شب و روز زندگی (قسط ہفتم)

Prof Nasim

Prof Nasim

تحریر : انجم صحرائی
ویرا سٹیڈیم میں ہونے والی اس تقریب میں مجھے نسیم لیہ، ارمان عثمانی، نذیر چوہدری، شہباز نقوی، امان اللہ کاظم، فضل حق رضوی، فیاض قادری قیصر رضوی، منظور بھٹہ، جمعہ خان عاصی اور شعیب جاذب جیسے ادبی اکابرین سے ملنے اور انہیں سننے کا بھی اتفاق ہوا۔ اسی زما نہ میں لیہ کی ایک خا تون شاعرہ بھی ہوا کرتی تھیں۔ طاہرہ امان نام تھا ان کا۔ طاہرہ امان ارمان عثمانی کی شاگرد تھیں۔ اس زما نے میں کسی خاتون کا شاعر ہونا اور ادبی محفلوں میں جا کر کلام سنانا بڑی دل گردے کی بات تھی بلاشبہ طاہرہ امان خوبصورت لہجہ کی شاعرہ تھیں اس زمانے میں بلدیہ پبلک لائبریری کرنال والی مسجد کے ساتھ والے پارک میں بنی عمارت میں ہوا کرتی تھی۔

جب وقت ملتامیں بھی لا ئبریری میں چلا جا تا ۔ نسیم لیہ مر حوم لا ئبریری انچارج ہوا کرتے تھے اس زما نے میں لا ئبریری کے ریڈ نگ ہال میں لیہ کے سبھی معروف شعرا کی تصاویر سے مزین ہا تھ سے بنا ئے گئے چا رٹ لگے ہو تے تھے جن پر تصویر کے ساتھ صاحب تصویر کی ادبی خد مات کا مختصر تذ کرہ بھی لکھا ہو تا تھا ۔ نسیم لیہ ایک کھلے دل کے میزبان اور مہمان نواز ادب دوست شخصیت تھے وہ جتنے بڑے شا عر تھے اتنے ہی بڑے نثر نگار ۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ کو ئی ان کی محفل میں جا ئے اور چا ئے نہ ملے اگر کبھی اپنی جیب میں پیسے نہ ہو تے امریکن سسٹم کا اعلان کر کے سبھی دو ستوں سے اشتراک سے چا ئے کا بندو بست کرتے اور یوں چا ئے مہمان کی خد مت میں پیش کرتے ۔ الہی بخش سرائی ،خاور تھلو چی ، بر کت اعوان ، فیض بھٹی اور واحد بخش بھٹی سے ملا قا توں کا یہی لا ئبر یری سبب بنی ۔ ایک گول مٹول سا لڑ کا بھی لا ئبریری میں اکثر ملا کرتا تھا ، لمبے لمبے بال ،کھلی پینٹ اور تنگ شرٹ پہنے ہا تھوں میں میگزین ، رسا لے اور ایک کا لا بیگ پکڑے ، وہ سلیم اختر ند یم تھا ۔ کہا جا سکتا ہے کہ نسیم لیہ کی وفات کے بعد اسی سلیم اختر ندیم نے نسیم لیہ کو زندہ رکھا اپنی شا عری اور قلم قبیلہ کی ادبی تقریبات اور نسیم لیہ ایوارڈ کی صورتوں میں ۔ یہ سلیم اختر ندیم کا ہی کار نا مہ ہے کہ لیہ وال نسیم لیہ کو نہیں بھو لے وگر نہ نذیر چو ہدری ، غا فل کر نالی جیسی نا بغہ روز گار شخصیات قصہ پا رینہ بن چکی ہیں اس زما نے میں لا ئبریری میں دو بچے بھی با قا عد گی سے آیا کرتے تھے وہ دو نوں بھا ئی تھے ایک دن جب میں اخبار دیکھ رہا تھا وہ بچے بھی لا ئبریری میں مو جود تھے وہ دو نوں بھا ئی بھی میرے قریب ہی بچوں کا رسالہ تعلیم و تر بیت بڑے انہماک سے پڑ ھنے میں مصروف تھے میں نے ان میں سے ایک بچے کا نام پو چھا تو وہ کہنے لگا کہ میرا نام نسیم عادل ہے اور میں بھی لکھتا ہوں میں نے پو چھا کیا لکھتے ہو کہنے لگا کہا نیاں۔ یہ دیکھیں میری ایک کہا نی اس ہفتہ کے تعلیم و تر بیت میں بھی چھپی ہے اس نے اپنے ہا تھ میں پکڑا ہوا رسالہ میری طرف بڑھا دیا۔

