تحریر: محمد عبداللہ سکاٹ لینڈ میں یوکے (برطانیہ) سے علیحدگی حاصل کرنے کے لیے استصواب رائے …! مذہبی ونسلیعصبیت اور حقوق کے نام پر سوڈان کی تقسیم…! یوکرائنکے لوگوں کو آزادی دینے کے نام پر امریکہ اور روس میں چپقلش…! اظہاررائے کی آزادی کے نام پردوسروں کے عقائد پر حملے کرکے ان کے مذہبی جذبات مجروح کرنا…! جب میں اس طرح کی خبریں سنتا یاپڑھتاہوں تو میرے دل کے نہاں خانوں میں یہ خواہش جنم لیتی ہے کہ کاش!کوئی اس مظلوم کشمیری قوم کے حقوق کی بات کرنے والا بھی ہو ۔ ان کے دکھوں کامداوا کرنے والا،ان کے زخموں پربھی مرہم رکھنے والاہواور ان کی آزادی کی خاطر آوا زاٹھانے والاہو۔ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں میں سے کوئی توایساہو جو ان پر ہونے والے مظالم کو دنیا کی نظروں میں آشکار کرکے ان کی آزادی کی خاطر جدوجہد کرنے والاہو۔ وہ بے چارے کشمیری جو دنیا کی سب سے بڑی چھاؤنی میں سالہا سال سے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں ،قربانیوں پر قربانیاں دیے چلے جارہے ہیںمگر ان پرظلم وستم کاسلسلہ رکتا نظر نہیں آتا۔ سوالاکھ سے زائد کشمیری آزادی کی تڑپ لیے شہادتوں کی داستانیں رقم کرچکے ہیں ۔ہزاروں کی تعداد میں وہ عفت مآب بہو بیٹیاں اپنی عصمتیں اس آزادی پر نچھاور کر چکی ہیں جو ان کو ملتی نظر نہیں آتی۔ہزاروں بچے یتیمانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ہزاروں عورتیں بیوگی کی چادر اوڑھے بیٹھی ہیں۔لاکھوں ضعیف اورلاغروالدین اپنے جواں سوال بیٹوں کی راہ تکتے داعی اجل کولبیک کہہ رہے ہیں۔ اتنے ہی نوجوان تہاڑ،جموں اور سرینگر جیسی بدنام زمانہ جیلوں میں زنجیروں میں جکڑے اپنی رہائی کی نوید سننے کی حسرت لیے اس فانی دنیا کو چھوڑ جاتے ہیں۔آئے روز وادیٔ کشمیر میں گمنام اوراجتماعی قبروں کادریافت ہونا عام ہوتاجارہاہے۔ کشمیری وہ حرماں نصیب قوم ہے جس کی قربانیوں کی داستان ختم ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان کی اس انتہائی بے بسی ، بے کسی اور مظلومانہ زندگیوں پرکوئی بھی نوحہ کناں نہیں ہے۔
انسانی حقوق کے وہ ٹھیکیدارجو چندلوگوں کی موت پر چند گھنٹوں میں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر ماتمی جلوس برپا کرتے ہیں،مذمتی قراردادیں اور بیانات دیتے ہیں، اس خطۂ کشمیر میں خون مسلم کی اس ارزانی پرگونگے کا گڑ کھائے بیٹھے ہیں کسی کوتوفیق نہیں ہوتی کہ وہ ان مظلوم کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کے دوبول ہی کہہ دے۔ لیکن سلام ہے کشمیریوں کی جرأت و بہادری کو کہ لاکھوں قربانیاں دینے کے باوجود بھی بکے نہیں،تھکے نہیں اور مقصد سے ہٹے نہیں۔وہ آزادی کی بے مثال تحریک میں آج بھی تازہ دم ہیں،آج بھی ان کی زبان پریہی نعرے ہیں…! ہم کیاچاہتے ہیں…آزادی ہے نعرہ ہمارا…آزادی لے کے رہیں گے…آزادی ہے جان سے پیاری…آزادی ہے حق ہمارا…آزادی وہ ماریں کھاکر بھی یہی آواز لگاتے ہیں: “Go Indian Dogs go Back” اسی تحریک کودبانے کے لیے بھارت اپنی ساری توانائیاں صرف کررہاہے۔ کبھی کشمیری نوجوانوں کو سکالر شپ کے نام پر ورغلا کر اور کبھی ان انتخابی ڈراموں میں الجھا کر ان کے قدم راہ آزادی سے ہٹاناچاہتاہے۔ کشمیر میں ہونے والے حالیہ انتخابات بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھے ۔چانکیائی سیاست کاحامل ہندویہ ناپاک ارادے رکھتا ہے کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس کو اپنی عام ریاست کا درجہ دے کر اس کامسلم تشخص ختم کردے ۔اس مقصد کے لیے BJP نے حالیہ کشمیری انتخابات میں بھرپور الیکشن مہم چلائی۔ان کو کشمیرمیں اپنی مرضی کی حکومت بنانے کے لیے کشمیرکی ریاستی اسمبلی کی44سیٹیں درکار تھیں۔اس مقصدکے حصول کے لیے BJP نے کافی پاپڑ بیلے اوراس کے رہنماؤں نے ایڑی چوٹی کازور لگایا ۔ مودی تک کشمیرمیں دوڑاچلاآتاتھا لیکن BJP کو یہاں شکست کاسامنا کرنا پڑا۔