تحریر : چوہدری اطہر مقبول معاشی حوالے سے پاکستان آج تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے جسے ایک طرف بد ترین لوڈ شیڈنگ ،بیروز گاری اور مہنگائی کے عفریت کا سامنا ہے تو دوسری جانب خطے میں موجود صورت حال جس میں افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی، صدر اوبامہ کا دورہ انڈیا جس میں طاقت کے توازن کو بھارت کی جھولی میں ڈالنے کی بھر پور سعی کی گئی ہے جبکہ وطن عزیز میں صوبوں میں عدم اعتماد اور اس سے اُبھرنے والی مخاصمت نے ایک گھمبیر شکل اختیار کر لی ہے پاکستان مسلم لیگ ن جس نے 2013کے عام انتخابات میں وطن عزیز کی ایک بڑی جماعت بننے کا اعزاز پایا اور حکمرانی کے تاج کی بھی وارث بنی کیلئے بھی اقتدار پھولوں کی سیج نہیںوزیر اعظم میاں نواز شریف نے واشنگٹن میں وطن عزیز کا مقدمہ اوبامہ انتظامیہ کے سامنے رکھا اور جب اُنہوں نے ڈرون حملوں کا پس منظر واضح کیا تو عین اُس وقت واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ سامنے آئی جس میں یہ ہرزہ سرائی کی گئی کہ ڈرون حملے سابق حکومت کے ساتھ معاہدہ کے تحت ہورہے ہیں اے پی سی سے قبل تحریک انصاف کے عمران خان ،جنرل پرویز کیانی ،اور میاں محمد نواز شریف کی ملاقات میں یہ وضاحت جنرل کیانی نے کی کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں تھا
جبکہ سابق وزیر اعظم گیلانی نے بھی اس کی نفی کی یہ رپورٹ ایک طرح سے پاکستانی موقف کو کمزور کرنے اور مذاکرات میں تعطل لانے کی سعی ہے سانحہ پشاور نے دلوں میں وہ گھائو لگایا ہے جو وقت کا مرہم بھی پر کرنے سے قاصر رہے گا امریکہ کی جنگ میں80ارب ڈالر کا معاشی نقصان اور45000معصوم جانوں کا ضیاع ہماری آنکھوں پر بندھی غلامی کی پٹی کھولنے کیلئے کا فی ہے آئے روز ڈرونز ہمای خود مختاری اور آزادی کے تشخص کو مسخ کررہے ہیں 18کروڑ عوام کی برداشت اور تحمل کا مزید امتحاں بغاوت کو اُبھارنے کے مترادف ہے الیکشن میں کیئے گئے وعدوں میں سے ایک وعدہ ڈرونز کا خاتمہ تھا جو اپنی جگہ مزیدوقت کی برداشت نہیں رکھتا ایمنیسٹی انٹر میشنل کی رپورٹ نے بھی حقیقت کو عیاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس سے ڈرونز پر ہمارے مضبوط موقف کی عکاسی ہوئی
بجلی کی بد ترین لوڈ شیڈنگ ہمارا مقدر ہو چکی ہے ہمارے پاس 19500میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی استطاعت ہے جبکہ پیپکو نے اپنی ویب سائیٹ پر مئی2008میں لکھا کہ 19500میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جبکہ طلب 15سے16ہزار میگا واٹ ہے اِس وقت ملک میں 7000میگا واٹ کا شارٹ فال ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ کچھ مخصوص مقاصد کی خاطر بجلی کا بحران دانستہ پیدا کیا گیا بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں IPPsپاکستان سے 45ارب ڈالر کا منافع لوٹ کر ملک سے باہر منتقل کر چکی ہیں جبکہ ہمارے بجلی پیدا کرنے والے اثاثے محض 5ارب ڈالر میں خریدے کسی بھی قیادت کے اندر حب الوطنی کا یہ جذبہ اورعوام کا درد نہیں جاگا کہ ان لوٹ مار کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کے اثاثے ضبط کرکے نیشنلائز کیا جائے
World Bank
عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف ،ورلڈ بنک نے عوام کی زندگی کو ایک عذاب ِ مسلسل بنا دیا ہے ہمارے بجٹ کا نصف ان سودی ر اداروں کے سود کی ادائیگی میں خرچ ہو رہا ہے یہ مالیاتی ادارے ہر تخت نشیں سے اپنی من پسند پالیسیوں اور معاہدوں پر عمل درآمد کے ساتھ کڑی اور شرمناک شرائط لاگو کرتے ہیں جن پر عمل کرانے کی ریاستی گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے آنے والی ہر حکومت کیلئے مسائل کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہو رہا ہے داخلی قرضے دن بدن مہنگے اور اُن کا بڑھتا ہوا حجم روپے کو مزید سستا کر رہا ہے سرمائے کا فرار رکنے میں نہیں آرہا بیرونی کمپنیاں اِس میں پیش پیش ہیں ایک مثال دینا ہی کافی ہوگا کہ سال 2012کی پہلی سہہ ماہی میں اِن کمپنیوں نے 41ملین ڈالر کا سرمایہ کما کر باہر منتقل کیا پاکستان میں کاریں اسمبل کرنے والی تین بڑی کمپنیوں نے گزشتہ دو سال کے دوران 281ارب روپے کا منافع کمایا جبکہ ان میں سے دو کمپنیوں نے صرف 8ارب کا منافع ظاہر کیا اور تیسری نے ایک ارب سے زائد کا نقصان ظاہر کیا وطن عزیز ایسی ملک دشمن کمپنیوں کیلئے سرمائے کی ایک پرکشش منڈی بن چکا ہے روشنیوں کے شہر کا امن ایک چیلنج بن چکا تھا بدامنی ایک روایت کی شکل اختیار کر گئی
بھتہ خور مافیا اور ٹارگٹ کلرز منی پاکستان کی معیشت پر مسلط ہو گئے اور لاشیں گرانے کا کھیل عام شہریوں سے لیکر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں تک جاری رہا یہ مصلحت کا نتیجہ تھا کہ ان سماج دشمن قوتوں نے جو سیاہ و سفید سمجھا کر گزریں سابقہ دور حکومت کے مفاہمتی فلسفے سے قائد کے شہر میں دہشت گردی کو فروغ ملا اب مزید خونریزی اور قتل و غارت گری کو روکنا حب الوطنی کا تقاضا تھا جس کا ادراک پاک فوج کی قائدانہ صلاحیتوں کی شکل میں قوم کو ہوا کہ انہوں نے دہشت گردی کے معاملے پر تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف انسانیت کے درد کو مد نظر رکھا ہمیں اپنی کابینہ کا حجم انتہائی محدود کرنا ضروری ہے جو ایک تاریخی سیاسی پیش قدمی ہوگی سابقہ دور حکومت میں ایوانِ صدر کے سٹاف کا خرچہ ،الائونسز ،اور گھریلو اخراجات کی مد میں 10لاکھ یعنی سالانہ 36کروڑ 50لاکھ تھا جبکہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے روزانہ کے اخراجات 12لاکھ سالانہ 43کروڑ تھے ہماری قومی اسمبلی روزانہ 40کروڑ پر چلتی رہی غرباء کی جیبوں سے ٹیکسز کے ذریعے جس قدر روپیہ نکالا جاسکتا تھا نکالا گیا اور بدلے میں صرف عوام کو طفل تسلیاں ،دلاسے اور اُمیدیں ملیں
ماضی میں کرپشن ہمارا بڑا مسئلہ رہا ہے سال 2008-09میں 323ارب روپے کرپشن ہوئی جبکہ صرف رینٹل پاور پراجیکٹس میں دوارب ڈالر کی کرپشن ہوئی جس کی تحقیقات کرنے والا ایک ایماندار اوربے گناہ نوجوان نیب آفیسر پر اسرار موت سے دوچار ہوا سٹیل ملز میں 43ارب اور ٹی سی پی میں 9ارب کی کرپشن سامنے آئی پاکستان ریلوے جس کو خواجہ سعد رفیق نے سنبھالا دیا 100ارب روپے کے خسارے سے دوچار ہوا ،پی آئی اے جیسے منافع بخش ادارے کی تباہی ایک نئی ایئر لائن کے قیام کے منصوبے کی بناپر ہوئی پاکستان سٹیٹ آئیل مختلف اداروں کا ایک کھرب 49کروڑ کا نادہندہ ٹھہراجس کی بنا پر پٹرول کا بحران پیدا ہوا یہ صورت حال ایک مستقل اور مضبوط انقلابی پروگرام کا تقاضا شدت سے کررہی ہے پرتگال اور یونان کی حکومتوں کو بھی ایسی کیفیات سے گزرنا پڑا