کل کا وہ بچہ آج کا پرو فیسر محمد نسیم عادل ہے جو وائس پرنسپل کیڈٹ کالج حسن ابدال اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ انگلش ڈیپارٹمنٹ ہیں کچھ عر صہ بعد ہم چند دو ستوں نے ایک ادبی تنظیم التخلیق کے نام کی ۔ التخلیق کے ما ہا نہ اجلاس کیفے ارم میں منعقد ہوا کرتے تھے ان اجلا سوں میں با قا عد گی سے شرکت کر نے والے دو ستوں میں دیگر احباب کے علا وہ نسیم عادل ، رمضان جا نی اور وا حد الوحید بھی شا مل ہوتے تھے رمضان جا نی آج کل اسلام آ باد میں پی ٹی وی سے وا بستہ ہیں اور واحد الوحید جو مسلم ٹریڈرز کے با نی تھے جوا نی میں ہی اللہ کو پیا رے ہو گئے تھے ۔ واحد الوحید کا اصل نام عبد الوحید تھا ظفر اقبال مسلم ٹریدرز والے ہما رے مشترکہ دو ست تھے واحد الوحید سے جب میری ملا قات ہو ئی وہ بے کار تھے اور کبھی کبھار ان کے مضا مین نو ئے وقت میں شا ئع ہوا کرتے تھے بعد میں انہوں نے شیخ بشیر ما رکیٹ چو بارہ روڈ میں ایک دکان لے کر وہاں مسلم ٹریڈرز کے نام سے میڈ یسن کے ہو ل سیل کا کام شروع کیا مجھے یاد ہے کہ واحد نے مسلم ٹریدرز بنا نے کے بعد سب سے پہلے شا ریکس کمپنی کی ایجنسی لی ۔ شا ریکس کمپنی کا ہیڈ آ فس رحیم یار خان میں تھا اور وہاں ان کے کو ئی عزیز تھے جن کی معرفت انہیں اس کمپنی کی ڈیلر شپ ملی تھی ۔ کچھ عر صہ کے بعد چو ہدری ظفر اقبال ان کے شراکت دار بن گئے پھر چند ہی مہینوں کے بعد ایک دن پتہ چلا کہ عبد الواحد چوک منڈا شفٹ ہو گئے ہیں اور ظفر اقبال مسلم ٹریدرز کے بلا شر کت غیرے مالک بن گئے ہیں چو بارہ روڈ پر واقع کیفے ارم شفیق مرحوم کا تھا شفیق مرحوم جنہیں احباب شفیق چسکا کے نام سے زیادہ جا نتے تھے بعد میں کئی اخبارات سے وابستہ ہو گئے اور پریس کلب کے ممبر بھی رہے ۔ یہ دور تھا جب سقو ط ڈھاکہ کے بعد ما ہنا مہ حکا یت کے ایڈ یٹر اور معروف لکھا ری عنا ئت اللہ اور ان کے رفقاء نے تحریک تکمیل پا کستان کے نام سے ایک تنظیم قا ئم کی ۔ لیہ میں اس تنظیم کا اجلاس ڈاکٹر ذو الفقار شاہ کے کلینک پر منعقد ہوا ، اس اجلاس میں ہمیں بھی شر کت کی دعوت ملی اس میٹنگ میں مجھے مبارک افغا نی سے ملنے کا مو قع ملا ۔ مبارک افغا نی ایک خو بصورت علمی شخصیت ہیں خوبصورت نستعلیق اردو بو لتے ہیں پڑھنے اور لکھنے کا ذوق رکھتے ہیں علا مہ عنا ئت اللہ مشرقی سے بہت متا ثر تھے ۔اس زما نے میں ان کی ایک چھوٹی سی گو لی ٹا فیوں کی دکان بمبئے بازار میں ہوا کرتی تھی اور ہم سب اس دکان پر ان سے ملنے کم مفت کی ٹا فیاں کھا نے زیادہ جا یا کرتے تھے وہ آج بھی ملتے ہیں اور جب بھی ملتے ہیں بے حد بے پناہ پیا رو خلوص کا احساس جگا جا تے ہیں۔

