تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی آج پوری دنیا خصوصاً پاکستان کے عوام جس دورِ ابتلا و آزمائش سے گزر رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہمارے یہاں مسجدوں، مدرسوں میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ جبکہ حکمران اور اُن کے احباب اپنے گھروں اور محلوںمیں بیٹھ کر مذمتی بیان دیتے رہتے ہیں۔اور زیادہ ہوا تو معاوضہ کا اعلان کر دیتے ہیں۔ یا پھر رپورٹ طلب کر لی جاتی ہے اس دوران واقعہ پرانا ہوتا جاتا ہے اور پھر ؟ پھر کیا بس معاملاتِ زندگی نارمل ہو جاتی ہے۔یہاں عوام کی امن پسندی، اور وطن دوستی کو مذاق بنا دیا گیا ہے۔ یہ تو معاملے کا ایک رُخ ہے۔ لیکن اس کا دوسرا رُخ بھی ہے جو بلاشبہ اس سے بھی زیادہ خطرناک اور تکلیف دہ ہے، جو ملت کے بعض نادان دوستوں اور بے شعور لیڈروںکا پیدا کردہ ہے جو اکثر اوقات نفرت کی کاشت کرتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام میں آج بھی شعور و آگہی کی بہت کمی ہے ، ان میں اتنا شعور بھی نہیں کہ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی صفوں میں خود اتحاد پیدا کر سکیں۔ لیکن جب حالات کا چابک غیر شعور ی طور پر متحد ہونے پر مجبور کر دیتا ہے تو اس وقت یہ نفرت کے سوداگر ایسا نہیں ہونے دیتے اور غلط اور منفی بیان بازی کرکے وقتی اتحاد و بھائی چارہ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا کام بھی بخوبی انجام دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔ایسے لوگوں کی دلی خواہش اور انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ ملت کے افراد بکھرے ہوئے تاروں کی طرح رہیں تاکہ ہمیشہ ان کا اُلّو سیدھا ہوتا رہے۔ اس طرح کی زہر افشانی سے ہر ایک کو باز رہنا چاہیئے تاکہ عوام کی ایمانی اخوت اور بھائی چارہ بھی تادیر قائم رہے اور سب یکسو ہوکر پہلے کی طرح ملک و ملت اور انسانیت کی تعمیر و ترقای کے کام انجام دیتے رہیں۔
کبھی یہ پوچھتے ہیں اور کبھی وہ پوچھ لیتے ہیں سوالوں کا عجب یہ وار ہے ہمارے وطن میں عوامی مسئلوں پر بات کرنے کی نہیں ہمت بس الزامات کی بوچھار ہے ہمارے وطن میں ہمارے یہاں بھی دہرا معیار ابھی تک چل رہا ہے۔ جب الیکشن قریب آتے ہیں تو ہر پارٹی اپنی روٹی سینکنے لگتی ہے اور اپنا اپنا ووٹ بینک کو بڑھانے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ سب ہی پارٹی ایسی ہے، مگر اکثر پارٹیاں یہی کرتی ہیں۔ بے شمار وعدے وعید ہوتے ہیں جو اقتدار کی کرسی سنبھالتے ہی بھلا دیئے جاتے ہیں۔ اگر اُسی چابکدستی سے وہ سارے وعدے وعید وفا ہونے لگ جائیں تو ہمارا ملک بھی کب کا ترقی کر چکا ہوتا۔ اور ہم بھی ترقی یافتہ قوموں میں اپنا نام گنوا سکتے تھے، مگر افسوس آزادی سے لے کر آج تک ایسا نہیں ہوا۔ کتنے ہی محب وطن لوگ دل میں یہ آرزو لئے اس دارِفانی سے رخصت ہو گئے اور پتہ نہیں کتنے لوگ کُوچ کر جائیں گے ، بس اُمید و یاس کی کرن ہی ہے جو ہماری عوام میں روشن ہے کہ کبھی تو وہ دن بھی آئے گا جب یہ عوام بھی ترقی کے ثمرات دیکھیں گے۔
قدیم روایت بھی ہے اور نئی تحقیق بھی کہ جس کے مطا بق پرندے ممکنہ طور پر کسی موسمی طوفان کا قبل از وقت اندازہ لگا سکتے ہیں اور یہ طوفان کے ٹکرانے سے قبل ہی خطرے کو بھانپ لیتے ہیں پھر اپنی بچائو میں بھی لگ جاتے ہیں۔تو پھر ہم انسان (اشرف المخلوقات) ہیں پھر بھی ابھی تک خطرے کو بھانپ ہی رہے ہیں اور بچائو کے معاملے پر عمل در آمد نہیں کر پا رہے۔ آخر کیا وجہ ہے، اس کے عوامل کیا ہیں، اس پرذرا سوچیئے کا ضرور۔
Darkness
