تحریر:ایم سرورصدیقی درویش کے ارد گرد عقیدت مندوں کا ہجوم تھا وہ آنکھیں بند کئے حمدوثنا میں مشغول تھا۔ لوگ منتظر تھے کہ درویش کچھ بولے۔۔دانائی کی بات کرے تاکہ وہ اس سے مستفیدہوسکیں نہ جانے کہاں سے ایک کتا ادھر آن نکلا کسی نے اس کی طرف پتھر اچھال دیا کسی نے جوتا دے مارا۔۔ کتا تکلیف سے چائوں چائوں کرنے لگا۔۔۔ شور سن کر درویش نے آنکھیں کھولیں حاضرین کو نرمی سے تنبیہ کی۔۔۔ جانور کو تنگ نہیں کیا کرتے۔۔۔ظلم تو بہت بڑا گناہ ہے۔۔عقیدت مندوںنے سرہلادیا ایک نوجوان نے ہمت کرکے کہا حضرت صاحب!کوئی بات بتائیںتاکہ ہماری اصلاح ہو سکے۔۔۔درویش کے چہرے پرایک عجب سانور نمودار ہوا جیسے قوس ِ قزح کے رنگ بکھرے ہوئے ہوں۔۔اس نے حاضرین پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا ”کتے میں 10صفات ایسی ہیں اگر انسان میں آجائیں تو وہ ولی بن جائے” یہ سن کر ایک شخص نے حیرت سے انگلی منہ میں داب لی ۔۔ دوسرا پریشان ساہوکر درویش کو تکنے لگا جیسے کہہ رہاہو یہ آپ نے یہ کیسی بات کہہ ڈالی۔۔ نوجوان سے نہ رہا گیاان نے دریافت کرہی لیا۔۔کتا نجس جانورہے اس میں موجود صفات سے ولی بننے میں کیا تال میل؟۔۔۔۔درویش مسکرایا کتے میں سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ مالک کا وفادارہے۔
اس نے کہنا شروع کیا انتہائی صابر جانورہے ۔۔جوملے کھا لینا اس کی فطرت ہے۔۔ چوروں سے مالک کے گھر کی حفاظت کرتاہے۔۔دھتکارنے پر بھی مالک کو چھوڑکرجانا پسند نہیں کرتا۔۔۔اپنے فرض کی بجا آوری کیلئے ساری ساری رات جاگتاہے ۔۔۔آپ کی یہ ساری باتیں بجا۔۔نوجوان نے اضطراب سے پوچھا بابا جی !پھر کتے کو کتا کیوں کہا جاتاہے؟ ”۔۔۔درویش مسکرایایہ سوال اچھا کیاہے؟کتے میں ایک خصلت بدہے۔۔۔وہ گویاہوئے جس نے اس کی تمام صفات پر پانی پھیرکر اسے کتا بنا دیاہے جانتے ہو !وہ کیا ہے؟ نہیں جانتے تو میں بتاتاہوںتم نے یہ کہاوت تو اکثر سنی ہوگی کہ کتا ۔۔کتے کا بیری ہے یعنی کتا اپنی ہی قوم کا دشمن ہوتا ہے اس لئے اللہ تبارک تعالیٰ نے اسے کتا بناڈالا۔۔۔۔آج ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیںتو احساس ہوگا کیااس کرہ ٔ ارض میں انسان ہی انسان کا دشمن نہیں ہے؟ لگتاہے کسی کے دل میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں عالمی سطح سے لے کر ملکوں ملکوں اور افراد سب کے سب عجب نفسا نفسی کا شکارہیں ،حرص ،لالچ ، طمع کا کوئی انت ہے نہ حساب۔
ایک روپے کے فائدے کیلئے کسی کا ہزار کا بھی نقصان ہوتاہوکوئی پرواہ نہیں کرتا ارب پتی سے فقیر تک سب کا ایک ہی ایجنڈا، سوچ ، فکر ،محور اور مقصد ِ حیات دولت کا حصول ہے اور اس کیلئے جائز، ناجائز حلال ،حرام ،اچھائی یا برائی کی کوئی تمیز نہیں شادی بیاہ کی کوئی بھی تقریب دیکھ لیں ہر چیز وافرہونے کے باوجود بڑے بڑے سنجیدہ،معزز اور صاحب ِ علم کھانے پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے وحشی ہوں۔۔۔ایک موٹے سے صاحب دعوت ِ ولیمہ میں کھاتے ہی چلے جارہے تھے ہاتھ ،منہ، کپڑے سب آلودہ ہونے کے باوجود وہ بریک لگانے کیلئے تیار نہ تھے۔۔۔ ایک ظخص نے اسے ٹوکا یار اب بس بھی کرو۔۔۔ بس کروں اس نے لیگ پیس منہ میں رکھا ایک ہاتھ سے جیب سے انویٹیشن کارڈ نکالا روکنے والے کی طرف لہراتے ہوئے کہنے لگا دیکھتے نہیں ہو اس پر لکھا ہے تین سے پانچ بجے تک ۔ا بھی تو آدھا گھنٹہ باقی ہے۔۔
