ایوان اتحاد پاکستان کے چیئر مین اور مرکزی جماعت اہلسنت کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی نے کہا ہے کہ ہمارا اذلی دشمن بھارت، امریکہ ،اسرائیل اور برطانیہ کے ساتھ مل کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو مذہبی ،لسانی ،علاقائی اور صوبائی بنیادوں پر حصے بخروں میں تقسیم کرنا چاہتاہے اور اس مقصد کے لیے صیہونی طاقتیں ڈالروں کی ہوس کے طبلے کی تھاپ پر رقص کرنے والی این جی اوز کو بھی زرِ خطیر دریا دلی سے فراہم کر رہے ہیں۔
ان خیا لات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز اُمید ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا سیمینار میں سکولزو کالجز کے طلبہ و طالبات کے علاوہ ہزاروں مرد و خواتین نے شرکت کی انہوں نے مذید کہا کہ مغربی ٹکڑوں پر پلنے والی ان این جی اوز کا فقط ایک ہی ایجنڈہ ہے کہ جیسے تیسے ہو سکے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے ان میں فرقہ واریت کا ایسا بیج بو دیا جائے جو آنے والی نسلوں کو اسلام سے بر انگیختہ کر دے۔
مریکی صدر اوبامہ کے دورہ بھارت کے بارے میں کہاکہ جب 1996ء میں سیموئل پی ہنٹنگٹن کی تصنیف ”تہذیبوں کا تصادم ” (clash of civilizations)منظر عام پر آئی تو بہت شور برپا ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ ”جب بھی مغرب اور اسلام کے درمیان جنگ ہو گی امریکہ ہندو ازم کا پارٹنر (اتحادی )ہو گا ”جس طرح جنگ میں دشمن کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی کے تعین کے لیے ضروری ہے کہ نقشہ ء جنگ کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے بالکل اسی طرح فکری اور تہذیبی جنگ میں کامیابی کا انحصار بھی نقشہ ء جنگ اور محرکات ِ جنگ دونوں کے صحیح ادراک پر ہے آج فرانس کے اخبار چارلی ہیبڈو کے کارٹونوں کے ذریعے مغرب کے سور مائوں نے رسول رحمت ، پیغمبر انسانیت ۖ کی ذات پاک ، اسلام اور مسلمانوں کو تمسخر ، تضحیک اور اہانت کا ہدف بنا کر اور دہشت گردی کا منبع اور علامت قرار دے کر جس طرح عالمی تہذیبی جنگ کا اعلان کیا ہے۔
اس کی اصل نوعیت کو سمجھنا اور اس کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عمل بنانا فی الوقت دنیائے اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے فطری طور پر مسلمانوں نے اپنے عالم گیر رد عمل سے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ اُمت صرف مٹی کا ڈھیر نہیں ہے چیچنیا سمیت فلسطین اور عالم اسلام کے مسلمانوں نے جگہ جگہ احتجاج کر کے ثابت کر دیا ہے کہ ابھی اس میں ایمان اور غیرت کی وہ چنگاری بھی موجود ہے جو طاقت کے زُعم میں بد مست ارباب اقتدار کے متکبرانہ اقدامات کو چیلنج کرنے کا داعیہ رکھتی ہے اور جس میں ایسا شعلہ جوالہ بننے کی استعداد بھی ہے جو بڑے بڑے محل نشینوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے اور اُن فرعونوں ، نمرودوں ، قارونوں ، شدادوں کے گھمنڈ کو خاک میں ملا سکتی ہے، فرانس کے اخبار کی شیطانی حرکت سے اُمت مسلمہ کا رد عمل فوری بھی ہے اور فطری بھی ۔۔۔۔۔۔لیکن مسئلہ محض وقتی رد عمل کا نہیں بلکہ مقابلے کی مکمل اور مربوط حکمت عملی اور ہر سطح پر اس کے مطابق پوری تیاری کے ساتھ مسلسل جدوجہد کا ہے