Poetry

Poetry

مبارک افغانی کی ہی دکان کے تو سط محمد سلیم خان سے ملا قات ہو ئی محمد سلیم خان آج بھی میرے دوست ہیں اور حال ہی میں وہ ملٹری اکا ئونٹس سے ریٹائرڈ ہو ئے ہیں ۔بمبئے با زار کے حوالے سے ایک اور شخصیت جن کا ذکر کئے بغیر شب و روز زند گی یہ داستان یقینا مکمل نہ ہو پا ئے گی وہ تھے استاد ملتا نی ۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی دکان میں ہو ٹل بنا رکھا تھا وہ ہو ٹل ایسا تھا جس میں دکان کے دروازے کے ساتھ ہی تندور لگا تھا اور تندور کے ساتھ چٹا یاں بچھی ہو تی تھیں جن پر گا ہک بیٹھ کر کھا نا کھا یا کرتے تھے ہوا یوں کہ با با جی ان دنوں کوٹ سلطان سے کاروبا ر کے لئے لیہ شفٹ ہو ئے تھے اور یہاں شر بت کی ریڑ ھی لگا یا کرتے تھے سکول میں گر میوں کی چھٹیاں ہو ئیں تو میں بھی با با کے پاس لیہ آ گیا ۔ لیکن عجیب وا قعہ یہ ہوا کہ جب با با اکیلے تھے تب با با کی آ مد نی بارہ آ نے یا ایک رو پیہ ہو تی تھی جس دن میں آ یا اور سارادن ریڑھی پر با با کے سا تھ میں نے بھی ٹھنڈے ٹھار شر بت کی آ وازیں لگا ئیں تب اس دن کی ہم دو نوں باپ بیٹا کی دیہا ڑی ڈیڑھ رو پیہ تھی یہ کساد بازاری اور مندہ دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے الگ سے کچھ کر نا چا ہیئے ۔ سو میں نے استاد ملتا نی کے اس ہو ٹل پر ملازمت کر لی اللہ بخشے استاد ملتا نی کو وہ ایک بڑے انسان تھے انہوں نے مجھے ملازم نہیں ایک بیٹے کی حیثیت دی میں نے استاد ملتانی سے ہر حالت میں خوش رہنا سیکھا وہ کہتے تھے بیٹا جب ہمارے بس میں کچھ نہیں تو پھر کڑ ھنا کیسا ۔ بس خوش رہو دن بھلے آ ہی جا ئیں گے ۔ بمبئے بازار کے حوالے سے ایک اور دوست جن کا تذ کرہ کئے بغیر میں نہیں رہ سکتا وہ ہیں ذکی تنہا ۔ یہ نوجوان بھی ہمارے انہی دنوں کے دو ستوں میں سے ہیں ۔ ابتدا ہی سے شعرو شا عری کا ذوق رکھتے تھے تعلیم مکمل کر کے بحیثیت ڈسپنسر محکمہ صحت میں ملازم ہو ئے مجھے یاد ہے ان کے کلام پر مشتمل ایک کتاب اسی دور میں شا ئع ہو ئی تھی ذ ہین نو جوان تھے ملاز مت کے ساتھ ساتھ پڑ ھا ئی بھی جا ری رکھی وکا لت پاس کے بعد اسلام آباد شفٹ ہو گئے آج کل معروف ما ہر قا نون با بر اعوان کے چیمبر سے وا بستہ ہیں راولپنڈی بار کے انتخابات میں اپنے پینل کی جانب سے ہمیشہ امیدوار بنتے ہیں جب بھی راولپنڈی جانا ہو تا ہے ملاقات رہتی ہے وضعدار انسان ہیں پرانی اقدارو روایات کو نبھا ناجا نتے ہیں۔

