خاک کیا گیا ہے۔ دریں اثنا حریت کانفرنس گ نے کہا ہے کہ ہندو شرناتھی ریاست کے مستقل شہری نہیں بن سکتے۔ اس مسئلے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے حکمت عملی ترتیب دی جائے گی۔ حریت کانفرنس گ کی مجلس شوری کا ایک اجلاس جنرل سیکرٹری حاجی غلام نبی سمجھی کی صدارت میں منعقد ہوا۔
میٹنگ میں مغربی پاکستان کے رفیوجیوں کو سٹیٹ سبجیکٹ اور ووٹ کا حق دینے سے متعلق سفارشات، ان کے مضمرات واثرات اور اس سے متعلق حکمت عملی وضع کرنے کے بارے میں تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا اور اس سلسلے میں 29جنوری جمعرات کو بلائے گئے ایک روزہ سیمینار کے انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی۔ حریت جنرل سیکرٹری غلام نبی سمجھی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ پاکستان سے آئے شرنارتھی کسی بھی حیثیت سے جموں کشمیر کے مستقل شہری نہیں بنائے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک تو جموں کشمیر کا آئین کسی بھی غیر ریاستی باشندے کو یہاں کی مستقل شہریت دینے کی اجازت نہیں دیتا ہے اور دوم یہ ریاست بین الاقوامی سطح کا ایک تسلیم شدہ متنازعہ خطہ ہے اور اس کی حیثیت کو کسی بھی صورت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت فرقہ پرستانہ اور بیمار ذہنیت کی حامل ہے اور جموں کشمیر کے بارے میں اس کے منصوبے اور عزائم انتہائی خطرناک اور بھیانک ہیں، وہ یہاں کے لوگوں کی مسلم شناخت کو تباہ وبرباد کرنے میں بھی بہت زیادہ جلد بازی سے کام لینا چاہتی ہے۔
انہوں نے البتہ دہلی کے پالیسی سازوں کو ایڈریس کیا کہ وہ آگ کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور ان کی اس پالیسی سے ریاست کے حالات کسی بھی وقت دھماکہ خیز رخ اختیار کرسکتے ہیں اور یہاں کی غیریقینی اور عدمِ استحکام والی سیاسی صورتحال میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