Society
انسانی رویے،امارت غربت ،طبقاتی کش مکش معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیںلیکن سوچتا کوئی نہیں۔روز روز درپیش سنگین معاملات ، سلگ سلگ کر جینا۔۔ سسک سسک کر مرنا ۔۔۔ ہر وقت خوف۔۔۔ ہر لمحہ اضطراب عام پاکستانی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کیا واقعی زندگی اسی کو کہتے ہیں؟ زندگی سے بھرپور اندازسے لطف اندوز ہونے کیلئے دوسروںکو اپنی خوشیوں میں شریک کیجئے یقین جانئے آپ کو بہت سے سوالوںکا جواب مل جائے گادرویش کی بات یاد کریں جس کا کہنا تھاکتے میں 10صفات ایسی ہیں اگر انسان میں آجائیں تو وہ ولی بن جائے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کااعزاز بخشاہے ہم ہیں کہ مارا ماری ،چوربازاری،لالچ ، ہوس ،فریب،دھوکہ اور نہ جانے کتنی برائیوںکو اپنی زندگی کا لازمی جز بنا لیاہے جھوٹ توہماری نس نس میں شامل ہے اور ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے جھوٹ در جھوٹ بولنے پر کوئی شرمندگی کا احساس تک نہیں ہوتاہم ذہن کے دریچے کھول کر غور بھی نہیں کرتے کہ ہمارا دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟۔
کیا اب بھی یقین نہیں کہ اس کرہ ٔ ارض میں انسان ہی انسان کا دشمن ہے؟ اتنی ترقی کہ دنیا چاندپرایک نئی دنیا بسانے کی آرزو مندہے۔۔۔اتنی پستی کہ لوگ غربت کے مارے خودکشیاں کرتے پھریں اور حکمرانوں سمیت کوئی پرواہ نہ کرے۔۔۔کیا زمانہ آگیاہے انسان۔۔۔انسانوںکا استحصال کرتا پھرتاہے پھربھی اس بات کا متمنی ہے کہ اللہ اسے جہاں بھر کی نعمتوں سے سرفراز کرے۔۔ہم جو کرتے پھررہے ہیں اس سے خالق ِ جہاں راضی نہیں کہیں یہ نہ ہو قیامت کے روز نجس جانور بازی لے جائیں۔ حرص ،لالچ ، طمع ، جھوٹ بے شک انسان کی شرست میں ہے لیکن سوچئے یہ امتحان کا ایک انداز بھی ہوسکتاہے اس سے اجتناب کرنے سے انسانیت فخر کرتی ہے آج معاشرے میں جتنی بھی برائیاں ہیں ان سے نجات کا واحد راستہ صرف ایک ہے ۔۔۔ہم سب انسانوں سے،انسانیت سے محبت کرنا شروع کردیں کوئی یقین کر سکتاہے یہ بڑے فائدے کی بات ہے اس سے معاشرے میں ایک خوشگوار تبدیلی آنا یقینی بات ہے جب نفرتوں کا خاتمہ ،کدورتوںسے نجات اور نفسا نفسی سے چھٹکارا ملتاہے دل کو سکون آجاتاہے۔
اولیاء کرام کی بھی یہی تعلیمات ہیں آپ کسی بھی اللہ کے ولی کی درگاہ پر چلے جائیں وہاں عجب ساسکون پوری روح میں رس بچ جاتا ہے دلوںکی کثافتیں دھل جاتی ہیں اسی لئے اولیاء کرام کی تعلیمات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر درویش کا کہا یاد کریں غور کریں آج ہم ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں ملک کے بہت سے شہروںمیں اغواء برائے تاوان ،ٹارگٹ کلنگ، چوری ،ڈکیتی کی وارداتیںقتل و غارت ،آبروریزی کے ان گنت واقعات ہم اور ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ نہیں ہیں انسانوں کی انسانوںسے دشمنی انسانیت کی علامت نہیں ہم چند برس کی رندگی کیلئے نہ جانے کیا کیا جتن کررہے ہیں ہم تو زندگی اس انداز سے گذاررہے ہیں جیسے قیامت تک زندہ رہیں گے حالانکہ سو برس کا سامان کرنے والے اس خاکی پتلے کو پل کی خبر بھی نہیں ہے۔