یا د آیاد بات ہو رہی تھی بلدیہ لا ئبریری کی ۔ جب بلدیہ کی طرف سے جناح پارک میں پبلک لا ئبریری کو مو جودہ بلڈنگ میں شفٹ کیا گیا تب وہ بلڈ نگ پریس کلب کے طور پر مقا می صحافیوں کو دے دی گئی میں ان دنوں روزنا مہ وفاق لا ہور کا ڈسٹرکٹ رپورٹر تھا ان دنوں وفاق لا ہور پنڈی اور رحیم یار خان سے شا ئع ہوا کرتا تھا وفاق کے با نی اور ایڈ یٹر مصطفے صادق تھے جو بنیادی طور پر صحا فی تھے ضیا ء الحق کے دور میں وفاق ا ایک خا صا با اثر روزنا مہ اخبار تھا ۔ ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ کے پہلے با ضا بطہ الیکشن اسی عمارت میں منعقد ہو ئے تھے ڈسٹرکٹ پریس کلب کے ان ہو نے والے انتخا بات کے لئے ووٹر صحا فیوں کی حتمی فہرست لیہ کے پہلے ڈسٹرکٹ انفا ر میشن آ فیسر سید ماجد البا قری نے جا ری کی تھی انتخابات میں صحا فیوں کے دو پینل غافل کر نالی گروپ اور چو ہدری سرور گروپ کے نا مزد امیدواران کے در میان مقا بلہ تھا ڈسٹرکٹ پریس کلب کے ان ہو نے والے پہلے الیکشن میں مجھے بحیثیت جزل سیکرٹری انجمن صحا فیان ضلع لیہ منتخب کیا گیا غافل کرنالی ، ریاض رو حانی اور نثار عادل بھی منتخب ہو نے والے عہدیداران میں شا مل تھے۔ ڈسٹرکٹ پریس کلب اور ضلعی انجمن صحا فیان کے منتخب عہدیداران کی تقریب حلف برداری کے مہما نان اعزاز میں اس وقت کے ایڈ یشنل ڈپٹی کمشنر میاں محمد عمران کے علا وہ مسلم لیگ کے مرکزی را ہنما چو ہدری رحمت علی علوی ایڈ وو کیٹ بھی شا مل تھے مجھ سمیت ضلعی انجمن صحا فیان کے تمام منتخب عہدیداران سے چو ہدری رحمت علی علوی نے ہی حلف لیا تھا ، سادہ سے کا غذ پر وہ حلف نا مے اور ڈسٹرکٹ انفا ر میشن آ فیسر ماجد البا قری کی جا نب سے جا ری کردہ ڈسٹرکٹ پریس کلب کے تا سیسی و وٹران کی مہر لگی تصدیق شدہ ووٹر لسٹ کی فو ٹو سٹیٹ کا پی پریس آج تک میں نے بڑے اہتمام سے سنبھالی ہوئی ہے لیکن آج۔۔ باقی آئیندہ

Anjum Sehrai

Anjum Sehrai

تحریر : انجم صحرائی