کیونکہ اس ترقی یافتہ دور میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہماری زندگیوں سے روشنی چلی گئی ہے اور ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کہوں، کیسے کہوں، جنہیں ہم سب مسیحا کہتے ہیں وہ اب ہمارے ارمانوں پر اوس کی مانند ہو چکے ہیں، جن پر بھروسہ کیا جاتا ہے وہی دغا دے جاتا ہے، اور وہ جو وعدے کرتے ہیں اُسے ایفاء نہیں کرتے، گوڈ گورننس نام کو نہیں، اگر کچھ ہمارے یہاں ہو رہا ہے تو صرف عوام کو تنگ و دنیا بھر میں رُسوا کرنے کی تدبیر ہو رہی ہے ، عوام کے لئے کیا ہے، پیٹرول دستیاب نہیں، گیس سی این جی اسٹیشنوں پر تو کُجا گھروں میں بھی دستیاب نہیں، بجلی ناپید، اس سرد موسم میں بھی سات سے دس گھنٹوں کے لئے بجلی کا نہ ملنااور اوپر سے کئی کئی بریک ڈائون، پانی کی شدید کمی، (ایک صاحب سے ملاقات میں پتہ چلا کہ نارتھ کراچی کے کئی علاقوں میں پچھلے ایک سال سے لائینوں میں پانی ہی نہیں آ رہا ہے، اور لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں) مطلب یہ کہ ہر وہ کام جس میں عوام کا فائدہ ہو وہ ناپید ہو چکا ہے۔بد امنی عروج پر ہے،یعنی کہ عوام کس کس کو روئیں، کس سے منصفی چاہیں۔
بجلی، گیس، پانی ، پیٹرول اور دیگر اشیا ء کے بحران جاری ہیں ، اور ان اداروں کے سربراہان کوئی ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں، جمہوری ملکوں میں تو سنا گیا ہے کہ جب بھی کسی چیزیا اشیاء کا بحران پیدا ہوتا ہے تو مطلوبہ سربراہ استعفیٰ دے دیتا ہے مگر ہمارے یہاں اس کا بھی رواج نہیں ہے۔ ملک میں روزگار کا فقدان اس قدر زیادہ ہے کہ نوکریاں دستیاب ہی نہیں، نوجوانوں کو بے راہ روی کی طرف جانے سے بچانا ہے تو ملک میں فی الفور ایماندارانہ طریقے سے روزگار مہیا کرنا بے حد ضروری ہے، جب نوکری ہوگی تو لوگ آسودہ حال ہونگے۔ مگر یہاں حقداروں کو حق کا ملنا بھی اس قدر دشوار ہے کہ خدا کی پناہ!
مورخہ اکیس اپریل دو ہزار بارہ کو روزنامہ نوائے وقت لاہور میں زاہد محمود قاسمی صاحب کے نام سے ایک خبر شائع کیا گیا تھا ۔ وہ خبرچونکہ حقیقت سے قریب تر ہے اس لئے اس مضمون میں اسے مَن و عن لکھنا چاہتا ہوں(کہ پارلیمنٹ میں موجود جماعتیں آخر ایک دن اللہ کی عدالت میں جوابدہ ہونگی،انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بد ترین لوڈ شیڈنگ اور خصوصاً دورانیہ بہت زیادہ ہے، حکومت اور اپوزیشن عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکیں، ملک میں لوگ ٹارگٹ کلنگ میں مارے جا رہے ہیں اور کچھ لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ انتہائی ظالمانہ اقدام ہے، پاکستان کے حکمران امریکی غلام بننے کے ساتھ ساتھ وطنِ عزیز کو بھی امریکی کالونی بنا رہے ہیں۔ ) خدا کی پناہ! بس عوامی زیادتیاں ہی اس ملک کے عوام کا مقدر رہ گئی ہیں، کب بدلے گایہ ظلم کا نظام؟ کب بدلے گا پاکستان؟ اور کب ترقی کرے گا پاکستان؟ اور یہاں کے عوام؟ کب آسودہ حال ہونگے یہ عوام ؟ کب ختم ہوگا یہ بحرانوں کا دور؟ کب نوکریاں اس ملک میں دستیاب ہونگی؟کب مہیا ہوگا یہاں انصاف؟ کب محفوظ ہونگے ہمارے عوام؟ یہ سارے سوالات ہیں جو قوم کے ذہنوں میں اُمد چکے ہیں، کون دے گا اس کا جواب ، کون حل کرے گا یہ سارے مسائل جو کہ ناممکنات ہی لگتا ہے۔ مگر ! مگر نا اُمید کفر ہے ۔ اللہ سے اچھے کی اُمید رکھیئے کہ شاید کوئی حکمران آئے اور آپ کے حالات کو بدل کر رکھ دے۔ اور ہو سکتا ہے کہ انہیں حکمرانوں کے دلوں میں اللہ عوام کی محبت ڈال دے اور وہ کچھ کر جائیں کہ جس کی توقع عوام کو ہر وقت ہے۔