کراچی (جیوڈیسک) سندھ میں 4ریجنل بلڈ ٹرانسفیوژن سینٹرز تاحال فعال نہیں کیے جا سکے ہیں، ان سینٹروں کو 2013میں فعال کیا جانا تھا لیکن ان کی تعمیر مکمل ہوئی ہے نہ ہی انھیں فعال کیاجا سکا ہے جس کے باعث سندھ میں خون کی کمی کو پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جبکہ محفوظ انتقال خون کی فراہمی کا عمل بھی مشکل ہو رہا ہے۔
جرمن حکومت کے تعاون سے ملک میں سینٹرالائز بلڈ بینکنگ نظام کو متعارف کرانا تھا جس کے تحت کراچی ،سکھر،نوابشاہ اور جامشورومیں بلڈ ٹرانسفیوژن سینٹر قائم کرنے تھے کراچی کے سینٹر میں 50ہزار جبکہ دیگر سینٹروں میں بیک وقت 20ہزار بلڈ بیگ رکھنے کی استعداد ہو گی، لیکن 3سال گذرنے کے باوجود بھی یہ قائم نہیں کیے جا سکے ہیں جس کے باعث مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کراچی میں سینٹر سندھ گورنمنٹ قطر اسپتال میں تعمیر کیا جانا تھا جس کی تعمیر نہ ہونے کے باعث کراچی میں محفوظ انتقال خون کی فراہمی مشکوک ہو گئی ہے،سندھ بلڈ اتھارٹی کے غیر فعال ہونے کے وجہ سے ان کا سرویلنس سسٹم بھی ختم کر دیا گیا ہے اس وقت کراچی کے بیشتر نجی بلڈ بینکوں میں ماہر امراض خون کی جگہ ٹیکنیشنز کی نگرانی میں خون کی اسکریننگ کا کام کیا جارہا ہے جبکہ خون کی اسکریننگ میں غیر معیاری کٹوں کا بھی استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
غیر معیاری کٹوں سے کی جانے والی خون کی اسکریننگ عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے،بیشتر نجی بلڈ بینک خون کی اسکریننگ کے لیے غیر معیاری کٹیں استعمال کر رہے ہیں جبکہ سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کی ذمے داری ہے کہ وہ بلڈ بینکس کو پابند کرے کہ وہ معیاری کٹیں استعمال کریں لیکن اتھارٹی کوئی اقدامات نہیں کررہی۔
اتھارٹی نے کراچی میں بلڈ بینکوں کی نگرانی ختم کر دی ہے جس کے باعث کراچی میں جناح ، عباسی اور سول اسپتال کے اطراف میں درجنوں غیر معیاری اور غیر رجسٹرڈ بلڈ بینک خون کی تجارت میں مصروف ہیں، اس سلسلے میں سیکریٹری سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی ڈاکٹر زاہد حسن انصاری کا کہنا تھا کہ ریجنل بلڈ ٹرانسفیوژن سینٹرز کو جولائی سے فعال کر دیا جائے گا۔