وہ جموں کے ہندو اکثریت والے علاقوں اور ہزارہا دھاندلیوں کے باوجود 25سیٹیں حاصل کرسکی جبکہ محبوبہ مفتی کی جماعت PDP نے 28،کانگریس نے15 اور نیشنل کانفرنس نے12 نشستیں حاصل کیں۔اس طرح واضح اکثریت کوئی بھی پارٹی نہیں حاصل کرسکی اور BJP بھی بظاہر اپنے مذموم مقاصد کوپورا کرنے میں ناکام رہی۔ لیکن بھارت سرکارجوکہ ہندوتواپالیسی پرگامزن ہے،اس نے کشمیرمیں جوڑ توڑکی سیاست شروع کردی ہے۔PDPکوسبزباغ دکھائے جارہے ہیں ۔ افسپا ایکٹ کے خاتمے کے خواب دکھاکر بدلے میں اس کے ساتھ مل کر BJPحکومت اپنے ہاتھ میں رکھناچاہتی ہے۔ اس کے لیے دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کے درمیان مشاورت اورگفت وشنید کاسلسلہ دراز ہوتاجارہاہے۔
BJP کی بھرپورکوشش ہے کہ پیپلزڈیموکریٹک پارٹی ،نیشنل کانفرنس اورکانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بناکر ان کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے۔ اس مقصد کے لیے PDPکو اپنے ساتھ ملانے کے لیے اس کو طرح طرح کے خواب دکھائے جارہے ہیں۔معاشی استحکام اورترقی کے وعدے کیے جارہے ہیں ۔ معاملات کو حتی الوسع اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے بھارت سرکار نے نگران ریاستی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ سے استعفیٰ دلواکر کشمیر میں عملاً گورنرراج نافذ کر دیا ہے گورنر کشمیر این این وہراکی شکل میں بھارت سرکار نے کشمیرکی ریاست کے معاملات براہ راست اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں اوراس کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے سیڑھی کے طورپر استعمال کرناشروع کر دیا ہے۔اس پر کشمیر کے محب وطن حلقوں اور خطہ بشمول پاکستان اور چین میں خاصی تشویش پائی جارہی ہے۔ اس صورتحال پر بزرگ حریت لیڈر سیدعلی گیلانی نے سانحہ گاؤکدل کے سلسلے میں ہڑتال کی کال دیتے ہوئے کہاہے کہ ”بھارت کوکشمیرمیں یوم جمہوریہ منانے کاکوئی حق نہیں ہے کیونکہ کشمیر کبھی بھی بھارت کاآئینی حصہ نہیں رہاہے اورہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر تقریبات کا اہتمام کریںجن کے ہاتھ ہمارے معصوموں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
Indian Army
انھوں نے مزید کہا کہ کشمیرکابچہ بچہ آزادی کی اس تحریک میں ہندوفوجیوں کے سامنے سینہ سپر ہے ۔عالمی برادری کشمیرمیں ہونے والے قتل عام پر آواز اٹھائے اورتحقیقات کرواکراس میں ملوث لوگوں کو سزا دلوائے۔” واضح رہے کہ حریت رہنماؤں کی طرف سے اس انتخابی ڈرامے کابائیکاٹ کیاگیاتھا۔ اسی طرح پاکستان کے مشیرامورِ خارجہ سرتاج عزیز نے کہاہے کہ”کشمیرمیں بھارتی عزائم خطرناک ہیں، کشمیر کی خصوصی حیثیت میں تبدیلی خطے کے مسائل کو اور زیادہ پیچیدہ بنادے گی۔” پاکستانی افواج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے برطانیہ میں انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے دورے کے دوران میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ”مسئلہ کشمیر کوحل کیے بغیرخطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ خطے میں دیرپا امن کے لیے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کو باضابطہ طور پر حل کیاجائے۔” یہی بات چینی وزیر خارجہ نے بھی کہی کہ مسئلہ کشمیرکاحل قیام امن کے لیے ناگزیر ہے۔”
مگربھارتی سرکار کی ہٹ دھرمی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ کسی کو بھی خاطر میںنہ لاتے ہوئے کشمیرمیں اپنی من مرضی کرتی چلی جارہی ہے اور روزبروز کشمیرکے لوگوں کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرتی چلی جارہی ہے۔ آئے دن شہادتیں، گرفتاریاں، نظربندیاں،دکان و مکان جلانااور عفت مآب بہوبیٹیوں کی عصمتوں کوتارتار کرنامعمول بنتاجارہا ہے۔ بھارتی فوج کے ان مظالم پر کوئی اسے روکنے والا نہیں ہے، کوئی مظلوم کشمیریوں کی داد رسی کرنے والا نہیں ہے۔ 5فروری کادن آتاہے ،ہم اس دن کو کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے جلسے جلوس نکال کر ،بیانات جاری کرکے اور دوچار خوبصورت سے بینرآویزاں کرکے سمجھتے ہیں کہ ہمارافرض اداہوگیاہے۔ ہم نے اپنی ذمہ د اری پوری کردی۔ قارئین کرام!قوموں کی زندگی میں یکجہتی کے یہ معنی نہیں ہوا کرتے کہ ایک بھائی توظلم وستم کی چکی میں پس رہا ہو جبکہ دوسرا اپنے نرم گرم بستروں میں پڑا چین و آرام کی نیند سورہاہو،ایک کاقتل عام ہورہاہو اور دوسرا اس پر فقط مذمتی بیان جاری کرکے اپنے تئیں مطمئن ہو رہاہو،یکجہتی کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے۔ یکجہتی کا مطلب تویہ ہے کہ حرمت مسلم کے تحفظ کے لیے نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر ایک ہوا جائے۔دنیاکے ایک کونے میں کسی مسلمان کو پہنچنے والی تکلیف پر دوسرے کونے میں بسنے والاہرپیروجواں بے تاب ہو۔ امت مسلمہ کی روتی بلکتی اور کسی محمدبن قاسم کو پکارتی ماؤں بہنوں کی پکار پر پوری امت اسلامیہ سورة انفال کی اس آیت کی تفسیر بن جانی چاہئے۔ وَِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ ۔(الانفال:72) یہ5فروری یوم یکجہتی کشمیربھی ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے مسائل کوپس پشت ڈال کر اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے لیے دنیا کے ہرفورم پر ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں اوران کے حقوق ان کودلوانے کے لیے ان کے دست وبازو بن جائیں۔ آزادی کی اس تحریک میں جہاں انھوں نے لاکھوں قربانیاں پیش کی ہیں،ہم بھی اپنے آپ کو پیش کردیں۔ کشمیرکے ساتھ ہمارے اور بھی کئی ناطے ہیں۔ بانی ٔپاکستان محمدعلی جناح کے بقول کشمیرہماری شہ رگ ہے ، لہٰذا ہم یہ کیسے گوارا کرسکتے ہیں کہ ہماری شہ رگ ہندو کے قبضے میں ہو۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ اس کے ساتھ محبت اور دوستی کی پینگیں بڑھانے کے لیے بے تاب نظرآتاہے۔ یہ وہی ہندودرندہ ہے جو ایک طرف تو مظلوم کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتاہے اور دوسری طرف پاکستان کی سر حد پر جنگ کابازار گرم کیے ہوئے ہے۔ معصوم اور نہتے شہریوں پربھارتی فائرنگ معمول بنتی جارہی ہے۔ہمیں کشمیرکی جنگ کو اپنی جنگ سمجھناہوگاکیونکہ کشمیر ہمارا دفاع بھی ہے اور ہمارے پانیوں کاماخذ ہونے کی وجہ سے ہماری بقا کامسئلہ بھی۔
Indian Army
دوسری طرف جب ہم کشمیرکی اندرونی صورتحال پر غور کرتے ہیں توہمارے سامنے یہ واضح ہوتاہے کہ قربانیاں ، شہادتیں،پیاروں کے لاشے،دن رات اٹھتے جنازے، گرفتاریاں،نظربندیاں اور لٹتی عصمتیں کشمیریوں کو اپنے آزادی کے اصولی مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا سکیں کشمیرکاوہ جوان جذبوں والابزرگ شیر سید علی گیلانی آج بھی دھاڑتاہے: ”میں بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کو نہیں مانتا، میں بھارتی سامراج کاباغی ہوں اور اس بغاوت کے جرم میں مجھے پھانسی کا پھندا بھی چومناپڑا تومیں اس کو اپنی سعادت سمجھوں گا۔” کشمیری نوجوان آج بھی ہاتھوں میں پتھر پکڑے بکتربندگاڑیوں اور برستی گولیوں کی بوچھاڑ میں پاکستانی پرچم لہراتانظرآتاہے۔ اب کشمیریوں نے سمجھ لیاہے کہ یہ بقا کی جنگ انہیں خود ہی لڑناہوگی، کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گاکیونکہ آج کے محمدبن قاسم کو تواپنی ڈگری عزیزہے، آج کے طارق بن زیاد کواپنامستقبل پیاراہے، آج کے خالدکی تلوار کندہوچکی ہے ۔اس لیے یہ جنگ خود ہی جیتنا ہو گی۔قربانیوں کے سلسلے کوآگے بڑھاناہوگا۔اسی کی خاطر آج کشمیری اٹھ کھڑا ہواہے اور اس نے اس نعرے کواپنا لیاہے۔ ”جوتم نہ دو گے ہم چھین کے لیں گے…آزادی” کشمیریوں کے ان ولولوں کو دیکھ کر امید بندھتی ہے کہ اب ان شاء اللہ منزل دور نہیں۔اب ظلم کے دن تھوڑے ہیں،آزادیوں کاسورج طلوع ہونے والا ہے۔ اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں یہ دریا جو جھوم اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو کہ سر بھی بہت ہیں بازو بھی بہت بڑھتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے